نوا ٹھاکوریا، نیو ایج
اسلام
7 اگست 2023
مرکزی ہندوستان کے بھوپال
میں ایک عوامی اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے 'ایک ملک ایک قانون' کی
پالیسی کی وکالت کرنے کے فوراً بعد ہی ملک کے اندر یکساں سول کوڈ (یو سی سی، سامان
ناگرک سنہتا) پر جارحانہ انداز میں بحث شروع ہو گئی ہے۔ پی ایم مودی نے کہا کہ ایک
گھر میں دو قانون کو قبول نہیں کیا جانا چاہئے اور قوم پرست لیڈر نے اسے مسلم
خواتین کے حقوق سے بھی جوڑا۔ چونکہ اگلے سال چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان،
تلنگانہ میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں (قومی انتخابات کے بارے میں
بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے)، پی ایم مودی کی دلیل کو اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی
نیت پر سوال اٹھاتے ہوئے مسترد کر دیا۔
عام انتخابات سے پہلے،
کانگریس، ڈی ایم کے، اے آئی ایم آئی ایم، جنتا دل (یونائیٹڈ)، راشٹریہ جنتا دل،
بھارت راشٹرا سمیتی، ترنمول کانگریس وغیرہ سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈروں نے
برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والے اتحاد کو یو سی سی کا پروپیگنڈہ
کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جس کا مقصد ناجائز انتخابی فوائد حاصل کرنا ہے۔
ان کا استدلال تھا کہ یو سی سی ہندوستان کے تنوع اور تکثیریت کو ختم کردے گا، اس
لیے اس کا نفاذ ضروری نہیں ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے یو سی سی کی یہ
کہتے ہوئے سخت مخالفت کی کہ صرف ہندوستان کی مسلم آبادی کو نشانہ بنانے کے لیے اس
کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
اگرچہ زعفرانی لیڈروں کے
لیے یو سی سی ایک ترجیحی مسئلہ ہے، شمال مشرقی ہندوستانی ریاستوں میزورم، ناگالینڈ
اور میگھالیہ (جو حکمران جماعت بی جے پی کے سیاسی حلیف بھی ہیں) کے بہت سے سیاست
دانوں نے اس پیشرفت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ نئی دلی میں مرکزی حکومت نے
ابتدائی طور پر اس بل کو پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں پیش کرنے کا منصوبہ بنایا
اور ہندوستان کے لاء کمیشن نے مجوزہ یو سی سی پر تنظیموں اور شہریوں سے تجاویز
اکٹھی کیں۔
لاء پینل کو 80 لاکھ سے
زائد گذارشات کا زبردست جواب ملا اور یہ حکومت کے لیے ایک مسودہ تیار کرنے کے ساتھ
ساتھ مختلف جماعتوں کے ساتھ بات چیت کا اہتمام کرنے جا رہا ہے۔ قبل ازیں صدر
جمہوریہ کے دفتر کو 0.3 ملین سے زیادہ تجاویز موصول ہوئی تھیں اور وزیر اعظم کے
دفتر کو 0.2 ملین سے زیادہ جوابات ملے تھے۔
ایک بار نافذ ہو جانے کے
بعد، یکساں قانون ہر ہندوستانی شہری پر اس کے مذہب، برادری اور جنس سے قطع نظر
لاگو ہوگا۔ اس طرح، یہ مذہب پر مبنی ذاتی قوانین کو ختم کر گا۔ لیکن بہت سے سیاسی
مبصرین اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ وفاقی حکومت جاری پارلیمانی اجلاس (جس کا
اختتام 11 اگست کو ہونا ہے) میں یہ بل لائے گی۔ ان کا ماننا ہے کہ حکومت پہلے تعدد
ازدواج کے رواج پر پابندی لگانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے (جسے UCCو
سی سی کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے) جس سے خاص طور پر مسلم خواتین سے ان کے
انتخابی فوائد میں اضافہ ہوگا۔
مزید برآں، ہندوستانی سماج
کا ایک بڑا طبقہ یہ بھی مانتا ہے کہ صنفی لحاظ سے حساس جدید معاشرے میں تعدد ازدواج
(bigamy) کی کوئی جگہ نہیں ہے اس لیے اسے فوری طور پر غیر قانونی قرار دیا
جانا چاہیے۔
دلچسپ بحثوں کے درمیان،
شمال مشرقی علاقے میں آسام حکومت تعدد ازدواج پر پابندی کے نئے قانون کے ساتھ آگے
بڑھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما نے انکشاف کیا ہے
کہ ہماری حکومت اس عمل پر پابندی لگانے کے لیے ستمبر میں ہونے والے ریاستی قانون
ساز اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں ایک بل پیش کرے گی۔ تعدد ازدواج کی ممانعت پر اصرار
کرتے ہوئے تاکہ ایک مرد کو خواہ اس کا مذہب کوئی بھی ہو، ایک وقت میں ایک سے زیادہ
شادی کرنے سے روکا جا سکے، بی جے پی لیڈر نے اعتراف کیا کہ ریاست میں پڑھے لکھے
خاندانوں (جس میں مقامی مسلمان بھی شامل ہیں) میں یہ رجحان تقریباً صفر ہے۔ تاہم
انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس اقدام کا مقصد کسی کمیونٹی کو نشانہ بنانا
نہیں ہے۔
کچھ دن پہلے، سرما نے یہ
جانچنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی کہ آیا ریاستی مقننہ کو تعدد ازدواج پر
پابندی لگانے کا اختیار ہے یا نہیں۔ حال ہی میں، جسٹس رومی فوکن کی سربراہی میں
کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ریاستی اسمبلی یہ
قانون بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ سخت گیر زعفرانی رہنما نے زور دے کر کہا کہ آسام
میں تعدد ازدواج پر پابندی 2024 تک عائد کر دی جائے گی، جس کا مقصد ذات، نسل یا
مذہب سے قطع نظر خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ایک مثبت ماحول پیدا کرنا ہے۔
مردوں ایک سے زیادہ بیویاں
رکھنے (یقینی طور پر اس کے برعکس نہیں) کا رجحان قدیم ہندوستان میں عام تھا۔
شہنشاہوں سے لے کر بادشاہوں اور جاگیرداروں سے لے کر بااثر افراد تک سبھی اس عمل
سے لطف اندوز ہوتے تھے (حالانکہ رہنما اصولوں یہ تھے کہ بیویوں کے ساتھ یکساں سلوک
کیا جانا چاہئے) کیونکہ یہ پہلے ممنوع نہیں تھا۔ تاہم، 1947 میں ہندوستان کی آزادی
کے بعد، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اس عمل کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں اور پھر
اسپیشل میرج ایکٹ 1954 اور ہندو میرج ایکٹ 1955 آیا، جس نے ہندوؤں، بدھسٹوں، جینوں
اور سکھوں کے لیے تعدد ازدواج کو غیر قانونی قرار دیا (کچھ قبائلی برادریوں اور گوا کے رہائشیوں کے
استثناء کے ساتھ)۔
تاہم، مسلم پرسنل لاء
(شریعت) اپلیکیشن ایکٹ 1937 ایک مسلمان مرد کو ایک وقت میں چار عورتوں سے شادی
کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اسلام میں داخلہ (دوسرے مذاہب سے) بھی مرد کو
ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ سپریم کورٹ نے بعد میں 1995 میں اس
قسم کی مذہبی تبدیلی کو غیر آئینی قرار دیا۔ قبل ازیں عدالت عظمیٰ نے تین طلاق (جس
کے تحت مسلمان مرد تین بار طلاق کا لفظ کہہ کر اپنی بیویوں کو طلاق دیتے تھے) کو
غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے مسلم خواتین کے لیے ناجائز قرار دیا تھا۔ کیونکہ وہ
اپنے شوہر کے فیصلے کے خلاف قانونی آواز نہیں اٹھا سکتی تھیں۔ 2017 کے تاریخی
فیصلے نے تعدد ازدواج کو یکطرفہ اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کی
راہ بھی ہموار کی۔
مسلم اکثریتی ممالک میں سے
ترکی اور تیونس پہلے ہی تعدد ازدواج پر پابندی لگا چکے ہیں۔ کچھ ممالک جیسے مصر،
شام، عراق، یمن، اردن، الجزائر، مراکش، کیمرون، ملیشیا، پاکستان، بنگلہ دیش
پابندیوں کے ساتھ تعدد ازدواج کی اجازت دیتے ہیں۔ لیکن اس روئے زمین پر یہ کم ہی
سنا گیا ہے کہ عورت کو ایک سے زیادہ شریک حیات رکھنے کی اجازت ہے۔ تاہم کوئی
مہابھارت کا ذکر کر سکتا ہے جس میں پانچ شوہروں کے ساتھ رہنے والی ایک خاتون کا
تذکرہ ملتا ہے۔ پنچال سلطنت کی شہزادی دروپدی نے پانچ پانڈووں (یودھیستھر، بھیم،
ارجن، نوکول اور سہدیو) سے شادی کی اور وہ مخصوص انتظامات کے تحت ایک سال تک ایک
پانڈو کے ساتھ رہتی تھیں۔ مہینوں پہلے، جب آسام حکومت نے بچوں کی شادیوں کے خلاف
کارروائی کی اور ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا، تو یہ منظر عام پر آیا کہ بہت سے
بوڑھے مسلمان مرد اپنی سماجی و اقتصادی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوان لڑکیوں
سے شادی کرتے تھے۔ کم عمری کی شادیوں کے خلاف مہم، اگرچہ ہر ذی شعور شہری کی طرف
سے منطقی طور پر اس کی حمایت کی گئی ہے، لیکن اسے طاقت کا غلط استعمال قرار دیتے
ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے عوام میں غم و غصہ پیدا کر دیا۔
تنقید سے بے نیاز، سرما نے
کہا کہ بچیوں کی شادیوں کے خلاف مہم جاری رکھنی چاہیے اور تعدد ازدواج کے خلاف
قانونی طریقہ نکالا جائے گا۔
English
Article: Banning Polygamy in Assam to Create Positive
Ecosystem for Women’s Empowerment Irrespective of Caste, Creed or Religion
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism