ارشد عالم ، نیو ایج اسلام
12 اگست 2020
بنگلور میں مسلمانوں نے
ایک ایسے فیس بک پوسٹ پر ہنگامہ برپا کیا جس میں پیغمبر اسلام کی توہین کی
گئی تھی۔ اس پوسٹ کو ہٹا دیا گیا اور جس
شخص نے اس ے پوسٹ کیا تھا اسے گرفتار بھی کیا گیا لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی اور نتیجۃ قیمتی املاک کی تباہی ہوئی اور تین افراد اپنی
زندگی سے ہاتھ دھو چکے تھے۔ خبر ہے کہ
ہجوم نے ‘ملزم’ کے گھر نذر آتش کرنے کی کوشش کی تھی جو کانگریس کے مقامی ایم ایل اے کے ایک دلت رشتہ
دار تھے ۔ دلت مسلم اتحاد کی امیدوں کا شمع
جسے بعض لوگوں نے روشن کیا تھا بجھ گیا
۔ بہت سارے لوگ ایسے ملیں گے جو اس
موضوع کا رخ بدلنے کی کوشش اس طرح کریں گے کہ مسلموں کا غصہ نہ صرف نبی علیہ السلام کی مذمت کے خلاف تھا
بلکہ اس وجہ سے بھی کہ ایک نچلی ذات کے شخص نے اسے انجام دیا تھا ۔ اس الزام سے کتنا بھی مسلمان انکار کرلیں
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے معاشرے بھی دوسرے مذہبی گروہوں کی طرح نسلی اور ذاتی امتیاز کا سلوک رواں دواں ہے ۔
According to police, a crowd of
almost a thousand people gathered in front of the KG Halli police station
demanding that a Congress MLA's relative named Naveen be arrested.
-----
یہ واقعہ ایودھیا میں رام
مندر کے بھومی پوجن کے چند دنوں بعد پیش
آیا۔ بہت سے لوگوں نے اس پروگرام کو ہندوستان میں ہندو راج کے قیام کی علامت قرار دیا تھا اور وہ مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند
تھے ۔ لیکن اس کے باوجود بنگلورو میں فساد
برپا ہجوم نے مسلمانوں کے تعلق سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں حساسیت کا بھی
مظاہرہ نہیں دکھایا ۔ یہ یقینا ’خوفزدہ مسلمان‘ کی تصویر نہیں ہے جسے کچھ لوگ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات
مسلم ہے کہ مسلم جذبات مجروح ہوئے ہیں،
لیکن ان کے پاس اپنی شکایات ظاہر کرنے کے اور بھی بہتر طریقے ہیں۔ تھوڑی سی ہی
حکمت وتدبر مسلم کمیونٹی کے لیے معاون
ومددگار ثابت ہو جاتی ۔
اہم بات یہ ہے کہ اس
واقعے کو ہلکے میں نہ لیا جائے ۔مسلمان ہمیشہ ان امور پر اصرارکرتے رہے ہیں جن کا
تعلق ان کے ایمان وعقائد سے ہوتا ہے، خواہ
یہ سلمان رشدی کی کتاب پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ ہو یا پھر تسلیمہ نسرین پر حملہ کرنے اور اسے مغربی بنگال
سے باہر پھینکنے کا سوال ہو، مسلمانوں نے اپنے مذہبی مطالبات کو منوانے کے لئے مختلف حکومتوں پر کامیابی کے ساتھ دباؤ
ڈالا ہے۔ یہ ناقابل فراموش ہے کہ آزادی کے
بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی سب سے بڑی مزاحمت شاہ بانو مسئلے کے دوران ہوئی تھی
جب مسلم علما نے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے ترقی پسند فیصلے کو منسوخ کرنے پر
مجبور کیا تھا۔اس کے بر عکس مسلمانوں نے تعلیم اور نوکریوں کے مطالبے کے لئے کبھی
بھی مشتعل نہیں ہوئے ، نہ کبھی کوئی اس معاملے میں ریلی نکالی۔ انہوں نے بمشکل ہی کسی دوسری
جد وجہد میں حصہ لیا ہو۔ اس ملک
میں مسلم ترجیحات ہمیشہ سے ہی واضح ہیں۔
جو لوگ ’’پچھلے چھ سالوں
میں مایوسی‘‘ کے نتیجے میں بنگلور کے تشدد کو منطقی انجام دے رہے ہیں ، انہیں مسلم
سیاست کی کوئی سمجھ نہیں ہے۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس شہر میں جو کچھ
ہوا وہ سیاسی طرز عمل کا ایک ایسا نمونہ ہے جس کی نمائش ہمیشہ مسلمانوں نے کی ہے۔ یقینا
کوئی ضرورت نہیں کہ اسے پچھلے چھ سالوں
میں ہونے والی زیادتیوں کے رد عمل سے تعبیر کیا جائے ۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ
جب مسلمانوں نے شاہ بانو کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا تب بی جے پی کی کوئی حکومت
نہیں تھی۔
ہر مذہب اپنے ماننے والوں
کے لئے مقدس ہے۔ لیکن تمام مذاہب ایک جیسا سلوک نہیں کرتے جب بھی کوئی ان کے عقیدہ یا علامت کی تردید کرتا
ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق ہر
ممکن طریقے سے لکھا گیا اور ان کی تصویر کشی کی گئی مگر پھر بھی ہم عیسائیوں کو
املاک جلاتے نہیں دیکھتے جب کبھی اس طرح
کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔
طویل عرصے سے، ہندو مذہب
نے اپنے عقائد کی کثیریت کے اندر کسی ادراکی اہانت کے خلاف کبھی بھی پُرتشدد رد
عمل کا اظہار نہیں کیا۔ تاہم ایسے معاملے میں سامی ہندومت نے (بعض اوقات متشدد طور
پر) اپنے رد عمل کا اظہار کیا ، خاص طور پر جب مسلمان یا عیسائی ہی اہانت کرنے
والے ہوں۔ مگر مسلمانوں نے ہمیشہ ایسے واقعات پر ردعمل کا اظہار کیا مانو کہ یہ ان
کا بلاوا ہو۔حال تو یہ ہے کہ اگر وہ اپنے غصے کا جسمانی طور پر اظہار نہ کریں تو
ان کا ایمان گھٹ جائے گا ۔
Young men are seen holding hands and ensuring that rioters didn’t attack the temple located in in DJ Halli police station limits in the city.
-----
مسئلہ یہ ہے کہ غالبا اسلامی
تھیولوجی مسلمانوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ مسلمان اسی طرح کا برتاؤ کریں گے۔ اگرچہ
قرآن کریم توہین رسالت کی سزا کے بارے میں
مبہم ہے ، توہین رسالت کے مرتکب کے قتل کو جائز قرار دینے کے لئے کچھ آیات پیش کی
جاتی ہیں۔ پھر ایسی حدیثیں بھی ہیں جن پر اجماع ہے کہ ایسے افراد جو پیغمبر علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتے ہیں انہیں قتل کر دیا جانا چاہیے ۔ لہذا
یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ان تمام ممالک میں جہاں توہین رسالت کے مرتکب افراد کو
سزائے موت دی جاتی ہے ، تقریبا تمام مسلم
ممالک میں واقع ہوتے ہیں۔
ان ممالک کے اندر ، اقلیتوں ، مسلمانوں اور دیگر
افراد کی ایک بڑی تعداد کو ایسے قوانین کے تحت سزا دی جا چکی ہے۔ در حقیقت اس طرح کے قوانین کو اقلیتوں کو خصوصی طور پر
نشانہ بنانے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ توہین رسالت کا الزام ہی ملزم کو گہری تشویش میں ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ اس طرح کا ہی مذہبی
جواز ہے جس پر سوال کرنے کی ضرورت ہے ۔
یقینا بنگلور میں صورتحال
بہت مختلف تھی۔ کوئی بھی ملزمان کے قتل کا مطالبہ نہیں کررہا تھا۔ وہ صرف ایف آئی
آر درج کرنے کے لئے سراپا احتجاج کر رہے تھے جس کو پولیس نے شروع میں انکار کردیا۔ اس کے بعد مشتعل ہجوم نے اپنا قہر
قریبی جائدادوں اور پولیس اسٹیشن پر نکال لیا۔ پولیس نے اس انتشار کو دور کرنے کی
کوشش میں، تین مسلمان مظاہرین کو ہلاک کردیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہندوستان میں ہر
جگہ، غیر متناسب تعداد میں پولیس کی گولیوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شکار ہو
جاتی ہے ۔
اس طرح کے حالات کے پیش
نظر، مسلمانوں کو محتاط رہنا چاہئے تھا اور انہیں پر امن احتجاج کرنا چاہئے تھا۔ مگر
چونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب بھی نبی علیہ
السلام کی شان میں کوئی گستاخی ہوتی ہے مسلمان اپنی تمام ذہنی اور منطقی صلاحیت
کھو دیتے ہیں۔ یہی اچانک ہوجانے والا فطری
ردعمل ہے جس پر سوال کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم اس حقیقت کا معائنہ نہ کریں کہ اس طرح کے واقعات کے لیے وسیع پیمانہ پر
اسلامی تھیولوجی سے جواز ملتا ہے تو کس طرح ہم اس رد عمل کو سمجھ سکتے ہیں۔
یہ امر خوشی کی بات ہے کہ
مسلمان مذہبی روایات کی متبادل ترجمانی کے ساتھ ظاہر ہوئے ہیں اور یہ بحث کرنے میں مصروف ہیں کہ خود
پیغمبر نے بھی اس طرح کے تشدد سے منع کیا
ہوگا۔ وہ مسلمانوں کو یاد دلارہے ہیں کہ نبی (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو کس طرح
معاف کیا جنہوں نے ان پر پتھر برسائے اور اذیتیں دیں۔ تاہم، یہ تمام تشریحات ٹویٹر
اور فیس بک کے صفحات پر ہی رہیں گی۔ اصل دنیا میں مسلم کے افکار ونظریات اور اعمال بڑے پیمانے پر علمائے کرام اور ان کے
مدرسوں سے متاثر رہیں گے ۔ جب تک کہ وہ اس
طرح کی متبادل تشریحات کی راہ نہیں نکالتے
کچھ بھی بدلنے والا نہیں ۔
ہجوم کے تشدد کے دوران
ایسا لگا کہ کچھ مسلمان ایک مقامی ہندو مندر پر حملہ کرنا چاہتے تھے،
حالانکہ دوسرے مسلمانوں نے مندر کی حفاظت
کی خاطر مندر کی گھیرابندی کرتے ہوئے اسے ناکام بنا دیا۔ یہ ایک عمدہ مثال ہے کہ
اس طرح کے مذہبی جنون کے بیچ میں بھی انسانیت اور ہمدردی زندہ رہ سکتی ہے۔ تو واضح
طور پر اس طرح کے مسلمانوں نے اسلام سے کچھ الگ تعلیمات سیکھی ہوگی ۔یہی وہ اسلام
کی تعلیمات ہیں جنہیں مسلم معاشرے کو
پڑھنے کی اشد ضرورت ہے ۔
ارشد عالم نیو ایج اسلام
کے ایک مستقل کالم نگار ہیں۔
URL: https://www.newageislam.com/islam-politics/bengaluru-muslim-violence-there-need/d/122608
URL for Urdu: