غلام
رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
25
مئی 2021
امن
کی ایک خوبصورت شاعری کی روایت فلسطین میں ہندوستان کی صوفی اور سکھ روایات کو ایک
ساتھ جوڑتی ہے
اہم
نکات:
· فلسطین
میں ہندوستان کی قیام امن کی کوششیں 800 سال پرانی ہیں جب چشتی سلسلہ کے عظیم
ہندوستانی صوفی بزرگ حضرت بابا فرید گنج شکر اجودھن سے وہاں تشریف لے گئے۔
· تب
سے ہی دنیا بھر کے صوفی بزرگ اپنی موسیقی، وجد و بیخودی و سرمستی کے ساتھ فلسطین
آتے رہے ہیں اور فلسطین میں قیام امن کی روحانی جد و جہد میں مصروف رہے ہیں۔
· فلسطین
کے پرانے مقدس شہر میں ابھی بھی ایک جگہ موجود ہے جسے الزوایہ الہندیہ (جسے ہندی
سرائے یا ہندوستانی لاج بھی کہا جاتا ہے) موجود ہے جہاں بابا فرید نے تیرہویں صدی
کے اوائل میں قیام اور مراقبہ کیا تھا۔
· روایتی
طور پر ہندوستانی زائرین بابا فرید کے مقام پر ان آلاتِ ساز و موسیقی کے ساتھ جمع
ہوتے ہیں جو وہ ہندوستان کے مشہور صوبہ پنجاب سے لے کر آتے ہیں۔
· صوفیاء
بابا فرید کی لکھی ہوئی شاعری اور سکھ مذہب کے صحیفہ گرو گرنتھ صاحب کی نظمیں
پڑھتے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جھڑپوں پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل نمائندہ ٹی ایس تیرومورتی نے کہا: ہندوستان "حرم الشریف / ٹیمپل ماؤنٹ میں ہونے والی جھڑپوں اور تشدد پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے" اور "الشیخ جراح اور سلوان کے نواحی علاقے میں بے دخلی پر بھی اسی قدر فکرمند ہے۔" انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت دونوں فریق سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خطے میں حالات خراب کرنے سے گریز کریں اور اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ اس پرانے شہر میں الزوایا الہندیہ یعنی ہندوستانی سرائے بھی ہے۔
فلسطین میں ہندوستان کی قیام امن کی کوششیں 800 سال پرانی ہیں جب چشتی سلسلہ کے عظیم ہندوستانی صوفی بزرگ حضرت بابا فرید گنج شکر اجودھن سے (جو اب پاک پتن کے نام سے مشہور ہے) وہاں زیارت کے لئے تشریف لے گئے تھے۔
ہمیں
صحیح طور پر یہ معلوم نہیں ہے کہ بابا فرید نے فلسطین کے مقدس شہر میں کتنے دن
قیام کیا تھا۔ تاہم، جب آپ پنجاب واپس آگئے جہاں آپ چشتی صوفی سلسلہ کے ایک عظیم
شیخ کی حیثیت سے مشہور ہوئے، اس کے ایک زمانے کے بعد فلسطین سے گزر کر مکہ جانے
والے ہندوستانی مسلمانوں نے بھی اس مقام پر نماز پڑھنا شروع کر دیا جہاں آپ نے
نماز ادا کی تھی۔ چنانچہ دھیرے دھیرے بابا فرید کی یاد میں اسی مقام پر ایک
ہندوستانی سرائے تعمیر کر دی گئی۔
عربی
زبان میں ’’الزوایہ الہندیہ یا "زاویۃ الہنود" کے نام سے مشہور یہ صوفی
خانقاہ فلسطین میں ہندوستان کے اس تاریخی کردار کی عظیم نشانی ہے جو امن ساز کے
بطور ہندوستان کے صوفیائے کرام نے ادا کیا ہے۔ روایت کے مطابق بابا فرید سن 1200
کے آس پاس فلسطین کے اس قدیم شہر میں وارد ہوئے اور 40 دنوں تک پتھر کے ایک غار
میں مراقبہ کیا۔ تب سے ہی مکہ جانے یا وہاں سے واپس آنے والے ہندوستانی حجاج کرام
اس مقام کی زیارت کے لئے جاتے رہے ہیں اور آخر کار وہ جگہ ہندوستانی سرائے بن گئی۔
اس زوایہ کے بڑے پیمانے پر دستاویزات بھی موجود ہیں۔
بابا
فرید ایک ایسے وقت میں فلسطین پہنچے تھے جب یہ مقدس شہر عیسائی حکمرانوں سے تقریبا
ایک صدی کے بعد مسلمانوں کے پاس واپس لوٹا تھا۔ بحیرہ روم کے ساحل پر پناہ گزیں
صلیبی دور نہیں گئے تھے اور صلاح الدین ایوبی نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ اگر
مسلمانوں کو فلسطین میں آباد کرنا ہے تو انہیں نہ صرف میدان جنگ میں صلیبی حملہ
آوروں سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہوگی بلکہ انہیں شہر کی روحانی قدروں کو بھی مضبوط
کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اور اس خواب کو ہندوستان کے صوفی بابا فرید نے شرمندہ تعبیر
کیا۔
تب
سے دنیا بھر کے صوفیائے کرام فلسطین کی طرف راغب ہوتے رہے ہیں۔ کچھ صوفیاء کرام تو
فلسطین ننگے پاؤں ہی تشریف لائے تھے۔ انہوں نے سکون اور روحانی آسودگی کی تلاش میں
شہر بہ شہر دورہ کیا۔ وہ زیادہ تر اونی لباس زیب تن کرتے تھے اور صحرا میں سوتے
تھے۔ وہ لوگوں کے درد میں روتے اور خدا کی محبت میں نظمیں پڑھتے تھے۔ تب سے دنیا
بھر کے صوفی بزرگ اپنی موسیقی، وجد و بیخودی و سرمستی کے ساتھ فلسطین میں قیام امن
کی روحانی جدوجہد میں مصروف رہے ہیں۔
جب
سلطان صلاح الدین ایوبی نے فلسطین کو دوبارہ آباد کیا اور سنہری گنبد کے نیچے تخت
سلیمانی رکھ دیا تو اس نے صوفی سنتوں کا کھلے دل سے استقبال کیا اور شہر کے ثقافتی
و روحانی ورثہ، مزارات اور مقدس مقامات کے حوالے سے لوگوں کی عقیدت کی حوصلہ
افزائی کی۔ اس خوبصورت تاریخی ماحول میں ہندوستانی زائرین بابا فرید کے مقام پر ان
آلاتِ ساز و موسیقی کے ساتھ جمع ہوتے ہیں جو ہندوستان کے مشہور صوبہ پنجاب سے لے
کر آتے ہیں۔ تب سے اب تک فلسطین میں تصوف کے یہ متلاشی بابا فرید اور ان کے شاگرد
گرو نانک دیو کی تحریر کردہ نظمیں گاتے آرہے ہیں۔ امن کی ایک خوبصورت شاعری کی
روایت فلسطین میں ہندوستان کی صوفی اور سکھ روایات کو ایک ساتھ جوڑتی ہے۔ سکھ مت
کے صحیفہ گورو گرنتھ صاحب میں بابا فرید کی درجنوں نظمیں ملتی ہیں جو صوفیانہ
نظموں کا مجموعہ ہے۔
قرون
وسطی کے سیاح ایولیا چیلبی نے 1671 میں الزوایہ الہندیہ — ہندوستانی سرائے کو شہر
کے سب سے بڑے زوایوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ آئند 300 یا 400 سالوں کے دوران دنیا
بھر سے صوفی مسافر فلسطین میں علاج و معالجے کے لئے صوفی مراکز، اسپتالوں، اسکولوں
اور لاجوں کی تعمیر میں ہندوستانیوں کی مدد کرتے رہے جس میں مراکش، کریمیا،
اناطولیہ اور ازبیکستان کے صوفیائے کرام شامل ہیں۔
----------
English Article: Baba Farid in Jerusalem: The Indian Hospice—Al-Zawiyya Al-Hindiyya—Marks A Spiritual Battle for Peace in Palestine
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism