نصیر احمد، نیو ایج اسلام
25 جولائی 2024
قرآن کے پیغامات اس صورت
میں بے وقعت ہو سکتے ہیں، جب اس میں ایسی منسوخ آیات مان لی جائیں، جو دوسری غیر
منسوخ آیات سے متصادم ہوں۔ قرآن آخری آسمانی کتاب ہے، اور اگر اس میں منسوخ آیات
موجود ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے، کہ خدا اپنے پیغام کو واضح اور شکوک و شبہات سے
بالاتر انداز میں، لوگوں تک پہنچانے میں ناکام رہا ہے۔ کیا خُدا اُن منسوخ آیات کو
قرآن سے دور رکھنے سے قاصر تھا، جو ہمارے لیے الجھن کا سبب ہیں؟ اگر ہاں، تو پھر
وہ کیسا خدا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں، کہ خدا کا
کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
------
یہ مضمون وی اے محمد اشرف
کے مضمون "Undermining the Quranic Message of
Tolerance: The Roles of Islamic Supremacists and Islamophobes" کا جواب
ہے۔
قرآن کے پیغامات اس صورت
میں بے وقعت ہو سکتے ہیں، جب اس میں ایسی منسوخ آیات مان لی جائیں، جو دوسری غیر
منسوخ آیات سے متصادم ہوں۔ قرآن آخری آسمانی کتاب ہے، اور اگر اس میں منسوخ آیات
موجود ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے، کہ خدا اپنے پیغام کو واضح اور شکوک و شبہات سے
بالاتر انداز میں، لوگوں تک پہنچانے میں ناکام رہا ہے۔ کیا خُدا اُن منسوخ آیات کو
قرآن سے دور رکھنے سے قاصر تھا، جو ہمارے لیے الجھن کا سبب ہیں؟ اگر ہاں، تو پھر
وہ کیسا خدا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں، کہ خدا کا
کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
لہٰذا، بطور کلام اللہ کے،
قرآن کا معیار حق یہ ہے کہ اس میں منسوخ آیات نہ ہوں۔ لہٰذا، قرآن اس معیار پر
کھرا اترنے میں ناکام ہو جائے گا، اگر ہمیں اس میں ایک بھی ایسی آیت مل جائے، جو
کسی معقول وجہ کے بغیر دوسری آیت سے متصادم ہو۔ کیا قرآن اس معیار حق پر کھڑا
اترتا ہے؟ ہاں۔
قرآن کی صحیح تفہیم حاصل
کرنے کا فریم ورک
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
کا پیغمبرانہ مشن کئی مراحل سے گزرا، اور ہر مرحلے کا اپنا ایک الگ سیاق و سباق
ہے، اور قرآن مجید کا مطالعہ کرتے وقت اس کی آیات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے،
ہر سیاق و سباق کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
مرحلہ اول؛ ماقبل ہجرت
پہلا مرحلہ ما قبل ہجرت کا
دور ہے، جس کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے، نئے مذہب کی تبلیغ شروع کی،
اور اس کی پاداش میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے سرداروں کی شدید دشمنی اور
مخاصمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان ایک چھوٹی سی اقلیت تھے، اور
انہیں کئی طریقوں سے ستایا گیا، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی
وہاں عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔
اس عرصے کے دوران مسلمانوں
کو صبر و تحمل سے کام لینے کی تعلیم دی گئی۔ کیونکہ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ
علیہ وسلم کوئی حکمران نہیں تھے، اس لیے اس دور میں کوئی قانون سازی والی آیات نازل
نہیں ہوئی، سوائے اخلاقی تعلیمات کے۔
تو، ہمیں آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے مشن کے اس مرحلے سے کیا سیکھ ملتی ہے؟ اس دور میں پیغمبر اسلام صلی
اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کا طرز عمل، اقلیت میں رہنے والے مسلمانوں کے
لیے ایک نمونہ عمل ہے۔ اس دور میں، ان کے لیے نہ تو حدود کے قوانین تھے، اور نہ ہی
انصاف پرست جنگ کی آیات۔ اس وقت ان کے لیے یہی حکم تھا کہ ’’جو قیصر کا ہے وہ اسے
دیا جانا چاہیے، اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دیا جانا چاہیے‘‘، جیسا کہ محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل تھا، اور اسی طرح کے حالات میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا طریقہ تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں ملک کے
قانون کی پیروی کرنا ہوگی، سوائے ذاتی معاملات یا اجتماعی مسائل جیسے شادی، طلاق،
وراثت وغیرہ کے۔
مرحلہ دوم؛ قانون سازی کا
مرحلہ
ایک بار جب پیغمبر اسلام
صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کر گئے، اور وہاں کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو اپنا لیڈر تسلیم کر لیا، تو آپ کے لیے اسلامی قانون نافظ کرنے کا راستہ
کھل گیا۔ قانون سازی والی تمام آیات ہجرت کے بعد نازل ہوئیں، اور وہ صرف ان
مسلمانوں کے لیے ہیں، جو اسلامی حکومت کے زیر سایہ رہتے ہوں۔ نہ کہ اقلیت میں رہنے
والے مسلمانوں کے لیے۔
مرحلہ سوم؛ جنگ کا مرحلہ
یہ مرحلہ قانون سازی کے
مرحلے کے ساتھ ساتھ پایا جاتا ہے۔ اب جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک حکمران بن
چکے تھے، اور ایک علاقہ آپ کے زیر حکومت تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم
کی حفاظت کر سکتے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت
دی گئی، جو آپ سے لڑتے تھے۔ وہ تمام آیات جن میں لڑائی کا حکم وارد ہوا ہے، ان میں
مذہب و ملت کی کوئی تخصیص نہیں ہے، بلکہ اس سے قطع نظر وہ سب پر نافذ ہوتی ہیں۔ اگر
مسلمان ظالم بن جائیں، تو غیر مسلم انہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔
ان آیات میں "کفرو" کا غلط ترجمہ "کافر" کیا گیا ہے۔ اگر
"کفرو" کا صحیح ترجمہ "ظالم" کیا جاتا ہے، تو ہم مذہب و ملت
سے قطع نظر ایک آفاقی معنی اخذ کر سکتے ہیں۔
جنگ کے اصول اس مرحلے میں
جنگ سے متعلق تمام آیات پر غور کر کے ہی اخذ کیے گئے ہیں، جو بالکل واضح اور کسی
بھی طرح کے ابہام سے پاک ہیں۔ ان آیات میں سے کسی میں بھی، محمد (صلی اللہ علیہ
وسلم) کے پیغمبرانہ مشن کے زمانے اور حالات کی بنیاد پر، کوئی استثناء نہیں ہے۔
لہٰذا یہ اصول ابدی، آفاقی اور وحی الہی پر مبنی ہیں۔ وہ تمام صحیفوں میں مشترک
ہیں، اور ان سے تمام انسان رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں، چاہے وہ دین اسلام کی پیروی
کرتے ہوں یا نہیں۔ اور وہ واضح، غیر مبہم اصول حسب ذیل ہیں:
1. دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مذہب میں کسی بھی قسم کا
جبر، یا پرامن طریقے سے مذہب کی پیروی کرنے سے، کسی کو روکنا ظلم ہے۔
2. جنگ کسی بھی قوم کے خلاف، کسی بھی ظلم کو ختم کرنے کے لیے ضروری
ہے۔ مذہبی ستم یا کسی اور بھی قسم کی جور و جفا کو، ظلم کہا جا سکتا ہے۔ ظالم اور
مظلوم کا دین دھرم نہیں دیکھا جائے گا۔
3. جنگ کا آغاز صرف ایک حکمران ہی کر سکتا ہے، جس کا اپنا ایک
علاقہ ہو، جس پر اس کا سیاسی غلبہ ہو۔ خانہ جنگی جائز نہیں۔ ایسے ہی حکمران کے زیر
اقتدار علاقے کے لوگ، جنگ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ظالم کے زیر تسلط رہنے والے لوگ،
اگر اپنے ظالم بادشاہ سے جنگ کرنا چاہتے ہوں، تو پہلے انہیں اس علاقے سے ہجرت کرنا
ہوگی۔
4. جنگ شرع کرنے کا واحد جواز ظلم کے خاتمے کے لیے ظالموں کے خلاف
لڑنا ہے۔ اس کے علاوہ، جنگ کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
ابدی طور پر درست اور
معقول آیات کے علاوہ، آپسی تعامل سے متعلق چند ایسی آیات بھی ہیں، جو صرف مخصوص
حالات میں لاگو ہوتی تھیں، جیسے:
(5:51) اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں
ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے
ہے بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا۔
اگرچہ مدینہ کے یہودی اور
عیسائی میثاق مدینہ پر دستخط کرنے والے تھے، لیکن وہ اسلام کے عروج سے خوفزدہ تھے،
اور مسلمانوں کے دشمنوں سے بھی گٹھ جوڑ رکھتے تھے۔ جنگ کے دور میں، غداری کے حقیقی
واقعات کی بنیاد پر، غداری کے اندیشے کی بنیاد پر، مسلمانوں کو ان سے دوستی کرنے
سے خبردار کیا گیا تھا۔ مندرجہ بالا آیت کا محرک، وہ جنگی ماحول ہے، جب کچھ لوگ،
اگرچہ کھلم کھلا تو نہیں، مگر پس پردہ دشمن کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھتے تھے اور ان کا
ساتھ دیتے تھے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ فاصلہ برقرار رکھنا ضروری ہے۔
مرحلہ چہارمّ فیصلے کا
مرحلہ
سورۃ توبہ کی پہلی 29
آیات، مفتوح لوگوں کے بارے میں فیصلے پر مشتمل ہیں، اور ان کو اسی طرح کے حالات
میں بطور نمونہ استعمال کیا جا سکتا ہے، تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ انصاف پر
مبنی جنگ میں، شکست کھانے والوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے۔ اور اس کے علاوہ ان
آیات کا اطلاق کسی بھی دوسری صورت میں نہیں کیا جا سکتا۔
جو انتہا پسند اپنی
کارستانیوں کو درست ثابت کرنے کے لیے، آیت 9:5 کا حوالہ دیتے ہیں، وہ گمراہ ہیں۔
وہ 9:5 پر نافذ ان پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہیں، جو اس سے ماقبل کی چار آیات
اور ما بعد کی آٹھ آیات سے نافذ ہیں۔
مرحلہ پنجم؛ امن کی طرف
واپسی
اس مرحلے کے دوران نازل
ہونے والی آیات رواداری، انصاف اور تنوع کے احترام پر حتمی ہیں:
(5:5) آج تمہارے لئے پاک
چیزیں حلال ہوئیں، اور کتابیوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہوا، اور تمہارا کھانا ان
کے لئے حلال ہے، اور پارسا عورتیں مسلمان اور پارسا عورتیں ان میں سے جن کو تم سے
پہلے کتاب ملی جب تم انہیں ان کے مہر دو قید میں لاتے ہوئے نہ مستی نکالتے اور نہ
ناآشنا بناتے اور جو مسلمان سے کافر ہو اس کا کیا دھرا سب اکارت گیا اور وہ آخرت
میں زیاں کار ہے۔
اب آپ یہودیوں اور
عیسائیوں سے نہ صرف دوستی کر سکتے ہیں، بلکہ ان کے ساتھ روٹی بھی توڑ سکتے ہیں،
ایک دوسرے کے کھانے میں شریک ہو سکتے ہیں، اور ان کی عورتوں سے ان کا مذہب تبدیل
کیے بغیر، اور انہیں ان کے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دیتے ہوئے، شادی بھی کر
سکتے ہیں۔
(5:8) اے ایمان والوں اللہ
کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس
پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے، اور
اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو تمہارے کامو ں کی خبر ہے۔
تمام پچھلی نفرتوں اور
دشمنیوں کو بھلا دیا جائے، اور مکمل سیکولر انصاف، تمام لوگوں کو فراہم کیا جائے،
قطع نظر ان کے مذہب و ملت کے۔
(49:13) اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور
تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ
عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔
(5:48) اور اے محبوب ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری اگلی کتابوں
کی تصدیق فرماتی اور ان پر محافظ و گواہ تو ان میں فیصلہ کرو اللہ کے اتارے سے اور
اسے سننے والے ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اپنے پاس آیا ہوا حق چھوڑ کر، ہم نے
تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ رکھا اور اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت
کردیتا مگر منظور یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں دیا اس میں تمہیں آزمائے تو بھلائیوں کی
طرف سبقت چاہو، تم سب کا پھرنا اللہ ہی کی طرف ہے تو وہ تمہیں بتادے گا جس بات میں
تم جھگڑتے تھے۔
مرحلہ پنجم کی آیات کا
اطلاق، مرحلہ دوم کی آیات کے علاوہ، تمام ملکی معاملات میں تمام اسلامی ممالک پر
ہونا چاہیے۔ مرحلہ سوم اور مرحلہ چہارم کی آیات، ملکی معاملات میں غیر نافذ ہیں،
کیونکہ ان کا اطلاق صرف ریاست پر صرف اس صورت میں ہوتا ہے، جب اسے انصاف کے لیے
جنگ کرنے کی ضرورت پیش آ جائے۔ یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز (غیر ریاستی عناصر) کے لیے
نہیں ہیں۔ مرحلہ اول کی آیات تمام لوگوں پر ہر حال میں نافذ ہیں، خواہ ان کی حالت
کچھ بھی ہو۔
آیت 5:51، جس میں
"دوسروں" کے ساتھ دوستی کی ممانعت وارد ہوئی ہے، اور 5:5 کے درمیان
بظاہر تضاد، جس میں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے درمیان شادی بیاہ کی اجازت وارد
ہو ئے ہے، اس وقت مرتفع ہو جاتا ہے، جب قرآنی آیات کی درجہ بندی، پیغمبرانہ مشن کے
مرحلے کے مطابق کر دی جائے، اور صرف انہیں آیات کی پیروی کی جائے، جو آپ کے موجودہ
حالات کے مطابق ہوں۔
سورہ 98 کی صحیح تفہیم
محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کی بعثت سے قبل، ایک عرب نبی کی آمد کے قصے کچھ اہل کتاب میں مشہور تھے، اور بعض
مکہ کے مشرکین کو بھی، ان کی بہت زیادہ امیدیں اور توقعات تھیں۔ اور بظاہر یہ عرب
کے باشعور، بااثر اور طاقتور لوگوں میں سے تھے۔ مندرجہ ذیل مکی آیات میں اسی کی
طرف اشارہ کیا گیا ہے:
سورہ 37:
167|اور بیشک وہ کہتے تھے
168|اگر ہمارے پاس اگلوں کی کوئی نصیحت ہوتی
169|تو ضرور ہم اللہ کے چُنے ہوئے بندے ہوتے
170|تو اس کے منکر ہوئے تو عنقریب جان لیں گے
اور یہ کہ، "اور ان
میں وہ لوگ تھے جنہوں نے کہا" واضح طور پر سب کے لیے نہیں، بلکہ کچھ لوگوں کے
لیے ہے۔
اب ہم سورہ 98 پر غور
کریں:
1|کتابی کافر اور مشرک اپنا دین چھوڑنے کو نہ تھے جب تک ان کے پاس
روشن دلیل نہ آئے
2|وہ کون وہ اللہ کا رسول کہ پاک صحیفے پڑھتا ہے
3|ان میں سیدھی باتیں لکھی ہیں
4|اور پھوٹ نہ پڑی کتاب والوں میں مگر بعد اس کے کہ وہ روشن دلیل
ان کے پاس تشریف لائے
5|اور ان لوگوں کو تو یہی حکم ہوا کہ اللہ کی بندگی کریں نرے اسی
پر عقیدہ لاتے ایک طرف کے ہوکر اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں اور یہ سیدھا دین
ہے،
6|بیشک جتنے کافر ہیں کتابی اور مشرک سب جہنم کی آگ میں ہیں ہمیشہ
اس میں رہیں گے، وہی تمام مخلوق میں بدتر ہیں،
98:1 میں جن کفارو کا تذکرہ ہے، وہ اہل کتاب کے مخصوص گروہ، اور
مذکورہ بالامشرکین ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے تمام لوگ
"دوسرے" میں شامل نہیں ہیں، اور آج کے لوگوں میں سے تو کوئی بھی نہیں۔
یہ لوگ علم والے تھے، اور ایک ایسے نبی کے آنے کی توقع رکھتے تھے، جس کے انکار کی
کوئی وجہ نہ تھی، پھر بھی انہوں نے اس نبی کا انکار کیا۔ ان کا کفر بنیادی وجوہات
کی بنا پر انتہائی سخت قسم کا ہے، جس کی وجہ سے وہ بدترین مخلوق ہیں۔
بہترین مخلوقات
7|بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہی تمام مخلوق ہیں بہتر
ہیں،
8|ان کا صلہ ان کے رب کے پاس بسنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں
بہیں ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں، اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی یہ اس کے لیے ہے
جو اپنے رب سے ڈرے
مخلوقات میں سب سے افضل،
اس سورہ کے نزول کے وقت کے تمام مسلمان ہیں، اس دور کے بعد آنے والے تمام مسلمان
نہیں۔ یہ وہ اولین مسلمان ہیں جن کے بارے میں اور بھی کئی آیات نازل ہوئی ہیں۔ یہ
سورۃ غالباً جنگ بدر سے پہلے نازل ہوئی تھی، جب ہر مسلمان اسلام کے لیے عظیم
قربانیاں دینے والا تھا۔
مشرکین میں سے صرف بعض کو
کفرو قرار دینے سے، یہ بات واضح ہو جاتی ہے، کہ قرآن نے کبھی بھی مشرکین کو کافروں
سے تشبیہ نہیں دی۔ عہد نبوی کے تمام مشرکین کو کبھی کافر نہیں سمجھا گیا۔
English
Article: Countering The Bigoted Islamic Scholarship That
Undermines the Quranic Message of Tolerance
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism