بصیر نوید
23 فروری 2024
سندھ میں گزشتہ دنوں ایک
سانحہ پیش آیا جس میں ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر جناب ہدایت لوہار کو سر عام دو موٹر
سائیکل سوار "نامعلوم" افراد نے قتل کردیا۔ لوہار صاحب اس سے قبل 2017
سے لیکر 2019 تک مسلسل فوج کے اذیت رسانی کے مراکز میں انسانیت سوز ٹارچر سے گذر
چکے تھے۔ ان کی بازیابی کے بعد وہ مختلف جسمانی اور دیگر بیماریوں کا شکار رہے اور
ان سب کے باوجود انہوں نے بچوں کو تعلیم دینے جیسے فرائض سے غفلت نہیں برتی۔
پورے سندھ میں محترم
استاد کیلئے سوگ منایا جارہا ہے جس میں سندھ، اور بلوچستان کی سول سوسائٹیز نے
اپنے احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے لوہار صاحب کے قتل کو مبینہ طور پر
ملٹری ایجنسیوں کی کارروائی قرار دیا ہے مگر حیرانگی ہوتی ہے کہ پنجاب اور خیبر
پختونخوا کی سول سوسائٹیز کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں آیا، یہ کیسا رویہ ہے؟ ایسا
نہ کیا جائے اور محکوم اقوام کے ساتھ ہونے والے بہیمانہ طرز عمل کی تمام اقوام اور
ان کی سول سوسائٹیز کو حمایت کرنی چاہئے۔
ہدایت لوہار کا قصور یہ
تھا کہ وہ اسکول جانے والے بچوں میں سائنسی سوچ اور ہر چیز میں اسکی علت جاننے کی
صلاحیتوں کو ابھارتے تھے، انہوں نے کبھی گاؤں چھوڑ کر اعلیٰ زندگی کی بھاگ دوڑ کو
ترجیح نہیں دی وہ سیکولر طرز زندگی کے حامی تھے، شاگردوں کو سوالات کرنے پر انکی
حوصلہ افزائی کرتے تھے، یہ درست ہے کہ وہ سندھی قوم پرست تھے وہ سندھ کی حق خود
اختیاری کے بہت بڑے داعی تھے اور جی ایم سید کے حامی تھے۔ ہدایت لوہار صاحب بچوں
کو سندھ کی تاریخ و تمدن سے آگاہ کرتے تھےجو انکا سب سے بڑا جرم تھا۔
پنجاب اور پختونخوا کی
سول سوسائٹیز یہ سمجھنا چاہئے کہ اسکول کے ایک استاد کو دو سال تک اپنے ٹارچر
کیمپس میں رکھنے کے باوجود فوج کو ان سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر پائے اور انکی
ثابت قدمی کے باعث فوج کو ناکامی رہی۔ پھر انکی رہائی کے بعد اپنی شکست کے بعد
لوہار صاحب کو قتل کردیا، یقینی طور پر یہ بات مختلف سوالات اٹھاتی ہے۔ پنجاب اور
کے پی کی سول سوسائٹیز کو اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
ہدایت لوہار جبری گمشدگی
کا دو سال تک شکار رہے اور ان کی بیٹیوں، سورٹھ لوہار اور سسئی لوہار اپنے والد
اور دیگر جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے سڑکوں پر احتجاج بھی کرتی رہیں جس میں
وہ پولس لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کا شکار بھی رہیں۔ہدایت صاحب کی بازیابی کے
باوجود ان کی بچیوں نے ملک بھر میں جبری طور پر گمشدہ افراد (حقیقت میں فوج کے
ہاتھوں اغوا کئے گئے افراد) کی بازیابی کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور یہ کبھی
نہیں سوچا کہ جبری گمشدگی کا شکار فرد کس قوم یا صوبے سے تعلق رکھتا ہے یا رکھتی
ہے۔ ان لڑکیوں اور مہہ رنگ اور ان کی ساتھیوں سے کچھ سبق حاصل کرلیا جائے کہ جبری
گمشدگیاں ایک بھیانک جرم ہے اور انسانوں کے پیدائشی اور جینے کے بنیادی حقوق کے
خلاف ہے چاہے ان کا تعلق کسی بھی چھوٹے یا بڑے صوبے سے ہو۔
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism