ارشد عالم، نیو ایج اسلام
30 مئی 2023
کیا اس طرح کے الزامات میں
سچائی ہے یا اس کا استعمال مسلم لڑکیوں پر نظر رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے؟
اہم نکات:
1. مسلمانوں کے درمیان
"بھگوا دام محبت" کی بات بڑھ رہی ہے۔
2. الزام یہ ہے کہ
ہندو لڑکوں کو مسلمان لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرنے کے واضح ارادے کے ساتھ انہیں
پھنسانے کی تربیت دی جاتی ہے۔
3. رجعت پسند مولانا
بغیر کسی دلیل کے ایسے بڑے بڑے دعووں کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں
4. ایسی ویڈیوز سامنے
آئی ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ مسلم لڑکوں کے گینگ مسلمان لڑکیوں کی نگرانی اور
ہراساں کر رہے ہیں کیونکہ وہ کای ہندو لڑکے کے ساتھ ہے۔
------
ہم سب نے "لو
جہاد" کے بارے میں سنا ہے، جو کہ ہندو قدامت پسندوں کا مذموم بیانیہ جس میں
یہ دلیل دی جاتی ہے کہ مسلمان مرد مختلف طریقوں سے ہندو لڑکیوں کا مذہب کرنے کے
مشن پر ہیں۔ الزام یہ ہے کہ مسلمان مرد شروع میں ہندو بنتے ہیں اور جب وہ ہندو
لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں، تو وہ ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔
محبت کو تبدیلی مذہب کے
ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کی یہ کہانی ابتدائی طور پر کیرالہ کے کچھ گرجا
گھروں نے بتایی تھی لیکن اس بیانیے کو شمالی ہندوستان میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔
مختلف ریاستی حکومتوں نے ہندو خواتین کو مسلمان مردوں کے جال میں پھنسنے سے
"بچانے" کے لیے سخت قوانین بنائے۔ اگرچہ ایسے تمام مشتہر معاملات سراسر
جھوٹے نکلے۔ ہندو خواتین نے کیمرے پر آکر بتایا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کی
اور مذہب تبدیل کیا اور یہ کہ اس عمل میں کوئی لالچ یا دباؤ شامل نہیں تھا۔
اس سے کوئی فائدہ نہیں کہ
مذہب اسلام اپنا مذہب تبدیلی کرنے پر اصرار کرتا ہے اگر میاں بیوی میں سے ایک اہل
کتاب کے علاوہ کسی اور مذہب سے ہو۔ عام طور پر ہندو مذہب کو بھی اہل کتاب کی فہرست
میں شامل کیا جانا چاہیے، لیکن علماء اسلام کا دوسرے مذاہب پر برتری کا احساس
انہیں قرآن پاک پر عمل کرنے سے روکتا ہے۔ وہ اس فہرست میں صرف عیسائیت اور یہودیت
کو شامل کرتے ہیں، حالانکہ قرآن کا فرمان ہے کہ روئے زمین پر کوئی ایسی قوم نہیں
ہے جس میں انبیاء نہ بھیجے گئے ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں ہے جس کو وحی نہ دی گئی
ہو۔ انہیں وحی کو جمع کر کے کتاب بنائی جاتی ہے۔ اتنی صدیوں کے بعد بھی امت مسلمہ
میں اہل کتاب کے علاوہ کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے زوج کو اسلام قبول کرنے پر
مجبور کرنے کے اس عمل پر کوئی بحث نہیں ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے اب ہم
تک یہ بات پہنچی ہے کہ کہ ہمارے ملک میں اب ایک ’’برعکس لو جہاد‘‘ جاری ہے۔ جسے
’’بھگوا/زعفرانی دام محبت‘‘ کہا جاتا ہے، اس پر بھی بنیادی طور پر ’’لو جہاد‘‘ کی
ہی تعریف صادق آتی ہے۔ اس سے مراد وہ ہندو لڑکے ہیں جو مسلمان لڑکیوں کو پھنسانے
اور بالآخر انہیں ہندو بنانے کے لیے مسلمان بن کر سامنے آتے ہیں۔ کچھ سالوں میں،
لڑکیوں کے "دوسری طرف" میں پھنسنے کا یہ خوف بڑھتا جا رہا ہے۔ جیسا کہ
ہم دیکھ چکے ہیں کہ لو جہاد ایک بے بنیاد دعویٰ تھا، جسے مسلمانوں کو بدنام کرنے
کے لیے گڑھا گیا تھا۔ لیکن "بھگوا دام محبت" کی حقیقت کیا ہے؟ ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں بھی مسلم فریق جو دعوے کر رہا ہے اس کا پتہ لگانے
کے لیے شاید ہی کوئی قابل اعتماد ذریعہ ہو۔
یہ سچ ہے کہ بعض ہندو
تنظیمیں وقتاً فوقتاً مسلم لڑکیوں کے بارے میں ایسے ’’دعویٰ‘‘ کرتی رہی ہیں گویا
کہ یہ لڑکیاں انسان نہیں بلکہ ان کی جائیداد ہیں۔ مختلف دھرم سنسدوں کے ذریعے ہم
نے مسلم لڑکیوں کے بارے میں ایسی باتیں سنی ہیں جس سے کسی بھی جمہوری ملک کو
شرمسار ہو جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس ملک میں اپنے مستقبل کے حوالے سے
مسلمانوں کے اندر ایک خاص قسم کا خوف بھی پیدا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت بھی ان
لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو مسلمانوں کو بدنام
کرنے کے واضح ارادے کے ساتھ اس طرح کے شیطانی پروپیگنڈے میں ملوث ہیں۔ ہم اس
اخلاقی گراوٹ کے نقصانات کو دیکھ چکے ہیں جب کچھ ہندو نوجوانوں کی جانب سے مسلم
لڑکیوں کو آن لائن "نیلام" کرنے کا معاملہ سامنے آیا۔ سناتن روایت کے
بلند و بالا نظریات سے تعلق کے دعووں کے باوجود، یہ واضح ہے کہ ان میں سے کچھ ہندو
تنظیموں کے لیے، تقلید کا نمونہ آئی ایس ہی رہی ہے، جو شام میں لونڈیوں کا فروخت
اور خرید کر رہی تھیں۔
مسلمان لڑکیوں کا مذہب
تبدیل کرنے کی ایسے قدامت پسند ہندو کگ بیانیہ میں ہو سکتا ہے کہ کچھ حقیقت ہو
لیکن کیا یہ سچ ہے کہ اس کے پیچھے کوئی بڑی سازش ہے؟ مسلم سوشل میڈیا اس طرح کے
الزامات سے بھرا ہوا ہے، جن میں دوسرے فریق (یعنی ہندوؤں) پر الزام لگایا جا رہا
ہے کہ وہ ہماری مسلمان بہنوں کو ہمارے آسمانی مذہب سے الگ کرنے کی منصوبہ بندی کر
رہے ہیں۔ تاہم، اس طرح کی بہت سی پوسٹیں دیکھنے کے بعد بھی ہمیں اس جانکاری کے
کوئی معتبر ذرائع کا پتہ نہیں ملتا۔ نہ ہی اس دعوے کی تصدیق کرنے کا کوئی طریقہ ہے
کہ ہندوؤں کے منظم گروہوں نے "ہزاروں مسلم لڑکیوں کا مذہب پہلے ہی تبدیل کر
دیا ہے"۔ ایسی تمام ویڈیو میں "ہمارے مذہبی رہنماؤں" کی کچھ
تقریروں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ لہٰذا، ممکن ہے کہ، اس قسم کی معلومات کا ماخذ مختلف
علماء کی تقاریر ہیں۔
ایسی ہی ایک ویڈیو آل
انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان اور ایک بااثر مذہبی عالم سجاد نعمانی کی ہے۔
اس ویڈیو میں، وہ کچھ چونکا دینے والے دعوے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن ہمیں یہ
بتانے کی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کی معلومات کا ذریعہ کیا ہے۔ ان کے کچھ دعوے یہ
ہیں:
- 8 لاکھ مسلم خواتین ہندو
مردوں سے شادی کر کے مرتد ہو چکی ہیں۔
- آر ایس ایس نے اس مقصد
کے لیے ہندو مردوں اور عورتوں کی ایک بڑی ٹیم بنائی اور تربیت دی ہے۔
- اس مقصد کو حاصل کرنے کے
لیے ہندو مردوں کو تربیت دی جاتی ہے جہاں وہ بہتر اردو بولنا سیکھتے ہیں اور انشاء
اللہ اور ماشااللہ بھی کہتے ہیں۔
- ہر "کامیاب"
ہندو آدمی کو 2.5 لاکھ دیے جاتے ہیں اور نوکری وغیرہ حاصل کرنے میں مدد کی جاتی
ہے۔
- یہ مسلمانوں اور اسلام
کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہے اور اس مقصد کے لیے بیرون ملک اور اندرون ملک سے اربوں
ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔
تاہم، نعمانی نے اپنے
دعوے کی تائید میں کسی ایک بھی ذریعہ کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ
انہیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر کار، ان کے پیروکار ویڈیو میں لگائے گئے
الزامات کو جھوٹا ثابت کر رہے ہیں اور اسے مقدس سچائی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ مسلم سوشل میڈیا پر اس طرح کی تمام جانکاریوں کا سیلاب خود سجاد
نعمانی کی ہی ویڈیو ہیں۔ ہم یہ یقینی طور پر یہ نہیں کہہ رہے کہ سجاد نعمانی جو
کچھ کہہ رہے ہیں وہ جھوٹ ہے۔ تاہم، اپنے دعووں کی تائید میں کسی بھی ماخذ کا حوالہ
نہ دینا خوف و ہراس پھیلانے کے مترادف ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مسلمان پہلے ہی
پریشان حال ہیں، ان میں مزید خوف اور عدم تحفظ پیدا کرنا سماجی کشمکش کا باعث ہے۔
لیکن اگر فرض کریں کہ ایسے
تمام دعوے سچ ہیں۔ پھر مسلمانوں کا اس پر کیا ردعمل ہونا چاہیے؟ کوئی بھی روشن
خیال طبقہ جو سب سے بہتر جواب دے گا وہ یہ ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو بہتر تعلیم دیں
تاکہ ان کے اندر اپنے ساتھیوں کے بارے میں درست فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔
تاہم، یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مسلمانوں میں اس کا ردعمل لڑکیوں کی نگرانی کی شکل
میں سامنے آیا، جو کہ ہراساں کرنے کی حد تک ہے۔ ایسے ویڈیو ہیں جن میں اسکولوں اور
کالجوں کی نشان دہی کی گئی ہے جہاں ہندو مرد مسلمان لڑکیوں سے مل رہے ہیں اور
مسلمان والدین سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں پر نظر رکھیں۔ ان سے کہا جا رہا
ہے کہ وہ انہیں موبائل فون نہ دیں کیونکہ یہ اس فتنے کا بڑا ذریعہ ہے۔ اور ان سے
کہا جا رہا ہے کہ اپنی بیٹیوں کو صرف مسلم اسکولوں میں بھیجیں تاکہ وہ دوسرے مذہب
کے لڑکے اور لڑکیوں سے نہ ملیں۔
مسلمان لڑکوں کے گروپ پہلے
ہی اپنی "بہنوں" کو بچانے کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔ اب وہ محافظ
دستوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں جیسا کہ ملک کے کچھ حصوں سے اس کی رپورٹیں سنائی
دے رہی ہیں۔ مدھیہ پردیش کی ایک ویڈیو میں ایک مسلمان لڑکی اور ایک ہندو لڑکے کی
دردناک کہانی بیان کی گئی ہے جو ایک ساتھ باہر تھے۔ نوجوان مسلم مردوں کے ایک گروپ
نے انہیں گھیر لیا اور لڑکی کے ایک غیر مسلم لڑکے کے ساتھ گھومنے کے ’مقصد‘ پر
سوال کیا۔ لڑکی، ہجوم کو صفائی پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن مردانہ آوازوں سے
اسے جلد ہی خاموش کر دیا جاتا ہے۔ وہ اس لڑکی کو کہتے ہیں کہ تم اسلام کے نام کو
بدنام کر رہی ہو۔ لڑکا کانپ رہا ہے، اور لوگ اسے تھپڑ مار رہے ہیں اور اس کے ساتھ
بدسلوکی کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ ہفتوں میں اورنگ آباد، پٹنہ اور میرٹھ سے مسلم
محافظ دستوں کے اسی طرح کے ویڈیو سامنے آرہے ہیں جو کہ تشویشناک ہے۔
’’بھگوا دام محبت‘‘ کو
روکنے کے نام پر، ایسے مسلم گروپوں کی کارروائی انہیں گھر کی چہار دیواری کے اندر
قید رکھنے کے حتمی مقصد کے ساتھ خواتین کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی خواہش کے
سوا کچھ نہیں۔ ہم نے پہلے ہی اس تیسرے درجے کی مردانگی کو نام نہاد لو جہاد مہم کے
دوران کام کرتے ہوئے دیکھا ہے جہاں ہندو لڑکیوں پر ہندو مردوں نظر رکھتے تھے اور
انہیں ہراساں کرتے تھے۔ شکر ہے کہ بہت سی ہندو خواتین نے اس دھمکی کے خلاف کھل کر
بات کی۔ لیکن جب بات مسلمانوں کی ہو تو اعلیٰ تعلیم کے میدان میں لڑکیوں کی تعداد
پہلے ہی بہت کم ہے اور اس لیے شاید ہم ہندو سماج میں اس قسم کی مزاحمت نہ دیکھ
سکیں۔ اس بزدلانہ حرکت کا واحد اثر صرف مسلم خواتین کی مزید پسماندگی کی صورت میں
ہی سامنے آئے گا۔
مسلمانوں کو یہ سمجھنے کی
ضرورت ہے کہ اس طرح کی چوکسی بے نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ نوجوان اس بات پر ڈینگیں
مار سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی 'بہنوں' کو دوسرے مذاہب کے مردوں سے ملنے سے روک
دیا، لیکن مسلم لڑکیاں یقینی طور پر اسے اپنی ترقی کی راہ میں روکاوٹ سمجھیں گیں۔
اور جب کوئی راستہ نہیں بچے گا تو ان میں سے کچھ فطری طور پر اس مذہب سے نفرت کرنے
لگیں گے اور اس سے باہر نکلنے کی راہ تلاش کرنا شروع کر دیں گیں۔ یہ لڑکیاں ہندوؤں
کے مذموم مقاصد کی وجہ سے مرتد نہیں بنیں گی بلکہ صرف ان کے "اسلامی
بھائیوں" کی غنڈہ گردی کی وجہ سے بنیں گی۔
English Article: Is There A Bhagwa/Saffron Love Trap For Muslim Girls?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism