ودود ساجد
11 اگست 2024
برصغیر کی معلوم سیاسی
تاریخ میں
وقت کی یہ ’ستم ظریفی‘ پہلی باردیکھنے کو ملی کہ بنگلہ
دیش کی جوبھاری بھرکم خاتون کم وبیش 20برس سے بلا شرکت غیرےتخت اقتدارپر متمکن تھی
اور جس کے ایک اشارہ چشم وابرو پر درجنوں افراد کو تختہ دار پر چڑھادیا گیا اسے
اپنا ملک چھوڑ کر بھاگنے کیلئے محض 45منٹ دئے گئے۔ دوسرا واقعہ بھی عدیم النظیرہے۔
یہ بھی پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ انہوں نےجس دوست ملک ہندوستان کا ایک سے زائد
مرتبہ اپنے ملک کی وزیر اعظم کی حیثیت سے دورہ کیا وہاںآج ایک عارضی پناہ گزیں کے
طورپر بھاگ کر آنا پڑا۔ جہاں دودہائیوں میں کم سے کم چار مرتبہ شان وشوکت کے ساتھ
سرکاری مہمان بن کر آنے کا شرف حاصل ہوا وہیں ایک ہی جھٹکے میں یہ ہوا کہ غیر یقینی
کیفیت میں ’ایربیس‘ کے ہی گیسٹ ہاوس میں راتیں گزارنی پڑیں۔ یہ فطری صورتحال
دوسروں کو عبرت حاصل کرنے کا موقع دیتی ہے۔ کسی کو مشکل میں دیکھ کراس کی مشکل
پرخوش ہونا درست نہیں ہے لیکن یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ ایسی مشکل صورت آئی ہی
کیوں...
نئی نسل کو یہ جاننا
ضروری ہے کہ تقسیم وطن کے بعد موجودہ بنگلہ دیش بھی پاکستان کا ہی حصہ تھا۔ یہ
کتنی حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کا ایک حصہ ہندوستان کے مغرب میں تھا اور دوسرا
حصہ اس کے مشرق میں۔ دونوں کے درمیان کم سے کم دوملک ہندوستان اور نیپال حائل تھے
اور دوہزار 204 کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ مغربی حصہ میں اردو بولی جاتی تھی اور مشرقی
حصہ میں بنگالی۔ ثقافتوں کا فرق زبانیں طے کرتی ہیں اور یہ فرق دوسرے تمام عوامل
پر فوقیت رکھتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس کا مرکز اقتدار مغربی حصہ میں ہی تھا۔
جب اردو کو سرکاری زبان قرار دیا گیا توبنگالی زبان بولنے والوں کو محسوس ہوا کہ
ان کی ثقافت کو خطرہ ہے اور ان پر اردو زبان تھوپی جارہی ہے۔ لہٰذا زبان وثقافت کو
محفوظ رکھنے کیلئے 1952 میں بنگلہ تحریک شروع ہوگئی۔ 1970 میں
’سول نافرمانی تحریک‘ شروع ہوئی جو الگ ملک بنگلہ دیش کے مطالبہ کی پرتشدد تحریک
میں بدل
گئی۔ اس تحریک میں کئی دوسرے عوامل بھی جڑ گئے۔ مارشل لا بھی نافذ ہوا لیکن
آخرکار1971میںہندوستان کی مدد سے مشرقی پاکستان ایک الگ ملک کے طورپر وجود میں
آگیا۔اس موقع پرہندوپاک کے درمیان تیسری جنگ ہوئی تھی اور ہندوستانی افواج نے
پاکستان کو شکست دی تھی۔اس وقت کی وزیر اعظم اندراگاندھی نے اس قضیہ میں بڑا کردار
ادا کیا تھا۔ پارلیمنٹ کے ریکارڈکا حوالہ دے کرکانگریس اور بائیں بازوکے لیڈر دعوی
کرتے ہیں کہ اس وقت جن سنگھ کے لیڈر اٹل بہاری باجپائی نے اندرا گاندھی کی اس
کامیابی سے خوش ہوکر انہیں ’درگاماں‘کا خطاب دیا تھا۔
واقعہ یہ ہے کہ مشرقی
پاکستان یا بنگلہ دیش کی ہمہ جہت تاریخ بڑی دلچسپ مگر بڑے نشیب وفراز سے پر ہے۔
تاریخ کی کتابیں بتاتی ہیں کہ بنگلہ زبان بولنے والوں نے اپنی
ثقافت کے تحفظ کیلئے اردو والوں سے جو لوہا لیا تھااس نے خود بنگلہ دیش میں موجود
مختلف الخیال طبقات اور بنگلہ تحریک کے پیروکاروں کے درمیان ہمیشہ کیلئے تفریق اور
عداوت کا بیج بودیا۔ اس تحریک کی قیادت شیخ حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمان
کر رہے تھے۔ انہوں نے 1971 میں عوامی لیگ کے بینر تلے جو الیکشن جیتا تھا پاکستان
کے حکمرانوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ لیکن جب الگ ملک بنگلہ دیش بن
گیااور شیخ مجیب الرحمان نے حکومت سنبھالی تو انہوں نے بنگلہ تحریک میں
’گوریلاجنگ‘ لڑنے والوں کیلئے سرکاری نوکریوں میں 30فیصد ریزرویشن کا التزام رکھ
دیا۔ اس کے علاوہ ’آزادی کی جنگ‘کے دوران متاثر ہونے والی خواتین کیلئے 10فیصد
اور مختلف اضلاع کے افراد کیلئے 40فیصد ریزرویشن کردیا۔ اس طرح لیاقت کی بنیاد
پرنوکری کیلئےدرخواست دینے والوں کیلئے محض 20فیصد جگہ ہی باقی رہ گئی۔ دنیا بھر کے ماہرین اقتصادیات ریزرویشن کی
مذکورہ صورت پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ اب تازہ قضیہ بھی اسی کے سبب کھڑا ہوا
تھا۔ 15اگست 1978کوشیخ مجیب الرحمن کا قتل
ہوگیا‘ واقعہ یہ ہے کہ شیخ حسینہ اور ان کی بہن ریحانہ اس لئے بچ گئیں کہ وہ ملک
سے باہر تھیں۔ ہندوستان نے اس وقت بھی شیخ حسینہ کو پناہ دی تھی۔ وہ اپنے والد کے
قتل کے تین سال بعد 1981 میں بنگلہ دیش لوٹی تھیں۔ آج 43سال بعد پھر ہندوستان نے
انہیں پناہ دی ہے۔
2022 کے ایک سرکاری سروے کے بعد بنگلہ دیش کے محکمہ اعدادو شمار کی
سیکریٹری شہناز آفرین نے کہا تھا کہ نوجوانوں کی تعداد میں تقریباً 16فیصد کا
اضافہ ہوگیا ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی دولت ہے۔ لیکن کون جانتا تھا کہ بنگلہ دیش
کی یہ’ سب سے بڑی دولت‘ ہی شیخ حسینہ کیلئے سب سے بڑی زحمت بن جائے گی۔اس وقت وہاں
چار کروڑ 59لاکھ نوجوان 14سے29برس کی عمر کے ہیں۔ یہ تعداد کل آبادی کا 28فیصد
ہے۔ کل آبادی 17کروڑ ہے۔ 2018سے 2020تک وہاں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا تھا
لیکن اس کے بعد اس میں مسلسل کمی آنے لگی تھی۔ بنگلہ دیش کی اقتصادیات بھی مضبوط
ہورہی تھی۔ کپڑے کی صنعت پوری دنیا میں مقبول ہورہی تھی اور اس وقت عالمی رینکنگ
میں چین
کے بعد تیسرے نمبر پر تھی۔ لیکن اصل فتنہ کی جڑ یہ تھی کہ ناخواندہ نوجوانوں کوتو
کام مل رہا تھا مگر پڑھے لکھے نوجوانوں کو کام نہیں مل رہا تھا۔ اس قضیہ پر تفصیل
سے لکھا جاسکتا ہے کہ آخر بنگلہ دیش میں‘ جس نے پچھلی ایک دہائی میں ہمہ جہت ترقی
حاصل کی ہے‘ تعلیم یافتہ نوجوانوں کیلئے روزگار کے راستے کیوں تنگ ہوتے گئے۔ اس کا
سب سے بڑا سبب ریزرویشن کا وہی غیر معقول التزام ہے جو 1971سے چلا آرہا ہے۔ لہٰذا
پڑھے لکھے نوجوانوں نے ریزرویشن مخالف جو تحریک چلائی تھی وہ بڑی ہوکر اتنی پھیل
گئی کہ پورا ملک وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف سرتاپا احتجاج بن گیا۔
شیخ حسینہ کی ذاتی
قربانیوں
اور عوامی خدمات کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان
کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا وہ تاریخ کا ایک کریہہ باب ہے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کو
عالمی سطح پر بڑے ملکوں کے برابر لاکر کھڑا کردیا۔ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ ان
کے تین اوصاف ایسے ہیں جن کی وجہ سے ان کا وہ حشر ہوا جس کا آج وہ سامنا کر رہی ہیں۔
وہ آمرانہ مزاج رکھتی ہیں‘ احسان فراموش ہیں اوربدعنوان ہیں۔ انہوں نے تمام
جمہوری اقدار کو کچل کر رکھ دیا‘ جس خالدہ ضیاء کی مددسے انہوں نے بنگلہ دیش کے
صدر جنرل حسین محمد ارشادکے خلاف جمہوریت کی کامیاب مہم چلائی تھی‘ اقتدار ملنے کے
بعد وہ انہی کی دشمن جاں بن گئیں‘ اور یہ کہ انہوں نے اپنی پارٹی کے بدعنوان
لیڈروں کو کھل کر لوٹ پاٹ مچانے کا موقع دیا۔ خودان پر بھی بدعنوانی کے تحت
عدالتوںمیں مقدمات قائم کیے گئے۔ ان کے چپراسی کے پاس سے 400کروڑ روپیہ نکلےتھے جس
کا اعتراف کرتے ہوئے خود حسینہ واجد نے ہی اپنے چپراسی کوبرطرف کردیا تھا۔وہ 1996
میں پہلی مرتبہ ملک کی وزیراعظم بنیں۔ اس دوران انھوں نے ہندوستان کے ساتھ’ پانی
کی حصہ داری‘ کا معاہدہ کیا اور بنگلہ دیش کے جنوب مشرقی علاقوں میں لڑنے والے
عسکریت پسندوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے۔ لیکن 2001 میں اپنی سابق اتحادی
جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما بیگم خالدہ ضیا سے الیکشن میں شکست کھا
گئیں اور خالدہ ضیاء نے وزیر اعظم کا منصب سنبھال لیا۔
بی بی سی کے صحافی
اتھراجن کا کہناہے کہ بنگلہ دیش کی سیاست پر یہ دونوں خواتین تقریباً پچھلی تین
دہائیوں سے چھائی رہیں اور انھیں ملک میں ’جنگجو بیگمات‘ کے نام سے پُکارا جانے
لگا۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ان دونوں رہنماؤں کی لڑائی کے سبب ملک میں بم
دھماکے ہوئے، درجنوں لوگ لاپتہ ہوئے اور لوگوں کا ماورائے
عدالت قتل ہونا معمول بن گیا۔ 2009 میں ایک عبوری حکومت کی نگرانی میں الیکشن
ہوئے اور شیخ حسینہ ایک بار پھر ملک کی وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔ اس کے بعد انہوں
نے اقتدار پر مضبوطی قائم رکھنے کے تمام آمرانہ اور جابرانہ طریقے اختیار کئے
اورنہ صرف اپنے سیاسی مخالفین کو بلکہ ان ’رضاکاروں‘ کی نسلوںکو بھی نشانہ بنایا
جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بنگلہ تحریک کے خلاف مہم چلائی تھی۔ اپنے
سیاسی مخالفین کو اس طرح کچلنے کا برصغیر میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور انوکھا
دور تھا۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بنگلہ دیش میں رضاکار کہنے کا مطلب غدار وطن
یا ’ہماری زبان‘ میں’دیش دروہی‘ ہوتا ہے۔ شیخ حسینہ نے نصف صدی پہلے رونما ہونے
والے مبینہ جنگی جرائم کی آڑ میں اللہ کے نام لیوا درجنوں رضاکاروں کو تہہ تیغ
کرایا۔ کہیں عدالتوں کا سہارا لیا گیا اور کہیں ماوررائے عدالت طریقے اختیار کئے
گئے۔ عدالتوں سے 80سال کی عمر تک کے لوگوں کوبھی پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں اور
دنیا بھر کی اپیلوں کے باوجود انہیں پھانسی پر چڑھادیا گیا۔ انہوں نے اپنی سیاسی
مخالف خالدہ ضیاء کو بھی نظر بند کردیا۔ یہاں تک کہ پچھلا الیکشن انہوں نے اپوزیشن
کے الیکشن لڑے بغیر ہی جیت لیا۔خالدہ ضیاء کو درجنوں مہلک بیماریوں نے گھیرلیا
لیکن انہیں بغرض علاج بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
بنگلہ دیش کی اقتصادیات
شیخ حسینہ کے دور میں بہتر ہوئی لیکن بہت سے عالمی مبصرین اور مشاہدین کا خیال ہے
کہ ترقی کی چمک دمک بس راجدھانی ڈھاکہ اور زیادہ سے زیادہ کچھ شہری علاقوں تک ہی
محدود رہی جبکہ دیہی علاقے بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ جس نوجوان طاقت کو انہوں نے
نظر انداز کیا وہ انہی کے خلاف مضبوط ہوگئی۔ ان پراپنے چند درجن قریبی تاجر
گھرانوںکو ہی نفع پہنچانے کے بھی الزام لگے۔انہوں نے سفارتکاری کے میدان میں تو
اپنے ملک کو آگے پہنچایالیکن انہوں نے ملک کےجمہوری اداروںکوعمداً کچل کر رکھ
دیا۔انہوں نے تو موجودہ عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کے خلاف بھی متعددمقدمات
قائم کردئے جنہوں نے بنگلہ دیش میں ’گرامین بنک‘ قائم کئے تھےاورمائیکروفائنانس کا
تصور دیاتھا۔ جبکہ محمد یونس کو متعدد عالمی ایوارڈز کے علاوہ نوبل امن انعام بھی
مل چکا ہے۔لیکن وہ شیخ حسینہ کی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے رہے۔ دو مقدمات میں
عدالتوں سے انہیں سزا بھی ملی۔لیکن وقت کا پہیہ کبھی ٹھہرتا نہیں۔آج وقت کا پہیہ
گھوم کر وہاں آگیا ہے جس کا تصور نہ شیخ حسینہ نے کیا ہوگا اور نہ ہی ان کے ستائے
ہوئے محمدیونس نے۔ شیخ حسینہ کے خلاف جس بے قیادت قسم کی تحریک کی مشعل ’ناہید
اسلام ‘نامی نوجوان نے اٹھائی تھی وہ بھی عبوری حکومت میں شامل کرلیا گیا ہے۔خالدہ
ضیاء کو بھی رہا کردیا گیا ہے۔اس مختصر مضمون کی سطورمیں اور بنگلہ دیش میں پیش
آنے والے ان سلسلہ وار واقعات میں جابجا عبرت کے سبق بکھرے پڑے ہیں۔طبقات سے ان
کی زبان ‘ان کی ثقافت‘ان کی روایات‘ان کے دین ومشرب اور ان کی شناخت کوچھیننے کی
کوششوں کا یہ انجام روئے زمین پر موجود ہر اس حکمراں کیلئے ایک حقیقی وارننگ ہےجو
اپنے مختلف طبقات کے ساتھ وہی سلوک کرے جو شیخ حسینہ نے کیا۔حب الوطنی کی اپنی
تشریح اور اپنی طاقت کے زعم میں مخالفین کی طاقت کونظر انداز کرنے کا
اس کے سواکوئی دوسراانجام نہیں ہوتا۔
11 اگست 2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism