New Age Islam
Mon Nov 10 2025, 07:30 PM

Urdu Section ( 15 Dec 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Bloodshed in Muslim Countries اس مرض کی دوا کرے کوئی

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

14 دسمبر،2022

گزشتہ ہفتے انڈونیشیا اور انڈیا کے سرکردہ علماء کی دہلی میں ایک کانفرنس ہوئی تھی جو دونوں ملکوں کی سرپرستی میں منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے اور تکثیری معاشرے میں رواداری کو فروغ دینے کی حکمت عملی پر غور و خوض کیا۔ اس کانفرنس میں کیا حکمت عملی اپنائی گئی اور آئندہ کے لئے کون سا لائحہ عمل تیار کیا گیا اس کی تفصیل اخبارات میں نہیں آئی اور حکومت کی طرف سے بھی کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔

لیکن اس کانفرنس کے فوراً بعد انڈونیشیا کے جاوا میں ایک خود کش بمبار نے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں ایک پولیس افسر ہلاک اور کئی لوگ زخمی ہو گئے۔ اس حملے کو دہشت گردوں کے طرف سے ردعمل سمجھا جاسکتا ہے۔ اس حملے سے کچھ قبل اور بعد افغانستان، صومالیہ اور یمن میں ، ہوٹل ، مسجد اور مدرسوں میں حملے ہوئے جن میں دو درجن سے زائد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اس سے قبل بھی علماء اور تنظیموں کی طرف سے دہشت گردی کی مذمت کی جا چکی ہے اور ان حملوں کو اسلامی اصولوں کے خلاف قرار دیا جا چکا ہے لیکن پھر بھی انتہا پسند تنظیمیں نہ صرف دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ مدرسوں اور مسجدوں میں حملے کرتی رہتے ہیں جس کے نتیجے میں مسلم بچے اور مسلم۔نمازی سمیت امام اور علمائے دین بھی ہلاک ہوتے ہیں۔

ان دردناک واقعات کے بعد عالم اسلام کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں آتا۔ نہ تو اسلامی حکومتوں کی طرف سے تشدد اور خونریزی پر فکر مندی کا اظہار کیا جاتا ہے اور نہ ہی علماء اور مذہبی تنظیموں کی طرف سے مذمتی بیان یا حملہ آور تنظیموں کے خلاف کفر کا فتوی ہی جاری کیا جاتا ہے.

دسمبر 3 کو یمن کی ایک مسجد میں کسی قبائلی تنظیم کے رکن نے گرینیڈ پھینکا جب مسلمان نماز کے لئے جمع ہوئے تھے۔ اس حملے میں ایک نمازی ہلاک اور بیس نمازی زخمی ہوئے۔

دسمبر 2 کو افغانستان کے ایک مدرسے میں ایک بم دھماکہ ہوا جس میں 19 افراد ہلاک ہوئے۔ ظاہر ہے مہلوکین میں زیادہ تعداد کم سن اور معصوم طلبہ کی ہوگی جو دین کا علم حاصل کر رہے ہوں گے.

اگست کے مہینے میں بھی افغانستان کے ایک مدرسے میں دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا جس میں 20 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ظاہر ہے اس مدرسے میں بھی کم سن طلبہ یعنی مسلمان ہی مارے گئے ہوں گے.

ستمبر کے مہینے میں افغانستان کی ایک مسجد میں نماز کے دوران کسی دہشت گرد نے بم دھماکہ کیا جس کے نتیجے میں امام اور نمازی سمیت 18 افراد ہلاک ہو ئے تھے۔

گزشتہ ماہ یعنی 28 نومبر کو صومالیہ کے دارالسلطنت موغادیشو کے ایک بڑے ہوٹل میں دہشت گردانہ حملہ ہوا جس میں چار افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے میں صومالیہ کا وزیر مالیات بال بال بچ گیا۔

دسمبر کے پہلے ہفتے میں افغانستان کے مزار شریف میں ایک آئل کمپنی کے ملازمین کی بس کو نشانہ بنا کر بم دھماکہ کیا گیا جس میں 7 افراد ہلاک ہوئے

یہ چند دہشت گردانہ واقعات ہیں جو اگست ، ستمبر، نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں ہوئے ہیں۔ اس طرح کے دہشت گردانہ واقعات اور خود کش حملے اسلامی ممالک میں معمول بن چکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اسلامی معاشرہ قتل وخوں اور غارت گری کا عادی ہوچکا ہے۔ اسلامی معاشرہ بے حس ہو چکا ہے اور مسجدوں، اور مدرسوں میں بھی درجنوں مسلمانوں حتی کہ بچوں کی ہلاکت پر بھی ان کا دل مضطرب نہیں ہوتا۔ ان ہلاکتوں پر نہ حکومتیں حرکت میں آتی ہیں اور نہ ہی اسلامی تنظیمیں کسی رد عمل کا اظہار کرتی ہیں۔ ہمارے مفتیان کرام جو اہانت کے واقعات پر تو فتوے جاری کرتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو مسجدوں اور مجلسوں میں اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کی ترغیب بھی دیتے ہیں اور جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کرتےا ہیں لیکن جب خود اسلام کو ماننے والی تنظیموں کے افراد مسجدوں اور مدرسوں میں نماز یا تعلیم کے دوران دہشت گردانہ حملہ کرکے معصوم بچوں سمیت درجنوں مسلمانوں کو ہلاک کر دیتے ہیں تو یہ مفتیان کرام اور یہ اسلامی تنظیمیں خاموش رہتی ہیں ۔ دہشت گردوں کے ذریعہ قرآن اور حدیث کی تعلیمات کیا خلاف ورزی کرنے والے دہشت گردوں اور ان کی سرپرست تنظیموں کے خلاف نہ کوئی احتجاجی جلوس نکالا جاتا ہے، نہ ہی ان کے خلاف کفر کے فتوے جاری کئے جاتے ہیں اور نہ مسجدوں اور مجلسوں میں ان کے خلاف جوشیلی تقریریں کی جاتی ہیں۔ جبکہ مسجدوں مدرسوں یا بازاروں اور رہائشی علاقوں میں خونریزی کرکے معصوم اور نہتے افراد کو قتل کرنا کفر ہے۔

یمن کی مسجد میں جو حملہ ہوا وہ قبائلی رنجش کا نتیجہ تھا۔ مسلمان اب قبائلی رنجش کی بنا پر بھی مسجدوں میں ایک دوسرے کو ہلاک کرنے لگے ہیں ۔ پاکستان میں بھی مسلکی منافرت کے نتیجے میں مسجدوں پر دہشت گردانہ حملے ہوتے رہتے ہیں۔ اور اس تشدد کے خاتمے کے لئے ہمارے علماء سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے اور نہ ہی حکومتوں کے پاس اس مرض کا علاج ہے۔ امت محمدیہ مسلکی اختلافات میں اس طرح الجھی ہوئی ہے کہ اس کے سامنے تشدد اور خونریزی کی اس بھول بھلیاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ مسلمان کسی بھی دہشت گردانہ واقعے یا دہشت گرد تنظیم کو مسلکی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور اسی بنا پر احتجاج کرتے ہیں یا خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ مسلمان اور ان کے ملی نمائندے معصوم بچوں کے قتل پر اس لئے خاموش رہتے ہیں کہ ان کو ہلاک کرنے والے مسلمان ہوتے ہیں اور انہی کے مکتب فکر سے دانستہ ہوتے ہیں۔ لیکن علماء و مفتیان کرام معصوم بچوں ، نمازیوں یا پھر نہتے افراد کے قتل پر خاموش رہ کر دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ انڈونیشیا اور انڈیا کے علماء بھی اس تشدد و غارت گری پر خاموش ہیں جو دہشت گردی کے خاتمے میں علماء کے رول پر گفتگو کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے۔ ہمارے علماء و دانشور سیریا کے اس بچے کی اس بات کو یاد رکھیں کہ ۔ " میں اللہ تعالیٰ سے جاکر سب بتا دوں گا ۔۔"۔

-------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/bloodshed-muslim-countries/d/128637

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..