سراج نقوی
25اگست،2023
دلی کے طاہر پور علاقے
میں ”ہندوتووادیو ں“ کے ذریعہ ایک چرچ پر کیا گیا بزدلانہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے
کہ کس طرح ملک کو ’ہندوراشٹر‘ کے نام پر غنڈوں او رمذہبی انتہا پسندوں کی آماجگاہ
بنادیاگیا ہے۔ کس طرح عدم تشدد کے پیروکار گاندھی کے ملک کو تشدد کی راہ پر ڈال
دیا گیا ہے۔ کس طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے مدعی ملک او رحکمرانوں کی
شہ پر مذہبی اقلیتوں کے جمہوری حقوق کو پامال کر رہے ہیں، اور پولیس وانتظامیہ کا
رول خاموش تماشائی جیسا رہ گیا ہے۔بلکہ خاموش تماشائی بھی حق کا ساتھ بھلے ہی نہ
دے لیکن غیر جانبداررہتاہے لیکن ہماری پولیس اور انتظامیہ تو فرقہ پرستوں کی پشت
پناہی کرتی اور ان کے سامنے خود سپردگی کرتی نظر آتی ہے۔ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے
کہ اس ملک کی صدیوں پرانی آپسی اتحاد اور رواداری کی روایت کو انتہائی بے دردی سے
صرف چند برسوں میں پامال کردیا گیا۔
معاملہ گذشتہ اتوار کے
روز طاہر پور کے ایک گرجا گر گھر میں شرپسندوں کے ذریعہ کئے گئے حملے اور وہاں دعا
میں شامل عیسائیوں کو زد وکوب کرنے، ان کے ساتھ مار پیٹ کرنے، مقدس انجیل کو نقصان
پہچانے اور دعا یعنی عبادت سے روکنے سے متعلق ہے۔ واقعہ اس طرح بیان کیا جاتاہے کہ
اتوار کی صبح جب کچھ عیسائی گرجا گھر میں دعایا عبادت کررہے تھے تو اچانک کچھ
شرپسنداسپیکر لیے ہوئے عمارت میں داخل ہوئے۔ یہ لوگ ’جے شری رام‘ اور ’ہندو راشٹر
بنائیں گے‘ جیسے نعرے لگارہے تھے۔ ایک چشم دید گواہ کا بیان ’دی وائر‘ نے نقل کیا
ہے۔ شیوم نام کے ایک عیسائی شخص نے بتایا کہ شرپسندوں نے دعا میں شامل لوگوں کو یہ
کہہ کر روکنے کی کوشش کی کہ یہ ’ملک اب سیکولر نہیں رہا‘ یہاں اب قانون بدل گیا
ہے۔ موقع پر موجود افراد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ شرپسندوں کے پاس تلواریں اور
لاٹھیاں تھیں، اور ان لوگوں نے بائبل کی بھی بے حرمتی کی۔ شیوم نامی شخص نے دعویٰ
کیا کہ شرپسندوں کی لاٹھیوں سے کئی افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان زخمیوں میں شیوم کی
بہن سمیت کئی خواتین بھی شامل ہیں۔ کچھ خواتین نے بتایا کہ انہیں بجرنگ دل والوں
نے پیٹا اور ان کے کپڑے پھاڑنے کی کوشش کی گئی۔ بائبل کو نقصان پہنچانے کے علاوہ
ان لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی تصویر والے ایک شیشے کے فریم کوبھی نقصان پہنچایا۔
دوسری طرف آر ایس ایس کے ایک رکن انمول کابیان بھی دی وائر نے نقل کیا ہے۔ یہ شخص
متعلقہ تھانے کے باہر ان عیسائیوں کے خلاف نعرے بازی کررہا تھا کہ جو واقعہ کی
رپورٹ لکھوانے تھانے پہنچے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ لوگ ایک ہندو اکثریت والے
علاقے میں دعا کیوں کررہے تھے؟ ہمارا تیوہاررکشا بندھن کچھ دن میں آنے والا ہے اور
ہم تبدیلی مذہب کے لیے کی جانے والی دعا اپنے علاقے میں نہیں ہونے دیں گے۔ مذکورہ
سنگھ ورکر کی دلیل کو اگر تسلیم کرلیا جائے تو پھرسوال یہ ہے کہ اگر ہندو علاقے
میں کسی عیسائی گروپ کے ذریعہ عبادت غلط ہے تو اسی اصول کو اس وقت کیوں بالائے طاق
رکھ دیا جاتا ہے کہ جب مسلم اکثریتی علاقوں سے جبراباً یاترائیں گزاری جاتی ہیں۔
بہر حال یہ تو جملہ معترضہ تھا لیکن یہ بہر حال سچ ہے کہ بھگوا عناصر ایک منصوبے
کے تحت گذشتہ چند برسوں سے مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنارہے ہیں ان کی عبادت گاہوں
پرحملے کررہے ہیں اور حکمراں ایسے تمام واقعات پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے ایسے
عناصر کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ یہ تمام حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک خاص
منصوبے کے تحت غنڈہ عناصر اور زعفرانی دہشت گردوں کو بے لگام کیا جارہا ہے۔ یہ
منصوبہ کیاہے اسے بتانے کی ضرورت نہیں۔چرچ پرحملہ کرنے والوں نے جس طرح ملک کے
ہندو راشٹر ہونے کا دعویٰ کیا اسے اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ دوسری اہم بات
یہ کہ اسی منصوبے کو ذہن میں رکھتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ میں موجود کچھ ہندو
تووادی عناصر زعفرانی تنظیموں کے خلاف کارروائی سے گریز کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ
عدلیہ کا ایک حصہ بھی اس سازش کا شکار نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس
گوگوئی کا اپنے عہدے سے سبکدوش کے بعد بی جے پی میں شمولیت اختیا ر کرنا آخر کیا
ثابت کرتاہے؟
بہر حال پولیس اور
انتظامیہ کے اسی رویے کا نتیجہ ہے کہ جب مذکورہ معاملے کے متاثرین عیسائی افراد
متعلقہ تھانے جی ٹی بی نگر انکلیو میں رپورٹ لکھانے پہنچے تو وہاں بھی انہیں بجرنگ
دل، وی ایچ پی اور آر ایس ایس کے کارکنوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے
نتیجے میں تادم تحریر عیسائی کمیونٹی شرپسندو ں کے خلاف رپورٹ درج کرانے میں
کامیاب نہیں ہوسکی۔ کسی ہندو عبادت گاہ کے معاملے میں ایسی ہی حرکت کسی مذہبی
اقلیت کی طرف سے کی جاتی تو کیا پولیس اور انتظامیہ یہی عمل اختیار کرتی؟ ظاہر ہے
ایسا نہیں ہے، اور اس کا سبب حکمرانوں کا ایسے معاملوں میں متعصبانہ رویہ ہے۔
عیسائی کمیونٹی کے تعلق
سے زعفرانی طاقتوں کا یہ رویہ نیا نہیں ہے۔ اس کا آغاز مرکز میں مودی حکومت آنے کے
بعد ہی ہوگیا تھا۔ ’یونائینڈکرشچن فورم‘ کے ذریعہ شائع ایک رپورٹ اس کی تصدیق کرتی
ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2014 یعنی جس سال مرکز میں مودی سرکار آئی چرچوں پر
147 حملے کیے گئے، اور یہ تعداد تقریباً ہر سال بڑھتی گئی۔گذشتہ برس ہی عیسائیوں
کے خلاف 599 حملے ہوئے جب کہ رواں سال کے ابتدائی 199 دنوں میں عیسائیوں پر حملے
کے 400 معاملے درج ہوئے ہیں۔ اس بات کو چھوڑ بھی دیں کہ بہت سے معاملے درج نہیں ہو
پاتے اس کے باوجود صرف 199 دنوں میں عیسائیوں پر 400 حملے ہونا آخر کیا ثابت
کرتاہے؟ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ موجودہ حکومت میں فرقہ پرست عناصر کو بے
لگام کردیا گیا ہے۔ شاید یہ گجرات ماڈل کو قومی سطح پر روبہ عمل لانے کی سوچی
سمجھی حکمت عملی کا ہی نتیجہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں اور ان
کی عبادت گاہوں پرکیے گئے حملوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ راقم کے سامنے اس سے
متعلق اعداد وشمار نہیں ہیں، لیکن حال ہی میں ہریانہ میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد کی
ہی اگر بات کریں تو جمعیۃ علماء کے وفد نے ریاست کی ایسی 13 مساجد کی نشاندہی کی
ہے کہ جنہیں فسادیوں نے جلایا۔ ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی تو درکنار اقلیتی
فرقے کو ہی فسادی ٹھہرا کر ان کے کئی سو گھروں پربلڈوزر چلادیے گئے۔ مودی سرکار
آنے کے بعد سے ملک بھر میں تسلسل کے ساتھ ہجومی تشدد کے جو واقعات ہورہے ہیں وہ
بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ مساجد پر روز نئے دعوے کرکے ان پر
قبضے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ متھرا کی عیداگاہ اور وارانسی کی گیان واپی مسجد
کے معاملے میں انتظامیہ ہی نہیں بلکہ عدالتوں کا رخ بھی سامنے ہے۔ عبادت گاہوں سے
متعلق قانون موجود ہونے کے باوجود مساجد پرتنازعہ پیدا کرنے والوں کے معاملے پر
نچلی عدالتوں سے لیکر سپریم کورٹ تک مسلمانوں کوکوئی راحت نہیں ملی ہے۔ یہ صورتحال
عیسائیوں او رمسلمانوں کی عبادت گاہوں کے تعلق سے حکومت،پولیس، انتظامیہ اورکہیں
کہیں عدلیہ کے افسوسناک رویے کا بھی ثبوت ہے۔بات صرف یہیں نہیں ختم ہوتی بلکہ ملک
کی بیشتر سیکولر ہونے کی مدعی پارٹیاں بھی ایسے معاملوں میں چشم پوشی کی پالیسی
پرہی عمل پیرا نظر آتی ہیں۔شاید اس لیے کہ فرقہ پرستوں نے حالات کو اس نہج پر
پہنچا دیا ہے کہ جہاں سیکولرزم کے مبینہ علمبردار وں کو بھی ایسے معاملوں میں لب
کشائی کرنے میں اپنے ووٹ بینک کے کھسکنے کا خطرہ نظر آتا ہے،اورسیکولر پارٹیوں کا
یہ رویہ جمہوریت کو کمزور کرنے و فرقہ پرست عناصر کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے
مترادف ہے۔ اسی کانتیجہ ہے کہ مذہبی اقلیتوں پر تشدد کرنے او ر ان کی عبادت گاہو
کو نشانہ بنانے کے واقعات میں کمی تو درکنار بلکہ اضافہ ہی ہورہا ہے۔
25 اگست،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism