انبیاء کے ہم عصروں نے بارہا
اسی فعل کا ارتکاب کیا ہے جسے اب 'توہین رسالت' کہا جاتا ہے۔
اہم نکات:
ہر زمانے میں انبیاء کے ہم
عصروں نے ان کی تضحیک و تذلیل کی اور انہیں ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا
'نبی کی دشنام طرازی' سزا کا موضوع نہیں ہے
توہین رسالت ایک پرامن نصیحت
کا موضوع ہے۔
-----
ڈاکٹر اسد
سید، نیو ایج اسلام
15 دسمبر 2021
اسلام میں توہین رسالت جسمانی
سزا کے بجائے فکری بحث کا موضوع ہے۔ یہ تصور قرآن میں بالکل واضح ہے۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ زمانہ قدیم
سے خدا نے ہر بستی اور ہر برادری میں یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجے۔ اور ان تمام انبیاء
کے ہم عصروں نے ان کے بارے میں منفی رویہ اپنایا۔
قرآن مجید میں 200 سے زائد
آیات ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کے ہم عصروں نے بار بار اسی فعل کا ارتکاب
کیا جسے اب 'توہین رسالت یا رسول اللہ کی دشنام طرازی یا 'نبی کے بارے میں گندی زبان
کا استعمال' کہا جاتا ہے۔ انبیاء کو ہر زمانے میں ان کے ہم عصروں نے مذاق اور زیادتی
کا نشانہ بنایا ہے (36:30)؛ قرآن کے اندر اس سلسلے میں بعض الفاظ بیان کئے گئے ہیں
جن میں "جھوٹا" (40:24)، "مجنون" (15:6)، "گڑھنے والا"
(16:101)، "احمق انسان" (7:66) شامل ہیں۔ قرآن میں انبیاء کے ہم عصروں بدسلوکی
کے جو الفاظ استعمال کئے ان کا ذکر ہے لیکن قرآن میں کہیں بھی اس پر کوڑے مارنے، موت
کی سزا دینے یا کسی اور جسمانی سزا کی تجویز نہیں ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ
'پیغمبر کو گالی دینا' سزا کا نہیں بلکہ پرامن نصیحت کا موضوع ہے۔ یعنی جو شخص رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے کا مرتکب ہو اسے جسمانی سزا نہیں دی جانی چاہیے
بلکہ اس کے ذہن کو سنوارنے کے لیے دلائل دیے جائیں۔ بالفاظ دیگر توہین کے مرتکب کو
قائل قائل کرنے کے لئے اسے سزا دینے کے بجائے پرامن طریقے سے اس کی اصلاح کے کوشش کی
جانی چاہیے۔
جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کے بارے میں منفی رویہ اپناتے ہیں ان کا فیصلہ خدا کرے گا، جو ان کے دلوں کے رازوں
کو جانتا ہے۔ اہل ایمان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اجتناب کی پالیسی پر عمل کریں اور
خیر خواہی کے ساتھ ان تک خدا کا پیغام اس طرح پہنچائیں کہ ان کی تشریح ہو سکے۔
اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو
یہ بھی ہے کہ قرآن مجید میں کسی مقام پر بھی یہ نہیں کہا گیا کہ جو کوئی بھی نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے اسے ایسا کرنے سے روکا جائے اور اگر وہ تب بھی ایسا کرے
تو اسے سخت سزا دی جائے۔ اس کے برعکس، قرآن مومن کو حکم دیتا ہے کہ وہ مخالفین کو برا
بھلا نہ کہیں: "اور انہیں گالی نہ دو وہ جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ
اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے زیادتی اور جہالت سے" (6:108)۔
قرآن کی یہ آیت واضح کرتی ہے کہ
"میڈیا واچ" کے دفاتر قائم کرنا اور پیغمبر کی اہانت میں ملوث شخص کو تلاش
کرنا اور پھر ان کے قتل کا منصوبہ بنایا کسی بھی قیمت پر مومنوں کا کام نہیں ہے۔ اس
کے برعکس، قرآن مومنوں کو ایسی حرکتوں سے باز رہنے کی تاکید کرتا ہے کیونکہ ہو سکتا
ہے کہ لوگ بھڑک جائیں اور وہ اسلام اور پیغمبر کو گالی دے کر بدلہ لینے کی کوشش کریں۔
قرآن کا یہ حکم واضح کرتا ہے کہ یہ ذمہ داری مومنوں پر عائد ہوتی ہے، بجائے اس کے کہ
دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور انہیں سزا دی جائے۔
اس زاویے سے دیکھا جائے تو موجودہ
دور کے مسلمانوں کا موقف قرآن کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔ جب بھی کوئی - ان کے مطابق
- تقریری یا تحریری طور پر 'پیغمبر کی توہین' کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ فوری طور پر
مشتعل ہو جاتے ہیں اور سڑکوں پر جلوس نکال کر اس کا جواب دیتے ہیں، جو اکثر پرتشدد
ہو جاتے ہیں۔ اور پھر وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان تمام لوگوں کا سر قلم کیا جائے جو نبی
کی توہین کرتے ہیں۔
English
Article: Quran Does Not Prescribe Physical Punishment for
Blasphemy – The Stance Of Present-Day Muslims Goes Totally Against The
Teachings Of The Quran
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism