New Age Islam
Fri May 23 2025, 05:10 PM

Urdu Section ( 2 Apr 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Attempt to Close the Door to Religious Education دینی تعلیم کا دروازہ بند کرنے کی کوشش

ڈاکٹر غلام زرقانی

30 مارچ،2024

مدارس اسلامیہ کے حوالے سے ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کی دھمک سے علمی حلقے سکتے میں ہیں۔ ویسے صوبہ آسام میں مدارس اسلامیہ پر جس طرح کی بندشیں لگائی جارہی تھی، ان سے کسی حد تک یہ اشارے برابر مل رہے تھے کہ اتر پردیش کی حکومت بھی اپنے ہم پیالہ کے نقش قدم پر چلنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ تاہم یہ سب اس قدر سرعت کے ساتھ ہوگا، اس کی توقع نہیں کی جارہی تھی۔ فروری کے پہلے ہفتے میں باوثوق ذرائع سے خبر ملی تھی کہ ایک شہری نے صوبہ اتر پردیش کے دینی مدارس میں مروجہ تعلیم کے خلاف ایک پیٹشن داخل کی ہے، جس کی ایک خصوصی بنچ روزانہ سماعت کررہی ہے۔ مجھے جوں ہی خبرلگی، میں نے اس پس منظر میں ایک کالم تحریر کیا اور آثار وقرائن کے سہارے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ فیصلہ ہمارے لیے تکلیف دہ ہوسکتاہے۔ اس خد شے کی بنیاد یہ تھی کہ عام طور پر کسی بڑے مسئلے کے لیے عدالتی بنچ تشکیل دی جاتی ہے اور وہ بھی بڑے دباؤ کے بعد، لیکن متذکرہ مسئلہ پر بنچ کی تشکیل او رپھر روزانہ کئی کئی گھنٹے کی مسلسل سماعت یہ سمجھانے کے لیے کافی تھی کہ معاملہ کی نوعیت کیاہے؟

بہرکیف، جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔اب ہمیں آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں غور خوض کرنا چاہئے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہندوستان میں بادشاہت کے اختتام کے بعد سے لے کر اب تک اگر مذہب اسلام اور اس کی روایات زندہ وتابندہ ہیں، تو یہ سرتاسرملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مدارس اسلامیہ کی وجہ سے ہیں۔یہیں سے علماء فقہاء ائمہ، خطبا اور دینی مزاج رکھنے والے اصحاب فکر و نظر پیدا ہوئے، جنہوں نے مسلم معاشرے میں دین متین کی شمع فروزاں رکھنے میں فعال ومتحرک کردار ادا کیا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اگر مدارس اسلامیہ نہ ہوتے، تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ نہ تو ہمیں نماز پڑھانے والے دستیاب ہوتے، نہ ہی روزہ،حج وعمرہ او راحکامات دین سمجھانے والے، نہ نکاح وطلاق کی گتھیاں سلجھانے والے، او رنہ ہی نئی نسل میں دینی روایات کو منتقل کرنے والے۔

شاید فرقہ پرست طاقتوں نے مدارس اسلامیہ کے اسی مرکزی کردار کی اہمیت کا ندازہ بخوبی لگایا ہے، اسی لئے گزشتہ پانچ سالوں سے یوپی، اور آسام میں آئے دن مدارس اسلامیہ نشانہ بناے جارہے ہیں۔ کبھی مدارس اسلامیہ کے کاغذات کی تفیش،کبھی رجسٹریشن سے متعلق دستاویزات کی تلاشی، کبھی عمارتوں کے نقشہ جات کی منظوری سے متعلق سوالات او راب وہ ایکٹ ہی ختم کرنے کی کوشش، جس کے سہارے صوبہ آسام اتر پردیش کے سینکڑوں مدارس اسلامیہ حکومتی امداد حاصل کرنے کے مستحق قرار دیے گئے ہیں۔

کہنے کو تو یہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے او راسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔لیکن آثار وقرائن صاف بتارہے ہیں کہ وہاں سے بھی اوّل تو کسی راحت کی توقع فضول ہے۔ او ربالفرض اگر تسلیم کرلیں کہ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف کوئی رائے دے بھی دی، جب یہ خوشی دیر پا ثابت نہیں ہوگی۔ ایسا کہنا عین حقیقت ہے کہ آنے والے انتخاب میں کامیابی کے بعد وہ ایکٹ ہی پارلیمنٹ سے منسوخ کرادیاجائے گا، جس کے سہارے مدرسہ بورڈ کی ساری بہاریں قائم ہیں۔ اس لیے کہ جب ارباب اقتدار اپنی نیت سے نقاب الٹ دیں، تو پھر ان کی راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہم ایسے حالات میں کیاکریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مدرسہ بورڈ کی تحلیل کے بعد ہزاروں اساتذہ ایک لخت سرکاری تنخواہوں سے محروم ہوجائیں گے، جو انفرادی طو رپر بہت ہی تباہ کن ہے۔ تاہم ملت اسلامیہ سے بجا طور پر امید کی جاسکتی ہے کہ جس طرح سینکڑوں غیر منظور شدہ مدارس اسلامیہ زندہ ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ مالی امداد کے ذریعہ اپنے محبوب اداروں کی سرپرستی کریں گے اور کسی حد تک یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اس طرح آپ اسے چھوٹی مصیبت کہہ سکتے ہیں، لیکن اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ متذکرہ فیصلے کے مطابق چھوٹے بچوں کے لیے عصری تعلیم کا حصول ضروری قرار دے دیا گیا ہے۔ یعنی جس طرح آسام میں مدارس اسلامیہ کو عصری علوم و فنون کی درسگاہوں میں تبدیل کردیا گیاہے، شاید اب یوپی میں بھی یہی اقدامات کیے جائیں گے۔ ہمیں عصری علوم وفنون کی اہمیت سے انکار نہیں،لیکن یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ دین متین کے تحفظ وصیانت کے لیے چند ہی سہی، ایسے افراد کی ہر دور میں ضرورت ہے، جو دینی علوم وفنون میں مہارت تامہ رکھتے ہوں۔ یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتاہے کہ اگر مہا رت تامہ رکھنے والے افر اد کامیاب ہوجائیں گے تو دین اسلام کی تشریح ووضاحت کیوں کرنئی نسلوں تک منتقل ہوسکے گی۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ فرقہ پرست عناصر نہایت ہی منصوبہ بند طریقے سے اسلام کے استحکام کی راہیں مسدو د کرنے کی ناپاک سازشیں کررہے ہیں۔

ہزار مصائب وآلام او رموانع ومشکلات کے ہمیں آفتاب نیم روز کی طرح یقین ہے کہ سازشیں کرنے والے اپنے ارادے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکیں گے اور صبح قیامت مذہب اسلام پورے آب و تاب کے ساتھ ہمارے معاشرے میں نورانیت بکھیر تارہے گا۔ او رہمیں یہ بھی یقین کامل ہے کہ موجودہ حالات بہت زیادہ دنوں تک یکساں نہیں رہیں گے۔

ٹھیک ہے، دین متین کے استحکام وترقی کے حوالے سے ہزار دلی اطمینان سہی، تاہم موجودہ حالات میں استطاعت بھر ہمیں اپنی کوشش ضرور کرنی چاہئے۔ میرے خیال میں وہ چند مدارس بند کرناچاہتے ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے علاقے کی ہر مسجد کو جزوقی دینی مدرسہ میں تبدیل کردیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ مساجد میں چھوٹے چھوٹے قلیل المیعاد دینی کو رس ترتیب دیے جائیں اور علاقے کے لوگوں سے درخواست کی جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں حصول علوم دینیہ کے لیے داخلہ لیں۔ اس میں بچے،بڑے او ربوڑھے سبھی شریک ہوسکتے ہیں۔ یہ کورس دوپہر میں بھی ہو اور رات میں بھی، تاکہ جو لوگ دوپہر میں فارغ ہوں، وہ دوپہر میں شریک درس ہوجائیں او رجو لوگ دن میں مصروف رہتے ہوں، وہ رات میں شا مل ہوجائیں۔غرض یہ کہ علوم دینیہ کے نسلاً بعدنسل منتقلی کی جو روایت ہمارے ملک میں جاری ہے وہ کسی بھی طرح کمزور نہ ہونے پائے۔ اس طرح ایک طرف فرقہ پرست عناصر کی تمام تر منصوبہ بند سازشیں خاک میں مل جائیں گی اور دوسری جانب جب حالات تبدیل ہوجائیں گے،تو علوم دینیہ کی از سرترتیب میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

30 مارچ،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی 

-------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/attempt-close-religious-education/d/132059

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..