ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
18 فروری 2022
اللہ رب العزت نے قرآن پاک
میں متعدد مقامات پر شعور کی بیداری کے حوالے سے انسان کو متوجہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے
یہ فرامین بلاشبہ انفرادی و اجتماعی ہر سطح پر اصلاح احوال کی طرف واضح رہنمائی کرتے
ہیں۔ بیداری شعور کے سلسلہ میں قرآن پاک ہمیں کس طرح خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے، آیئے
اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
‘‘بیشک تمہارے پاس تمہارے
رب کی جانب سے (ہدایت کی) نشانیاں آچکی ہیں پس جس نے( انھیں نگاہ بصیرت سے) دیکھ لیا
تو (یہ) اس کی اپنی ذات کیلئے(فائدہ مند) ہے ،اور جو اندھا رہا اس کا وبال(بهی) اسی
پر ہے ، اور میں تم پر نگہبان نہیں ہوں’’ (الانعام : 104)
اس آیت مبارکہ کا بیداری شعور
کی اہمیت پر مکمل اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے
بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ کے الفاظ استعمال فرماتے ہوئے بیداری شعور کا پیغام
دیا ہے کہ گویا ایسی نشانیاں ہیں جن میں بصیرت ہے اور شعور کی بیداری کا سامان ہے۔۔۔
فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ فرماکر واضح فرمادیا کہ اگر کسی فرد نے انفرادی طور پر
شعور کی آنکھ کھول لی تو اسے ذاتی طور پر فائدہ ہوگا اور اگر معاشرے اور قوم نے اجتماعی
طور پر ان نشانیوں کو دیکھ کر اور سمجھ کر شعور کی آنکھ کھول لی تو اسے اجتماعی طور
پر فائدہ ہوگا۔۔۔ پھر فرمایا : وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا جو لوگ آنکھوں کے سامنے دکھائی
دینے والی واضح نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود بھی اندھے رہے اور ان سے بصیرت اخذ نہ
کرسکے تو پھر اس کا وبال بھی انہی پر ہے۔۔۔ پھر فرمایا : وَمَآ اَنَا عَلَيْکُمْ بِحَفِيْظٍ. میں تمہارے اوپر نگہبان اور دراوغہ بن کے نہیں آیا
میرے کام تمہیں حقائق سے آگاہ کرنا اور متنبہ کرنا ہے، نفع اور نقصان کے تم خود ذمہ
دار ہو۔
وحی الہٰی کا آغاز اور پیغام
بیداری شعور
قرآن مجید شعور کی بیداری
پر کس قدر تاکید کرتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وحی الہٰی
کا آغاز ہی بیداری شعور کے پیغام سے ہوا ہے یعنی فروغ علم اور بیداری شعور دونوں آپس
میں لازم و ملزوم اور ایک دوسرے سے متعلق ہیں، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے۔
یعنی حالات، معاملات اور واقعات سے آگاہی حاصل کرنا علم کہلاتا ہے اور اس آگاہی سے
زندگی کا اچھا لائحہ عمل طے کرنے کے لئے درس عبرت حاصل کرنا، بصیرت اخذ کرنا اور اس
سے فکر و شعور کا نور حاصل کرنا شعور کہلاتا ہے۔ ارشاد فرمایا :
’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام
سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا‘‘۔(العلق : 1)
لفظ اقراء (پڑھئے) میں فروغ
علم کا پیغام ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے اس پیغام
کا آغاز کررہا ہے جس نے قیامت تک آنے والی انسانیت کو ہدایت دینی ہے۔ اس پیغام کے آغاز
کے کئی موضوعات ہوسکتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے فروغِ علم اور بیداری شعور کو پہلی وحی
کے عنوان اور مضمون کے طور پر اختیار فرمایا۔ افسوس! اسی سے آج امت مسلمہ محروم ہے۔اللہ
رب العزت کی طرف سے علم کا یہ پیغام اس سوسائٹی میں دیا جارہا ہے جہاں پڑھنا لکھنا
باعثِ عار تصور ہوتا تھا، اسے برائی، ہلکا اور گھٹیا کام سمجھتے تھے اور اَن پڑھ ہونا
باعث فخر سمجھا جاتا تھا۔ اس سے دور جاہلیت میں رہنے والوں کی ذہنیت، سوجھ بوجھ اور
فہم کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سوسائٹی کو مخاطب کیا جارہا ہے اور ایسے مضمون پر مشتمل
پہلی وحی آرہی ہے جو براہ راست ان کے تصور کے ساتھ مزاحمت اور مخالفت رکھتی ہے اور
بلاواسطہ ان کی فکر پر حملہ کررہی ہے۔ وہ اجتماعی طور پر پڑھنے لکھنے کے خلاف ہیں اور
پہلی وحی اس ماحول میں ’’اقراء‘‘ (پڑھئے) کے ساتھ نازل ہورہی ہے۔ یہ وحی انقلاب تھی۔
ایک علمی انقلاب کا آغاز کرنے کے لئے یہ وحی اتری۔اسی آیت مبارکہ میں بیداری
شعور کا پیغام بھی ساتھ ہی ہے۔ عرب معاشرہ تین سو ساٹھ بتوں کو پوجنے والا تھا، ہر
قبیلہ نے اپنے اپنے رب بنا رکھے تھے جو مختلف مقاصد کے لئے الگ الگ تھے۔ ہاتھوں کے
تراشے ہوئے یہ بت انہوں نے کعبۃ اللہ کے صحن میں سجا رکھے تھے۔ یہ ان کی مذہبی حالت
تھی، ان حالات میں بیداری شعور کا پیغام ان الفاظ کے ساتھ دیا :
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ
الَّذِيْ خَلَقَ کہ ان تین سو ساٹھ بتوں کو اٹھاکر پھینک دو، یہ تمہارے رب نہیں ہیں۔
تمہارا رب وہ ایک ہے جس نے تم سب کو پیدا کیا۔ یہ شعور کی بیداری کا پیغام تھا کہ جس
جہالت و کفر اور شرک کے اندھیروں میں تم پھنسے ہوئے ہو اور تم نے سینکڑوں خدا بنا رکھے
ہیں وہ سب غلط اور گمراہی ہیں، بہکاوہ ہے، تمہارا رب ان میں سے کوئی نہیں ہے۔ وہ فقط
ایک ہے کہ جس نے سب کو پیدا کیا ہے۔
پس پہلی ایک ہی آیت میں Message
of knowledge یعنی فروغ علم کا پیغام اور Message
of Awareness یعنی بیداری شعور کا پیغام ہے کہ آنکھیں کھولو یہ تم کیا کررہے ہو کہ اپنے
ہی تراشے ہوئے سینکڑوں بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہو حالانکہ ان میں کوئی بھی تمہارا رب
نہیں ہے۔
سماجی برائیوں کا خاتمہ
اس سوسائٹی کے اندر سماجی
خرایباں تھیں۔ تفاخر اور بڑائی کے بڑے بڑے نعرے، دعوے اور پیمانے تھے۔ ہر کوئی کئی
اعتبارات سے بڑا تھا۔ بیداری شعور کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کی سوچ اور خیالات
کی رو کو درست کرنے کے لئے ارشاد فرمایا :
’’پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا
ہی کریم ہے‘‘۔(العلق : 3)
بڑائی اور اونچا ہونے کے،
فخرکرنے کے سارے پیمانے مکمل طور پر غلط ہیں۔ بزرگ تو سب سے بڑا تمہارا رب ہے اور بعد
ازاں ایک اور موقع پر بڑائی اور عزت کا پیمانہ یہ مقرر فرمایا کہ:
’’بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں
زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو‘‘۔(الحجرات : 13)
بزرگی کا یہ پیمانہ ہے کہ
جو زیادہ متقی اور باکردار ہوگا وہی بزرگی والا ہوگا۔ پس اقراء و ربک الاکرم کے اندر
بیداری شعور کا پیغام دیا۔
فروغِ علم:
اس سوسائٹی کے لوگ لکھنے کے دشمن تھے اور باتیں زبانی یاد رکھتے تھے، لکھنا نہیں جانتے
تھے حتی کہ اپنا نام تک لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کا کلچر لکھنے کے یعنی قلم کے مخالف
تھا۔ اس پیغام کے ذریعے اللہ رب العزت نے ان کے ہاتھ میں قلم پکڑا دیا کہ:
’’جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے
پڑھنے کا) علم سکھایا‘‘۔(العلق : 4)
جس Device,
Tool اور
ذریعے کے وہ خلاف تھے اور جسے باعث عار سمجھتے تھے یعنی جس کا حافظہ کمزور ہے وہ قلم
کا سہارا لے، اس طرح کے ان کے Concepts تھے۔ اللہ رب العزت نے اس سوسائٹی کے اجتماعی ماحول
میں ان کے ہاتھ میں قلم پکڑا دیا۔
وسعتِ علم:
’’جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔(العلق
: 5)
علم کے تمام میدان، سائنسز
اور علم و شعور کے سارے راستے قلم کے ذریعے کھول دیئے اور پھر مَالَمْ يعْلَمْ کہہ
کر تصور علم کی تنگی کو ختم کردیا کہ صرف مذہبی علم پر علم کا حصر نہیں ہے۔ مذہبی Extreemism اور سیکولر Extreemisms دو انتہائیں ہیں۔ مذہبی لوگ کہتے ہیں کہ صرف درس
کا پڑھا ہوا ہی عالم ہے جبکہ سیکولر دنیاوی علوم کے لوگ دین کے علم کو بالکل اہمیت
نہیں دیتے بلکہ دنیاوی علم حاصل کرتے ہیں اور اسے ہی اصل علم قرار دیتے ہیں۔ ہر بندہ
دوسرے کو جاہل کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دیوار کو بھی توڑ دیا اور یہ بھی شعور کی
بیداری ہے۔ علم علی الاطلاق شے ہے۔ ایک Absolute
Reality ہے عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْ کے اندر یہ پیغام پنہاں ہے کہ
انسان جو کچھ نہیں جانتا تھا اس کو سکھادیا۔ اپنی ذات سے لے کر اس کائنات تک تمام حقائق
کو جاننا علم ہے اور پھر اس ذریعے سے چل کر کائنات کے خالق تک پہنچنا شعور ہے۔
انقلاب کا راستہ
غور کریں کہ قرآن مجید کی
پہلی وحی اور پہلا پیغام فروغ علم اور بیداری شعور ہے۔ اللہ رب العزت نے فروغ علم اور
بیداری شعور کے پیغام سے اپنے کلام کا آغاز کیا۔ کیا انقلاب کے لئے اس سے بہتر کوئی
پیغام اور راستہ ہوسکتا ہے؟
یاد رکھیں! انقلاب اس راہ
سے آئے گا جس راہ کو اللہ نے منتخب کیا اور جو پہلا پیغام اپنے آخری رسول کی طرف نازل
کیا اور جس کی بنیاد پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تحریک کا آغاز
کیا۔ حتی کہ آخر وقت تک آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیداری شعور اور فروغ علم کی
راہ کو اختیار کیا۔ وصال سے قبل علالت کے وقت بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو
آخری بات فرمائی وہ بھی یہ ہے کہ کاغذ اور قلم لاؤ، میں تمہیں لکھ دوں۔ گویا ابتداء
بھی قلم کے ذریعے پیغام دے کر کی تھی اور وصال کے وقت بھی قلم اور کاغذ ہی طلب فرمائے۔
پس اسلام کی تحریک کا آغاز
بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فروغ علم اور بیداری شعور سے فرمایا اور انتہاء
بھی فروغ علم اور بیداری شعور سے فرمائی۔ چونکہ وصال کے وقت آپ کا لکھنا اللہ رب العزت
کو منظور نہ تھا سو آپ علالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سہارا لے کر مسجد نبوی
میں تشریف لائے اور منبر پر بیٹھ کر خطاب فرمایا اور اس شعور کو آخری وقت میں بھی منتقل
کیا جو اللہ رب العزت کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امانت تھا اور جس کی
ادائیگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر بھر فرماتے رہے۔
غفلت۔۔ جانوروں سے مماثلت
کا باعث
اللہ تعالیٰ نے بیداری شعور
کے تصور کو قرآن مجید میں جابجا واضح فرمایا۔ ایک اور موقع پر بیداری شعور پر تاکید
اور اہمیت کو اس طرح واضح فرمایا : ’’وہ دل و دماغ رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے اور
وہ آنکھیں رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے اور وہ کان (بھی) رکھتے
ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سن نہیں سکتے، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ (ان سے بھی)
زیادہ گمراہ، وہی لوگ ہی غافل ہیں‘‘۔(الأعراف 179)
آیت مبارکہ میں انسانوں کی
اکثریت کے بارے میں فرمایا کہ دل و دماغ کے باوجود سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، یعنی
شعور نہیں ہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہورہا ہے اور دیکھ رہے ہیں مگر وہ دیکھنا،
دیکھنا نہیں ہے یعنی اس سے ان کو نصیحت حاصل نہیں ہوتی۔ حق کو نہیں دیکھتے۔ کان کے
ہوتے ہوئے بھی سن نہیں سکتے۔ ایسے لوگ جن کے قلب و دماغ بھی ہوں، جن کی آنکھیں اور
کان بھی ہوں مگر نہ سمجھ سکیں، نہ دیکھ سکیں اور نہ سن سکیں۔ قرآن کریم ان لوگوں کے
لئے تمثیل دے رہا ہے کہ ان کی حالت یہ ہے کہ چوپایوں جیسے لوگ ہیں بلکہ ان سے زیادہ
گمراہ اور بے راہ ہیں اور ان کی یہ حالت اس لئے ہے کہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں
شعور کی بیداری حاصل نہیں ہے۔ یہ ہماری قوم کا حال ہے۔
18 فروری 2022، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism