سمت پال، نیو ایج اسلام
19 مئی 2022
مذہب صرف انسانی وقار کی
توہین نہیں ہے، بلکہ یہ انسانی ذہن کا ایک فسانہ ہے اور خدا بنی نوع انسان کے لیے
سب سے زیادہ مہلک ہے۔
اہم نکات:
1. اسلام میں ملحد ہونا
جرم کے مرتکب ہونے کے مترادف ہے
2. روایتی اسلام، اور خاص
طور پر سنی اسلام، تصوف اور صوفیاء کے خلاف کیوں ہیں؟
3. بیشتر صوفیاء قرآن و
حدیث کی راسخ العقیدہ تشریحات پر یقین نہیں رکھتے
-----
اس کا تعلق جناب غلام غوث
صدیقی کے ویسے ایک 'اچھے' مضمون سے ہے جس کا عنوان، "کیا ایک مشہور مسلم
سائنسدان محمد ابن زکریا رازی ملحد تھے؟" سے ہے۔ دیندار قلم کار اور اسلام کے
ایک سمجھدار معذرت خواہ نے یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ہے کہ محمد بن زکریا
الرازی ایک مومن تھے نہ کہ ملحد جیسا کہ انہیں مانا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے، قلم کار
جناب صدیقی کے احترام میں، میں یہ مان لیتا ہوں کہ رازی ایک مومن تھے۔ لیکن کیا وہ
ایک انتہائی شکی یا لا ادریہ انسان نہیں تھے جنہوں نے صحیح معنوں میں اجتہاد
(تحقیق یا آزاد استدلال) کی روح کو برقرار رکھا؟ تمام مسلمانوں کو معروف مسلم مفکر
عبدالرحمن بدوی کی کتاب "From the History of
Atheism in Islam"
ضرور پڑھنی چاہیے۔ پہلی بار عربی زبان میں شائع ہونے والی یہ کتاب 1993 میں دوبارہ
شائع ہوئی تھی۔ اس میں قرون وسطیٰ کے اسلامی فلسفی اور سائنس دانوں کی خدمات اور
بعض بنیادی اسلامی معتقدات پر سوال اٹھاتے اور بسااوقات تردید کرتے ہوئے ان کے
استدلال، فکر کی آزادی اور انسانی اقدار کو برقرار رکھنے کے طریقوں پر بحث کی گئی
ہے۔
یہ کتاب بیشتر مسلمانوں کے
لیے گستاخانہ ہے اور اس کی دوسری اشاعت میں اکثر حصہ محذوف ہے۔ امیرہ نوائرہ نے دی
گارڈین، لندن میں ایک طویل مضمون میں لکھا، "When
Islamic Atheism Thrived" - لہٰذا، یہ بہت سے لوگوں کے لیے حیرانی کا باعث ہو سکتا ہے
کہ اسلام میں قرون وسطیٰ سے ہی اختلاف رائے اور آزادانہ فکر کی ایک طویل اور متحرک
فکری روایت رہی ہے۔ قرون وسطیٰ کے ابتدائی دور کے اسلامی مفکرین نے ایسے خیالات کا
اظہار کیا اور ایسے بحث و مباحثے میں مشغول رہے جو جدید اسلامی علماء کے رویوں اور
نظریات کے مقابلے میں کافی روشن خیال نظر آئیں گے۔'
اسلام میں ملحد ہونا جرم
کے مرتکب ہونے کے مترادف ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ روایتی اسلام، خاص طور پر
سنی اسلام، تصوف اور صوفیاء کے خلاف کیوں ہیں؟ اس کی وجہ صوفیاء کی اللہ کی غیر
روایتی انداز میں اطاعت ہے۔ بیشتر صوفیاء قرآن و حدیث کے راسخ العقیدہ تشریحات پر
یقین نہیں رکھتے تھے اور حکیم سنائی نے آگے بڑھ کر یہاں تک کہا کہ 'فرشتوں نے میرے
لیے نماز پڑھی جس میں نماز تہجد بھی شامل ہے۔ اس کے باوجود، اس کا سر قلم نہیں کیا
گیا یا شاید وہ تختہ دار کو دھوکہ دینے میں کامیاب رہا! لیکن، جدید اسلامی علماء
کبھی بھی سنائی کے جہالت بھرے الحاد پر بحث نہیں کرتے اور اکثر لوگ اسے بدعتی کہتے
ہیں (ملاحظہ ہو، The Man of Light in Iranian Sufism از ہنری کوربن،
1971)۔ یہ ایک انتہائی محفوظ راز ہے۔
یہاں میں بلا تاخیر یہ عرض
کرنا چاہتا ہوں کہ سنائی نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک ایمان مکمل طور پر کھو چکا
تھا۔ چند سال پہلے، میں نے دی ٹائمز آف انڈیا کے لیے اپنے ایک مضمون لکھا تھا جس
میں میں نے واضح طور پر کہا تھا کہ فرید الدین عطار، جو کہ رومی کے مرشد ہیں،
انہوں نے اللہ، قرآن اور اسلام کا انکار کیا تھا اور نہ ہی انہیں دفن کیا گیا اور
نہ ہی جلایا گیا۔ ان کا ماننا تھا کہ خدا کسی ایک الگ ہستی کا نام نہیں بلکہ دراصل
انسان کی خودی کا ہی نام خدا ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ تعصب کے اس ہنگامہ
خیز دور میں ایک مسلمان کی طرف سے ایسا بیان آیا ہوگا تو کیا ہوا ہوگا؟ اگلے ہی
لمحے اس کا سر قلم کر دیا گیا ہو گا۔
طالبان نے سرکاری طور پر
یہ اعلان کیا ہے کہ صوفی مسلمان نہیں ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ افغانستان صوفیوں کا
مرکز رہا ہے، عظیم رومی اس فہرست میں سب سے اول ہیں۔ وہ افغانستان کے مشرقی فارس
بلخ میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے انہیں رومی بلخی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ دو
عظیم ترین صوفیاء کا تعلق افغانستان سے تھا: حکیم سنائی (غزنی) اور حکیم جامی (ہرات)۔
ان کے بے باک روحانی دعوں کے باوجود، اسلام نے ان عظیم لوگوں کو روحانی ملحد کے
طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اکثر انہیں صریحاً منکر ذات یا مرتد (ملحد اور
مرتد) کہنے سے گریز کیا۔
قدامت پرستوں کا مسئلہ یہ
ہے کہ وہ ناحق یہ گمان رکھتے ہیں کہ صرف ہم ہی سچے مسلمان ہیں، جنہیں اللہ نے
منتخب کرکے بھیجا ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی شخص، بعد کے مرحلے میں اس کا انکار کرنا
اسلام کے تقدس کی پامالی تصور کرتا ہے۔ یہ پورے اسلام کے لیے روحانی طور پر
شرمندگی کا باعث ہو گی۔ لہٰذا، اسلام ان لوگوں کے لیے ملحد کا لفظ استعمال کرنے سے
گریز کرتا ہے جو اس کے اصولوں پر سوال اٹھاتے ہیں اور چھوڑ دیتے ہیں۔ ویسے
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ان کا اللہ منفرد اور مخصوص ہے۔ اس لیے اسے گاڈ یا بھگوان
کے برابر نہیں کیا جا سکتا۔
اگرچہ اسلام کی تاریخ میں
لاتعداد خاموش اختلاف رائے دکھنے والے موجود ہیں، لیکن بہت کم لوگوں ایسے ہیں
جنہوں نے کھل کر اسلام سے اپنی بیزاری کا اعلان کیا ہے۔ فارسی صوفی منصور الحلاج،
جنہیں 26 مارچ 922 عیسوی کو انا الحق (جو
کہ اپنشد کے پیغام اہم برہماسمی کا براہ راست ترجمہ ہے، یعنی میں حق ہوں) کہنے کے
جرم تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا، (بدقسمتی سے یہ ان کی تاریخ پیدائش ہے) مسلم
علماء سختی سے انکار کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ منصور نے اسلام چھوڑ دیا تھا
اور مشرقی یا ویدانتک اصولوں (یعنی ہندو مت) کو قبول کر لیا تھا۔ چنانچہ ان کے جسم
سے پوری بے رحمی کے ساتھ کھال اتار لیا گیا تھا۔
مجھے یاد ہے، میں نے دہلی
میں ایک سیمینار میں شرکت کی تھی جس میں ایک مسلم مقرر منصور کو شاید کفارہ کے طور
پر ایک عظیم ترین مسلمان بتانے کی کوشش کر رہے تھے۔ افسوس کہ انہوں نے اسلام چھوڑ
دیا، اور اگر وہ کچھ اور عمر پاتے تو مشرقی شعور کو بھی ترک کر دہتے کیونکہ منصور
جیسے ترقی یافتہ انسان کو کسی خدا، روحانیت اور مذہبی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں
تھی۔ وہ خود ہی گاڈ یا اللہ تھے۔ اورنگ زیب نے اپنے بھائی دارا شکوہ کو اس لیے
پھانسی دی کہ اس نے کاشی کے ایک برہمن پجاری کے ہاتھوں ہندو مذہب اختیار کر لیا
تھا۔
لہذا، ایک مسلمان کے لیے
ملحد ہونا ہمیشہ پر خطر ہوتا ہے۔ لیکن اور اگر وہ محمد بن زکریا الرازی کی طرح
عظیم کارناموں کا حامل کوئی شخص ہو تو جناب غلام غوث صدیقی جیسے معذرت خواہ انہیں
کٹر مومن ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے!
آخر میں، میں بس یہ عرض
کرنا چاہتا ہوں کہ، علم طبیعیات میں پاکستان کے نوبل انعام یافتہ، ڈاکٹر عبدالسلام
ایک غیر مومن تھے جنہوں نے اپنا احمدیہ مسلم کا ٹیگ صرف یہ ثابت کرنے کے لیے
برقرار رکھا کہ مجھے احمدیہ ہونے پر فخر ہے، وہ سنیوں اور سلفیوں کی آنکھوں کا
کانٹا ہیں۔ انہوں نے 1979 میں فزکس کا نوبل انعام، شیلڈن گلاسو اور اسٹیون وینبرگ
کے ساتھ الیکٹرویک یونیفیکیشن تھیوری میں مل کر اپنے نام کیا تھا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ
پروفیسر سلام نے انگلینڈ میں اپنی نجی لیبارٹری کی دیوار کو اپنے ایک مشہور ملحد
ساتھی اور نوبل انعام یافتہ اسٹیون وینبرگ کے اس مشہور اقتباس سے مزین کیا ہوا
تھا: "مذہب کے ساتھ یا اس کے بغیر، اچھے لوگ اچھا سلوک کر سکتے ہیں اور برے
لوگ، برائی کر سکتے ہیں؛ لیکن اچھے لوگوں کو برائی کرنے کے لیے مذہب کی ضرورت پڑتی
ہے۔ مذہب انسانی وقار کی توہین ہے۔ "اس کے بارے میں دورائے نہیں ہو سکتی کہ
مذہب صرف انسانی وقار کی توہین ہی نہیں، بلکہ یہ انسانی ذہن کا فسانہ ہے اور خدا
بنی نوع انسان کے لیے سب سے زیادہ خطر ناک ہے۔
---
English Article: Why Islam Has An Atavistic Aversion To Atheism And
Agnosticism?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism