اردو بولنے والے مہاجرین
حامیان پاکستان کے بدنما داغ کے ساتھ رہتے ہیں
اہم نکات:
1. مہاجر کیمپوں کے
اردو شاعروں اور ادیبوں نے اردو کو زندہ رکھا ہے
2. اردو شاعروں کو
فیملی کے ساتھ 8×8 فٹ کے کمروں میں رہنا پڑتا ہے
3. مشاعرے اور قوالی
باقاعدگی سے کیمپوں میں منعقد ہوتے رہتے ہیں
4. اسد چودھری اور شمس
الحق جیسے بنگلہ قلم کاروں نے اردو لکھنے والوں کی حمایت کی ہے
-----
نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
31 جولائی 2021
1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے ساتھ ہی اردو زبان ایک بار پھر
'ساتھیوں' کی زبان بن گئی۔ 'بہاریوں' کے نام سے مشہور بنگلہ دیش کے اردو بولنے
والے مسلمان تبھی سے بنگلہ دیش کی بنگالی بولنے والی اکثریتی برادری کے خلاف
پاکستانی جارحیت کے حامی ہونے کے بدنما داغ کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ اردو
بولنے والے مسلمان جن کی تعداد تقریبا 2،50،000 ہے بنگلہ دیش کے 116 کیمپوں میں
رہتے ہیں۔ جنیوا کیمپ کے نام سے سب سے بڑا بہاری مہاجر کیمپ ڈھاکہ میں ہے جہاں
تقریبا ایک لاکھ بہاری 8×8 فٹ کے گھروں میں رہتے ہیں۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے
بعد یہاں اردو پردیسی ہو گئی۔ اردو اسکول بند ہو گئے، اردو کو بطور اختیاری مضمون
اعلی تعلیم سے ختم کر دیا گیا اور اردو جرائد اور اخبارات بند ہو گئے۔ اس صورتحال
میں اردو بولنے والے طبقے کے لیے بنگلہ دیش میں اپنی شناخت کے ساتھ رہنا بہت مشکل
تھا۔ تاہم، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا زخم بھرنے لگے اور اکثریتی برادری کی دشمنی کم
ہوتی گئی اور اسد چودھری جیسے لبرل بنگلہ قلم کاروں نے اردو لکھنے والوں کی اردو
نظموں کا بنگلہ میں ترجمہ کر کے اس خلا کو کم کرنے میں مدد کیا۔
چونکہ ان پناہ گزینوں کی
مادری زبان اردو ہے یہ کیمپس بھی بنگلہ دیش میں اردو زبان و ادب کے مراکز ہیں۔
اردو ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں یہاں باقاعدگی سے منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ بنگلہ دیش
کے بیشتر اردو شاعر، کہانی نویس اور گیت کار ان کیمپوں میں رہتے ہیں اور انہوں نے
اپنی زبان اور ثقافتی ورثے کو ایک دشمن ملک میں بھی زندہ رکھا ہے۔
مشاعرے، قوالی اور ترنم
(موسیقی) کے پروگرام ان کیمپوں میں منعقد ہوتے ہیں جن میں ملک بھر کے کیمپوں سے
گلوکار اور شاعر شرکت کرتے ہیں۔ شمیم زمانوی، قاسم انیس، قمر الزماں، طالب کبیر،
ارمان شمسی، عنایت اللہ صدیقی، جمیل اختر، سید افضل حسین، سید فاطمہ اسلام روزی،
انوارالحق ، نظر نیازی، سید فیاض حسین، ریاض رفیق، مامون صدیقی، شوکت نور، صلاح
الدین عامر اور قربان علی کچھ ایسے شاعر ہیں جو بنگلہ دیش میں اردو زبان و ادب کی
آواز اور نمائندے ہیں۔ ان کی شاعری میں زندگی کی مشترکہ خوشیوں اور غموں کے علاوہ
پناہ گزین کیمپوں کی بدحال زندگی، عدم مساوات اور اپنے وطن سے دوری کا درد جھلکتا
ہے۔
وہاں کچھ ادبی اور ثقافتی
تنظیمیں بھی ہیں مثلاً بزمِ اقبال، حلقہ احباب اور بنگلہ اردو ساہتیہ فاؤنڈیشن۔
مؤخر الذکر اردو اور بنگلہ ادب کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے۔ یہ بنگلہ میں
اردو نظموں کے ترجمے شائع کرتا ہے۔ یہ آواز نامی ایک میگزین بھی شائع کرتا ہے۔
بنگلہ قلم کار اسد چودھری بنگلہ دیش میں اردو زبان و ادب کی سرپرستی میں اہم کردار
ادا کر رہے ہیں۔
بنگلہ اکیڈمی کے سابق
ڈائریکٹر اسد چودھری نے 100 اردو نظموں کے تراجم کا ایک مجموعہ بھی شائع کیا ہے جس
کا عنوان ہے 'بریر کچے ارشینگر'۔
اردو ادبی میگزین مثلاً
خیال، پیغام اور ماحول وقتا فوقتا شائع ہوتے رہے ہیں۔
شمیم زمانوی جو کہ
ہندوستان کے اتر پردیش سے ہیں کافی متحرک ہیں اور بنگلہ اردو ساہتیہ فاؤنڈیشن کے
نائب صدر ہیں۔
تقسیم کچھ سیاستدانوں کے
سیاسی عزائم کی وجہ سے ہوئی لیکن اسے لسانی کشمکش کا رنگ دیا گیا۔ اور اس کشمکش کا
شکار اردو ہوئی۔
اگرچہ بنگلہ دیش کی ڈھاکہ
یونیورسٹی اور راج شاہی یونیورسٹی میں اردو پڑھائی جاتی ہے لیکن ملک میں اردو زبان
کی ترقی کے کوئی امکانات نہیں ہیں کیونکہ اس زبان کو کوئی ریاستی سرپرستی حاصل
نہیں ہے اور نہ ہی اردو سیکھنے کی کوئی گنجائش ہے۔ لہٰذا اردو شاعروں اور ادیبوں
کو لگتا ہے کہ اردو کا بنگلہ دیش میں مستقبل روشن نہیں ہے۔
English
Article: In Bangladesh, Urdu Language and Literature Survive
Only In ‘Bihari’ Refugee Camps
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism