مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
تقدیم:
حسن ادب اور حسن خلق
حسن ادب اور حسن خلق کی اہمیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے:
اَدّبَنِی رَبّی فَاَحسَنَ تادِیِبیِ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے میری شان اور میرے مرتبہ کے مطابق ادب سکھایا۔
ادب کیا ہے؟
اگر ادب کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر کے اس کی تلخیص کی جائے تو ان الفاظ میں کی جا سکتی ہے کہ ''حسن معاملہ کا نام ادب ہے''۔
مروجہ سماجی رجحان کے برعکس ادب کا ایک وسیع اور جامع ترین تصور
جب اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں دوسروں کے ساتھ ہمارا کوئی معاملہ ہو اور کوئی لین دین ہو خواہ اس کا تعلق کسی سماجی، ملی اور معاشرتی ذمہ داری سے ہو خواہ اس کا تعلق رشتہ دار، لواحقین، پڑوسیوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے حقوق کی ادائیگی سے ہو،خواہ اس کا تعلق عبادت و ریاضت اور بندگی یا کسی مذہبی فریضہ کی ادائیگی سے ہو، المختصر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہو یا حقوق اللہ سے، ان تمام امور میں اپنے کردار اور اپنی ذمہ داری کو بطریق احسن نبھانے اور حسن معاملہ کی روش اختیار کرنے کا نام ادب ہے۔
ہمارے درمیان ادب کا ایک محدود اور ناقص تصور:
ہمارے معاشرے میں ادب کا جو موجودہ تصور ہے اس کا دائرہ صرف اپنے خاندان یا اپنے معاشرے کے بڑے بزرگوں کےادب و احترام اور ان کی تعظیم و تکریم تک ہی محدود ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھی ادب کا ایک حصہ ہے لیکن یہ ادب کا ایک ناقص اور محدودتصور ہے۔یہ ادب کا وہ اسلامی اور آفاقی تصور نہیں ہے جو قرآن و سنت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے ہمیں ملتا ہے۔اسلام نے قرآن و سنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے توسل سے ادب کا جو تصور ہمیں دیا ہے وہ ہمارے ان تمام معاملات کا احاطہ کرتا ہے جو دوسروں کے ساتھ متعلق ہیں، خواہ ہمارا معاملہ اللہ کے ساتھ ہو، خواہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو،خواہ صحابہ کرام کے ساتھ ہو۔
اللہ کے ساتھ معاملات کو بطریق احسن ادا کرنے کو اسلام میں الادب مع اللہ (اللہ کے ساتھ ادب) کا نام دیا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاملات کو بطریق احسن ادا کرنے کو اسلام میں الادب مع رسول اللہ (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادب) کا نام دیا جاتا ہے۔
صحابہ کرام کے ساتھ معاملات کو بطریق احسن ادا کرنے کو اسلام میں الادب مع الصحابہ (صحابہ کرام کے ساتھ ادب) کا نام دیا جاتا ہے۔
ایک اشکال کا ازالہ
یہاں بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ الادب مع اللہ (اللہ کے ساتھ ادب)، الادب مع رسول اللہ (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادب) اور الادب مع الصحابہ (صحابہ کرام کے ساتھ ادب) کا کیا مطلب ہے؟
اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنا، اس کی تمام صفات پر ایمان لانا، صرف اسی کو اپنا معبود ماننا یعنی (صرف اسی کی عبادت کرنا) اس کے کلام (قرآن) کو حق ماننا اور صرف اسے ہی پوری کائنات کا مسبب حقیقی اور اس کاروبار دنیاکا حقیقی کارساز ماننا اللہ کا ادب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب آپ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا،آپ کی ختم نبوت کا اقرار کرنا،کسی بھی پہلو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کے شائبہ سے بھی دور رہنا، آپ کے تمام احکامات اور فرامین کو بہ سرو چشم تسلیم کرنا اورآپ کے اسوہ حسنہ کو اپنانا ہے۔
اور اسی طرح صحابہ کرام کا بھی ادب ہےجوہمارے ائمہ ، اکابرین، سلف صالحین اور بزرگان دین کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے۔
اس مسئلے کو اور آسانی کے ساتھ سمجھنا ہو تو اس کو یو ںبھی سمجھ سکتے ہیں ہر حق والے کا حق اس کے تمام تقاضوں اور شرائط کے ساتھ پورا کرنا ہی ادب کا اسلامی تصور اور آفاقی تصور ہے۔
خلاصہ یہ کہ اللہ کے حقوق کوبجا لانااللہ کا ادب ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کو بجا لانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب ہے۔
صرف یہی نہیں اگر ادب کو اس کے وسیع تر اور آفاقی تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ٹانگیں تہہ کر کے ایک اچھے (civilised) انداز میں بیٹھنا، چند لوگوں کی مجلس میں جمہائی (yawning)آئے تومنھ پر ہاتھ رکھنا، لوگوں کے سامنے پیش ہوں تو سلام کرنے میں ان پر پہل کرنا، لوگوں کے سلام کا جواب مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ محبت بھرے انداز میں دینا، مجلس میں بعد میں آنے والے کو بیٹھنے کے لیے جگہ کشادہ کرنا، سفر کے دوران بس، ٹرین اور دیگر گاڑیوں میں ضعیف، خواتین، مریض اور بچوں کو اپنی سیٹ آفر (offer) کرنا، سفر میں ہوں یا حضر میں حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنا، بیمار پڑوسیوں اور متعلقین و لواحقین کی عیادت کرنا، وہ فوت ہو جائیں تو انکے جنازے میں شرکت کرنا، بچوں اور بالخصوص بیٹیوں اور کو شفقت سے نوازنا،بیویوں کو خوش رکھنا اور ان کی ضروریات اور پسند و ناپسند کا خیال رکھنا ، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کی بے عزت نہ کرنا(جو کہ بدقسمتی سے آج ہمارے مسلم معاشرے میں ایک لعنت کی طرح پھیل چکی ہے)،بیوی کا اپنے شوہر کی تعظیم و تکریم کرنا،اساتذہ کی تعظیم و تکریم کرنا یہ تمام باتیں ادب کا حصہ ہیں۔
یہاں تک کہ ادب کے اس آفاقی اسلامی تصور کا دائرہ جانوروں کو بھی محیط ہے مثلاً جانوروں کو تیز (sharp) اوزار سے اس طرح ذبح کرنا بھی ادب کا حصہ ہےکہ انہیں زیادہ اذیت نہ ہو اور وہ تکلیف کی وجہ سے زیادہ نہ تڑپیں۔ الغرض! ہر معاملے کو بحسن و خوبی انجام دینا، ہر عمل کو اس کے کمال کے ساتھ پورا کرنا، ہر تعلق کو پوری خوش اسلوبی کے ساتھ نبھانا اور ہر اس حق کو جو دوسرے کا ہمارے اوپر ہے پوری خندہ پیشانی کے ساتھ ادا کرنا اسلامی ادب کے آفاقی تصور کا تقاضہ ہے۔ لہٰذا، اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو زندگی کا کوئی بھی عمل یا کوئی بھی پہلو دین سے خالی نہیں ہے اور دین کاملاً حسن ادب اور حسن عمل کا نام ہے۔ اور دین کے جس امر، جس عمل اور جس پہلو میں ادب مفقود ہو وہ کام، وہ عمل اور وہ پہلو بھی دینی نہیں ہے۔ اور ایک مہذب ((civilised معاشرے کا حصہ ہونے کے ناطے اس کا احیاء کرنا ہمارے اوپر لازم و ضروری ہے۔
اکابر امت اور سلف صالحین کی تربیت میں ادب کا کردار:
امام ابن القاسم جو کہ امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں اور جن سے احادیث اور فقہ کے مسائل میں امام مالک کی مرویات ملتی ہیں، اپنی آخری عمر میں فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ منورہ کے اندر بیس سال تک حضرت امام مالک رحمہ اللہ کی خدمت میں رہ کر آپ سے تعلیم و تربیت حاصل کی، اور میرے استاذ نے ان بیس سالوں میں اٹھارہ سال تک مجھے صرف ادب کی تعلیم دی اور صرف دو سال ہی مجھے علم عطا کیا۔ لیکن مجھے اب اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کاش آخری دو سالوں میں بھی انہوں نے ادب کی ہی تعلیم دی ہوتی۔
اس سے ایک لطیف نقطہ یہ بھی معلوم ہوا کہ علم نفع بخش تبھی ہوتا ہے جب انسان کی شخصیت میں ادب کا پہلو نمایاں ہو جائےاور اگر علم کو ادب سے مجرد کر دیا جائے تو پھر انسان ہدایت کے راستے سے بھٹک جاتا ہے اور شر کا راستہ اپنا لیتا ہے۔
اہل علم کا بے ادب ہونا
علم و تحقیق اور استدلال کے میدان میں اہل علم، اہل فکر و نظر اور اہل منصب کے درمیان علمی، اصولی اور نظریاتی اختلافات کا پایا جانانہ تو کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی کوئی عجیب واقعہ ہے، لیکن امت مسلمہ اجتماعی طور پر ذلت و رسوائی اور سخت اختلاف و انتشار کا شکار اس وقت ہوتی ہے جب اس قوم کے نام نہاد اہل علم، اہل فکر، عمائدین، قائدین اور زعما خالص علمی، اصولی اور نظریاتی اختلافات کی صورت میں ادب کے تمام تقاضوں کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کے لیے نازیبا کلمات کہتے ہیں اور گندی زبان کااستعمال کرتے ہیں۔ راقم الحروف نے انہیں نام نہاد اس لیے کہا کہ ان کی یہ روش غیر دینی اور غیر اسلامی ہے ، اس لیے کہ علمی اور فکری اختلاف کا یہ طریقہ نہ تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے ملتا ہے، اور نہ تو یہ طریقہ خلفائے راشدین کا ہے، نہ صحابہ کرام کا ہے، نہ تابعین کا ہے اور نہ ہی سلف صالحین کا ہے۔
ان کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ان کے اخلاق ہی بہتر نہ ہوئے تو کیا ان کے علم نے انہیں کوئی نفع پہونچایا؟ اور جس علم کو انہوں نے ادب سے مجرد رکھا کیا وہ علم اس دنیا و آخرت میں ان کے لیے کسی بھی خیر کا ضامن ہو سکتا ہے؟ ایسے علم کا انہیں کیا فائدہ جب ان کے اندر اتنا بھی شعور پیدا نہ ہو سکا کہ اپنے علمی اور فکری حریف کا نام کس طرح لینا چاہیے، ان کے ساتھ ان کے معاملات کیسے ہونے چاہیےاور اختلاف کی صورت میں اپنے علمی اور فکری حریف کے ساتھ ان کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟ خلاصہ یہ کہ جو ان امور اور ان اداب سے نا واقف ہے وہ دراصل اسلام کی روح سے نا واقف ہے۔ اسی لیے صوفیاء کرام اور بزرگان دین نے فرمایا ہے کہ دین ادب کا نام ہے اور بے ادبی بے دینی ہے۔
اولیاء کاملین اور سلف صالحین سے منقول ہےکہ زیادہ علم اور تھوڑا ادب فائدہ مند نہیں بلکہ مضر ہے، علم اور ادب کے درمیان تناسب کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ ادب آٹے جتنا ہو اور اس میں علم نمک کے برابر ہو۔ اگر علم اور ادب کے درمیان یہ تناسب ہے تو پھر علم فائدہ مند ہے۔ ورنہ جس طرح کم آٹے میں زیادہ نمک ذائقے میں فساد پیدا کر دیتا ہے اسی طرح اگر علم زیادہ ہو اور ادب کم تو پھر وہ علم معاشرے میں فسادات اور اختلافات و انتشار کا سبب بنتا ہے۔
جاری.................
URL: