سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
26 فروری 2022
فساد سے وہ تمام برائیاں
اور غیر اخلاقی طرز عمل مراد ہیں جنہیں غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے۔
اہم نکات:
فساد کی وجہ سے بہت سی
قومیں تباہ ہو گئیں۔
فساد قرآن کے مطابق ایک
سنگین جرم ہے۔
کرپشن، فساد، دہشت گردی،
زنا، بے ایمانی، سب کچھ فساد کے ہی ضمن میں آتے ہیں۔
------
قرآن کئی مواقع پر لفظ
فساد استعمال کرتا ہے۔ فساد ایک اصطلاح ہے جس سے مراد وہ تمام برائیاں اور غیر
اخلاقی اعمال ہیں جنہیں غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے۔ کئی مواقع پر یہ لفظ معاشرے
کی اجتماعی برائیوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور بعض مواقع پر یہ کسی خاص برائی
یا کسی خاص اخلاقی یا معاشرتی برائی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
الفساد عربی کا ایک جامع
لفظ ہے۔ اس کا مطلب بدعنوانی ہے لیکن اس کے معانی کافی وسیع ہیں۔ یہ ایک ایسی
برائی ہے جو معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی نظام کو تباہ کر دیتی ہے۔
اسلام کی آمد سے قبل عرب
معاشرہ تنزلی کا شکار ہو چکا تھا۔ ایک خدا کے ساتھ کفر کے ساتھ ساتھ اخلاقی، مالی،
جنسی اور مذہبی برائیاں بھی پھیلی ہوئی تھیں۔ خونریزی عام تھی۔ یتیموں پر ظلم کیا
جاتا تھا اور ان کے مال یا جائیداد کو بے ایمان لوگوں نے غصب کر لیا تھا۔ چوری اور
ڈکیتی روز کا معمول تھی۔ یہاں تک کہ ابراہیمی مذاہب کے پیروکاروں نے بھی بہت سے
نئے عقائد ایجاد کر لیے تھے اور ان کے صحیفوں میں جو کچھ حرام تھا اسے وہ جائز
ٹھہرا بیٹھے تھے۔ مختصر یہ کہ عرب معاشرے میں بڑے پیمانے پر فساد مچا ہوا تھا۔
اسلام معاشرے اور لوگوں
کے دلوں سے فساد کو نکالنے کے لیے آیا ہے۔
قرآن پاک نے فساد کی
صورتوں کا ذکر کیا ہے اور اسے کبیرہ گناہ قرار دیا ہے۔ قرآن مجید مفسد (فساد کے
مرتکب) کے لیے دنیا میں یا آخرت میں سخت سزا کا حکم دیتا ہے۔
قرآنی آیات کے مطابق،
فساد کا مطلب ہے ناحق خونریزی، بے ایمانی پر مبنی ذریعہ معاش، جنسی جرائم، دین کے
خلاف سازش اور آمدنی کے حرام طریقے مثلا ربا (سود)۔
قرآن کے مطابق فرشتوں نے
اس لفظ کو اپنی تشویش کا اظہار کرنے کے لیے اس وقت استعمال کیا جب خدا نے انسان کو
پیدا کرنے اور اسے زمین پر اپنا نائب مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ فرشتوں نے خدا سے
کہا:
اور یاد کرو جب تمہارے رب
نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو
نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے
ہوئے، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں
جانتے- (البقرہ:30)
اس آیت کے مطابق فساد سے
مراد خونریزی ہے۔ اس کا مطلب ہے فساد کیونکہ امن کائنات کا الٰہی نظام ہے۔ پوری
کائنات امن و امان کے ہی اصول پر گامزن ہے اور کائنات کی کوئی چیز دوسرے کے کام
میں خلل نہیں ڈالتی۔ اس لیے فرشتوں کو خدشہ تھا کہ انسان خونریزی کر کے زمین کے
نظام میں خلل پیدا کر دے گا۔ کیونکہ وہ جنوں کی شرارتوں سے واقف تھے جو انسان کے
آنے سے قبل زمین پر آباد تھے۔
لیکن فساد سے مراد صرف
خونریزی ہی نہیں بلکہ انسان کی دوسری برائیاں بھی ہیں۔
جب حضرت موسیٰ علیہ
السلام بنی اسرائیل کے نبی مقرر ہوئے تو فرعون زمین پر فساد برپا کر رہا تھا۔ اس
نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا اور اپنی رعایا پر ظلم کیا۔ خدا نے موسیٰ کو فرعون اور
اس کی قوم پر فتح بخشی۔ قارون فرعون کے امیر ترین لیفٹیننٹ میں سے ایک تھا۔ اس کے
پاس بے پناہ دولت تھی گئی لیکن وہ خدا پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ جب حضرت موسیٰ نے
خدا کی وحدانیت کی تبلیغ کی اور اسے دین کی دعوت دی تو قارون نے ان کے خلاف سازشیں
شروع کیں اور اس نے لوگوں کو حضرت موسیٰ کے خلاف اکسایا۔ اس کی سازشوں اور شرارتوں
کو قرآن میں فساد کہا گیا ہے۔
بیشک قارون موسیٰ کی قوم
سے تھا پھر اس نے ان پر زیادتی کی اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیے جن کی کنجیاں
ایک زور آور جماعت پر بھاری تھیں، جب اس سے اس کی قوم نے کہا اِترا نہیں بیشک اللہ
اِترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
|77|اور جو مال تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اور
دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللہ نے تجھ پر احسان کیا اور زمیں
میں فساد نہ چاه بے شک اللہ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا۔'' (القصص:77)
ان آیات میں قارون کی
شرارتیں اور سازشیں فساد کے ضمن میں آتی ہیں۔
قرآن نے مدین کے نبی حضرت
شعیب علیہ السلام کی قوم کے فاسد کاروباری طریقوں کو فساد کہا ہے۔ وہ چیزیں فروخت
کرتے وقت بے ایمانی سے تولتے تھے۔ وہ جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش بھی کرتے تھے۔ اس لیے
ان کی مذہبی اور اخلاقی لغزشیں مل کر فساد بنتی ہیں۔
قرآن کہتا ہے:
"مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا، اے
میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی امید رکھو اور زمین میں فساد پھیلاتے
نہ پھرو۔"(العنکبوت:36)
قرآن نے لوط علیہ السلام
کی قوم کو جنسی کج روی کی وجہ سے مفسد (قوم المفسدین) قرار دیا۔ اور جب انہوں نے
اپنی اصلاح کرنے سے انکار کر دیاوہ تو اللہ کے عذاب نے ان سب کو تباہ کر دیا۔
دور جدید کی بے تحاشا
صنعتی ترقی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنی ہے۔ یہ آلودگی اس قدر شدید ہو چکی ہے کہ
اس سے انسانوں، پودوں اور آبی جانوروں کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ زمین اور پانی
دونوں پر آلودگی کے نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ قرآن نے ماحولیاتی آلودگی کو فساد کہا
ہے کیونکہ آلودگی ماحولیاتی توازن کو بگاڑتی ہے اور زمین پر زندگی کے لیے خطرہ
پیدا کرتی ہے۔
قرآن کہتا ہے:
’’چمکی خرابی خشکی اور تری میں ان برائیوں سے جو لوگوں کے ہاتھوں
نے کمائیں تاکہ انہیں ان کے بعض کوتکوں (برے کاموں) کا مزہ چکھائے کہیں وہ باز
آئیں۔‘‘ (الروم:41)
تمام انبیاء نے اپنی
قوموں کو فساد سے خبردار کیا کیونکہ یہ خدا کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ
نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے کہا کہ وہ زمین پر فساد نہ کریں۔ اس کا مطلب
ہے کہ لوگ خدا کی عبادت کریں اور برے کاموں سے پرہیز کریں۔
"اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا
اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ
پہچان لیا کھاؤ اور پیؤ خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔‘‘
(البقرہ:60)
جدید دور میں مذہبی انتہا
پسندی اور دہشت گردی کو فساد کی تازہ ترین شکل تسلیم کیا گیا ہے۔ کئی عسکریت پسند
تنظیمیں دین کی حقیقی علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں اور زمین پر خونریزی کا
باعث بنتی ہیں۔ وہ دین کی اپنی نظریاتی تشریح کی بنیاد پر غیر مسلموں اور مسلمانوں
پر یکساں حملے کرتے ہیں۔ وہ عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشتے۔ وہ اپنی عقل کی
بھی بات نہیں سنتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ مصلح ہیں۔ قرآن انہیں مفسد کہتا ہے۔
"اوران سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو، تو کہتے ہیں ہم تو
سنوارنے والے ہیں۔" (البقرہ:12)
قرآن نے خون بہانے کے لیے
ہاتھ اور ٹانگ کاٹنا یا موت یا ملک بدری کا حکم دیا ہے۔
اس کے علاوہ دوسرے
معاشرتی اور اخلاقی جرائم جو معاشرے کے امن و امان کو متاثر کرتے ہیں اور لوگوں کے
حقوق کو پامال کرتے ہیں وہ بھی فساد کے تحت آتے ہیں۔
English
Article: The Quran Warns Believers against Fasad or Corruption
and Mischief
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism