New Age Islam
Sat Feb 15 2025, 12:14 PM

Urdu Section ( 24 Aug 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Nigerian Blasphemy Case Is another Reminder That Sharia Law Needs To Go توہین رسالت کیس ایک اور مثال ہے کہ شریعت قانون کو ہٹانا ضروری ہے

By Arshad Alam, New Age Islam

ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 1 اکتوبر 2020

نائجیریا میں ایک تیرہ سالہ بچے کو دس سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ ریاست کانو نائیجیریا کی ان بارہ ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں شرعی قانون لاگو ہے۔ عدالت نے اس بچے کو توہین کا مجرم قرار دینے میں دیر نہیں لگائی جو کہ ایک ایسا 'جرم' ہے جسے ثابت کرنے کے لیے گواہوں کی شہادتوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اس کا معاملہ یہ تھا کہ اس لڑکے نے مبینہ طور پر دوسرے بچوں کے ساتھ جھگڑے کے دوران اللہ کے بارے میں ہتک آمیز ریمارکس کسے تھے۔

 

 

یہ راحت کی بات ہے کہ نائیجیریا میں شریعت عدالت کے فیصلوں کو سیکولر عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے جس سے متعلقہ لڑکے کو کچھ راحت مل سکتی ہے جس کا مستقبل غیر یقینی اور مایوس کن ہو چکا ہے ۔ یہ بھی سکون کی بات ہے کہ اس کے کیس کی اپیل اس ملک کی اعلیٰ سیکولر عدالتوں میں کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود جو بھی ایک مرتبہ توہین کا ملزم بنا دیا جاتا ہے تو اپنی برأت کے باوجود وہ ایک بے وقعت زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجا تا ہے اور اپنی پوری زندگی خوف و ہراس کے سائے گزارتا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کی آسیہ بی بی کے معاملے میں بھی انہیں جان کا خطرہ اتنا زیادہ ہو گیا تھا کہ انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔ صرف امید ہی کی جا سکتی ہے کہ اس نائجیریائی نوجوان کو سیکولر عدالتیں آزاد کر دیں گی اور اس کے بعد اسے ایک معمولی زندگی گزارنے کی اجازت دی جائے گی۔

جدید قانون کا بنیادی محور جرمانہ ہے۔ یعنی یہ نظریہ کہ لوگ اپنے اندر اصلاح کی صلاحیت فطری طور پر رکھتے ہیں اور اپنی سزا کے بعد معاشرے میں مکمل طور پر اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسلامی قانون اس اصول پر نہیں چلتا ہے۔ بلکہ یہ تعزیراتی اور جابرانہ ہے۔ اسلامی قانون کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ لوگوں کی اصلاح نہیں کی جا سکتی اس لیے کہ کچھ انسانی فطرت دائمی ہوتی ہے اور انہیں فوری طور پر اس انداز میں سزا دی جانی چاہیے کہ وہ دوبارہ اسی غلطی کا ارتکاب نہ کریں۔ ہر جگہ جاگیردارانہ قوانین جابرانہ تھے لیکن اس کے بعد دنیا انہیں اپنے پیروں تلے روند کر آگے نکل چکی ہے۔ اسلامی دنیا کے بہت سے حصوں میں یہ معاملہ نہیں ہے جہاں اس طرح کے قوانین اب بھی موجود ہیں۔ یہ دلیل بے بنیاد ہے کہ یہ خدا کا قانون ہے اس لیے اس میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی، لیکن یہ اتنا مضبوط ہے کہ اگر کوئی اس کے خلاف بولتا ہے تو وہ حکومت کا دشمن بن جاتا ہے۔

سزا کے اس فیصلے کو بین الاقوامی خبروں میں جگہ ملی، نہ کہ صرف اس وجہ سے کہ یہ سخت گیر ہے بلکہ اس وجہ سے بھی لوگ دہشت میں تھے کہ بچے بھی اس گھناؤنے قانون کا شکار ہو گئے۔ یونیسیف نے اس فیصلے کی سخت تنقید کی ہے اور نائجیریا کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ متعلقہ بچے کے وقار اور معمولات زندگی کو بحال کرے۔ آشوٹز کے ڈائریکٹر سمیت بہت سے لوگوں نے رضاکارانہ طور پر سزا یافتہ بچے کی جگہ جیل میں خود وقت گزارنے کی پیشکش کی ہے۔ مسلم دنیا میں بھی بہت سے لوگوں نے اس طرح کی سزا پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور نائجیریا کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بچے پر رحم کریں کیونکہ رحم اور بخشش اسلام کی ایک اہم خوبی ہے۔

امید ہے کہ ان تمام مداخلتوں کی وجہ سے کچھ اچھا ہو گا اور بچے کا مستقبل برباد ہونے سے بچ جائے گا۔ لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کیوں ان تمام طرح کی درخواستوں سے وہ بنیادی سوالات غائب ہیں جن کی وجہ سے وہ لڑکا قید میں ڈالا گیا۔

موجودہ اسلامی قانون ایک بچے کی اس تعریف کو قبول نہیں کرتا ہے جسے جدید قانونی نظام میں منظوری حاصل ہے۔ کیونکہ جدید قانونی نظام میں بچوں کی عمر 16 سے 18 سال سے کم مانی گئی ہے جبکہ اسلامی قانون میں بچوں کی کوئی طے شدہ عمر نہیں ہے۔ اس میں بلوغت کا اعتبار کیا جاتا ہے اور بلوغت کی شناخت لڑکوں میں بعض جسمانی تبدیلیوں مثلا چہرے پر بالوں کے ظاہر ہونے وغیرہ سے کی جاتی ہے۔ اس طرح اسلامی قانون میں بلوغت کو پختگی اور ذمہ داری سے جوڑ دیا جاتا ہے حالانکہ پوری دنیا میں بلوغت اس دور کو قرار دیا جاتا ہے جب بچے کو حقیقی جذباتی عدم استحکام کا سامنا ہوتا ہے۔ بلوغت کا آغاز ہر فرد کے لیے مختلف ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے حالانکہ حنفی اور شافعی فقہ دونوں کا موقف یہ ہے کہ یہ بارہ قمری سال (11.6 سال) کے بعد کسی بھی وقت شروع ہو سکتا ہے۔ لہذا اگر کوئی بچہ اس عمر کو عبور کرچکا ہے اور اسلامی جج اس کی تصدیق سے مطمئن ہے تو اس کے پاس بچے کو بالغ سمجھنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ نائجیریا کے معاملے میں ایسا ہی ہوتا ہوا معلوم ہو رہا ہے: ملزم کی عمر 13 سال ہے اور اس لیے اسلامی قانون کے مطابق بطور بالغ مقدمہ چلائے جانے کے لیے موزوں ہے۔ اس میں جج کی تنقید کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ اس قانونی فریم ورک کے اندر بالکل حق بجانب ہے جس میں وہ کام کر رہا ہے۔

 صرف جج ہی نہیں بلکہ اسلامی دہشت گرد بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں کہ بلوغت کے آغاز کے ساتھ ہی اسے بالغ سمجھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے تحریک طالبان نے پشاور میں سیکڑوں اسکولی بچوں کے قتل عام کے بعد پوری دنیا کو یہ علی الاعلان بتایا تھا کہ انہوں نے نابالغ بچوں کو نشانہ نہ بنا کر ’’ کافی احتیاط ‘‘ سے کام لیا ہے۔ جن لوگوں کے چہرے پر کوئی بھی آثار بلوغت ظاہر تھے ان کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے بغیر کسی تأسف کے قتل کر دیا گیا۔ وہ قتل کو قانونی شکل دینے کی کوشش میں دنیا کو یہ بھی بتا رہے تھے کہ انہوں نے اسلام کے مقرر کردہ قانونی پیرامیٹر کے اندر انہیں قتل کیا ہے۔

 مسلم اور دوسرے لوگ جو نائجیریا کے اس نوجوان کی سزا سے پریشان ہیں انہیں سمجھنا چاہیے کہ مسئلہ اس مخصوص ملک یا جج کا نہیں ہے۔ بلکہ مسئلہ اسلام کے اس مروجہ نظریہ کا ہے جو اس طرح کی قانونی کارروائی کو جائز قرار دیتا ہے۔ اسلامی قانون فرسودہ ہو چکا ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور جب تک ایسا نہیں ہوتا ، چاہے ہم اس بچے کی قسمت پر کتنا ہی ماتم کرتے رہیں، اس طرح کی سزائیں معمول کے مطابق دی جاتی رہیں گی۔

-----

English Article:  The Nigerian Blasphemy Case Is another Reminder That Sharia Law Needs To Go

URL:  https://www.newageislam.com/urdu-section/blasphemy-nigeria-sharia/d/125264


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..