New Age Islam
Fri Apr 25 2025, 10:17 AM

Urdu Section ( 27 Sept 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Meeting between Mohan Bhagwat and Muslim Intellectuals Shows Mutual Concern and Understanding Over Sensitive Issues موہن بھاگوت اور مسلم دانشوروں کی ملاقات حساس مسائل پر باہمی تشویش اور افہام و تفہیم کو ظاہر کرتی ہے

 حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت جاری رہنی چاہیے۔

 اہم نکات:

1.      مسلم دانشوروں نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی تاکہ حساس مسائل پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔

2.      سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے مذاکرات کو کافی نتیجہ خیز قرار دیا۔

3.      میٹنگ میں گائے ذبیحہ، حجاب، فرقہ وارانہ کشیدگی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بھاگوت نے کہا کہ جب مسلمان انہیں کافر کہتے ہیں تو ہندو اسے اپنی توہین محسوس کرتے ہیں۔ لفظ کافر اب گالی بن چکا ہے۔

4.      دونوں برادریوں کے مزید ممبران کے ساتھ مزید بات چیت کی جائے۔

 ------

 نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 22 ستمبر 2022

موہن بھاگوت

-------

میڈیا رپورٹوں کے مطابق مسلم دانشوروں کے ایک وفد نے 22 اگست 2022 کو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی جس میں ہندو اور مسلم دونوں برادریوں سے متعلق کچھ حساس مسائل پر بات چیت کی گئی۔ اس وفد میں سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ، دہلی کے سابق ایل جی نجیب جنگ اور نئی دنیا کے ایڈیٹر بھی شامل تھے۔ یہ ملاقات ایک اہم تقریب تھی کیونکہ یہ ملک کی دو بڑی مذہبی برادریوں کے درمیان بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی کا حل تلاش کرنے کے مقصد سے منعقد کی گئی تھی۔ جن مسائل پر بحث ہوئی ان میں مبینہ طور پر حجاب، گائے ذبیحہ، عام ہندوؤں کے لیے لفظ کافر کا استعمال اور عام مسلمانوں کے لیے لفظ جہادی کا استعمال اور ملک کے دیگر سلگتے ہوئے مسائل تھے۔

 جناب ایس وائی کے مطابق بات چیت انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی اور دونوں فریقین نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا تاکہ مسائل کا حل نکالا جا سکے اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔

جناب ایس وائی قریشی نے ایک ٹی وی چینل کو بتایا کہ انہوں نے اپنی ٹیم کی جانب سے مسٹر بھاگوت کو بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ کشیدگی کے درمیان میٹنگ کے لیے تجویز بھیجی تھی اور انہوں نے اس تجویز کو قبول کر لیا۔ شروع میں اس ملاقات کا وقفہ 30 منٹ کے لیے متعین تھا لیکن یہ ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی۔

 ایس وائی قریشی نے کہا کہ موہن بھاگوت نے ہندو برادری کی جانب سے دو مسائل اٹھائے جو ان کے لیے تشویش کا باعث تھے۔ ایک گائے کا ذبیحہ اور دوسرا عام ہندوؤں کے لیے لفظ کافر کا استعمال۔

ایس وائی قریشی نے کہا کہ ملک کے بیشتر حصوں میں گائے کے ذبیحہ پر پہلے سے ہی پابندی عائد ہے اور مسلمان اپنے ہندو بھائیوں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے انہیں یقین دلایا کہ اگر اس سمت میں مزید اقدامات اٹھائے جاتے ہیں تو مسلمان ان کی پاسداری کریں گے۔ ہندوستانی ہندوؤں کے لیے لفظ کافر کے استعمال کے معاملے پر، ایس وائی قریشی نے دلیل دی کہ لفظ کافر ہندوؤں کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ یہ دراصل قرآن نے ان لوگوں کے لیے استعمال کیا تھا جو ایمان نہیں لاتے تھے۔ جو ایمان لے آئے وہ مومن کہلاتے تھے۔ لہٰذا یہ ہندوؤں کے لیے کوئی توہین کا لفظ نہیں ہے۔

 اپنی باری میں ایس وائی قریشی نے ہندوستانی مسلمانوں کو دقیانوسی بنانے کے لئے انتہا پسند ہندوؤں کے ذریعہ عام مسلمانوں کے لئے استعمال ہونے والے جہادی اور پاکستانی جیسے الفاظ کا مسئلہ اٹھایا اور موہن بھاگوت نے مبینہ طور پر اس ذہنیت کو ناپسند کیا اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور وہ امن کی بحالی کے لئے اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر امور بھی تھے جن پر خوشگوار ماحول میں گفتگو ہوئی۔ مسٹر بھاگوت نے مسلم مندوبین کو بہت تحمل سے سنا اور سبھی سے اپیل کی کہ وہ ملک میں حالات معمول پر لانے کے مشترکہ مقصد کے لیے کام کریں۔

 یاد رہے کہ موہن بھاگوت نے 3 جون 2022 کو ہندوؤں سے کہا تھا کہ وہ ملک کی ہر مسجد میں شیولنگ نہ تلاش کریں۔ ایس وائی قریشی کے مطابق، یہ ایک بہت مضبوط بیان تھا۔ یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب شیولنگ کی موجودگی کا دعویٰ ہندوؤں کے ایک گروپ نے کیا تھا اور مسلمانوں نے یہ تاثر قائم کیا تھا کہ اس اقدام کے پیچھے آر ایس ایس کا ہاتھ ہے۔ لہذا، مسٹر بھاگوت کا بیان مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوتوا بریگیڈ کے لیے بھی حیران کن تھا کیونکہ وہ ان سے اپنے اقدام کا دفاع کرنے کی توقع رکھتے تھے۔ مسٹر بھاگوت نے مبینہ طور پر کہا تھا:

 "گیانواپی کا معاملہ چل رہا ہے۔ ہم تاریخ کو تبدیل نہیں کر سکتے، نہ آج کے ہندوؤں نے، نہ آج کے مسلمانوں نے اسے بنایا ہے۔ یہ اس زمانے میں پیش آیا تھا۔ اسلام باہر سے حملہ آوروں کے ذریعے یہاں آیا...(ایودھیا کے بعد) یہ بھی واضح کر دیا گیا تھا کہ سنگٹھن (آر ایس ایس) مزید کسی نئی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی۔ ہر روز نئے تنازعات اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں باہمی معاہدے کے ذریعے کوئی راستہ تلاش کرنا چاہیے۔"

یہ بیانات آر ایس ایس کی جانب سے ایک مثبت قدم کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس لیے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مندروں سے متعلق نئی تحریکوں کو آر ایس ایس کی حمایت حاصل نہیں ہے جیسا کہ عام مسلمانوں کے خیال میں ہے بلکہ چند 'شریر عناصر' کی کارستانیاں ہیں جو کہ حقیر سیاسی مفادات کے لیے ماحول کو خراب کر رہے ہیں۔

 ہمیں جولائی 2017 میں نام نہاد گاؤ رکھشکوں کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی کی شدید سرزنش کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ جھارکھنڈ میں ایک مسلمان شخص کو گاڑی میں گائے کا گوشت لے جانے کے الزام میں مار مار کر ہلاک کرنے کے بعد، انہوں نے کہا تھا کہ گو رکشا کے نام پر لوگوں کا قتل کیا جانا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے مویشیوں کے تاجروں اور کسانوں پر مہلک حملوں میں اضافے کی مذمت کی تھی۔

 لہٰذا، آر ایس ایس اور بی جے پی کی ذمہ دار شخصیات کی طرف سے ان اقدامات کو ہندوتوا کو فروغ دینے کے نام پر فرقہ وارانہ تحریکوں اور پروگراموں کی ناپسندیدگی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مسٹر بھاگوت کے بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہندوتوا کے نام پر ہر کام کے پیچھے آر ایس ایس نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ تنظیم کے پاس مذہبی تنازعات پر مبنی کسی نئی تحریک کا منصوبہ نہیں ہے۔ لہٰذا، قطب مینار، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، تاج محل اور یہاں تک کہ گیانواپی مسجد پر ہندوتوا طبقے کے کچھ بیانات 'شر پسند عناصر' کی جانب سے ہیں جو آر ایس ایس کے منصوبے کا حصہ نہیں ہیں۔

 یہ مسلمانوں کو موقع فراہم کرتا ہے۔ مسلمانوں کو ملک کی ہندوتوا طاقتوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ہر فرقہ وارانہ اقدام کو آر ایس ایس سے منسوب کرنا بند کرنا چاہیے۔ یہ تنظیم ملک میں مسلمانوں کے خلاف سرگرم تمام مختلف نظریاتی اور انتہا پسند گروہوں کو کنٹرول نہیں کر سکتی، لہٰذا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ہر شرارت کے لیے آر ایس ایس کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے اس کے ساتھ رابطہ قائم کرنا چاہیے اور بات چیت کو آگے بڑھانا چاہیے اور دونوں طرف سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنا چاہیے۔ تاکہ بداعتمادی اور غلط فہمی کا خاتمہ ہو سکے اور دونوں برادریاں مل جل کر ملک کی فلاح و بہبود کے لیے قدم آگے بڑھائیں۔

English Article: The Meeting between Mohan Bhagwat and Muslim Intellectuals Shows Mutual Concern and Understanding Over Sensitive Issues

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/bhagwat-muslim-intellectuals-sensitive-issues/d/128043

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..