حکومتی پینل نے آسامی
بولنے والے مسلمانوں کی مردم شماری اور ان کے لیے شناختی کارڈ جاری کیے جانے کی
تجویز پیش کی ہے
اہم نکات:
1. آسام میں بنگالی
بولنے والے مسلمانوں کو بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین وطن سمجھا جاتا ہے
2. آسامی بولنے والے
مسلمانوں کی آبادی 40 لاکھ ہے
3. بنگالی بولنے والے
مسلمانوں کی آبادی 90 لاکھ ہے
4. بنگالی بولنے والے
مسلمان ایک غالب اکثریت میں ہیں
5. حکومت آسامی بولنے
والے مسلمانوں کے لیے ترقیاتی پروگرام متعارف کروانا چاہتی ہے
-----
نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
29 اپریل 2022
آسام حکومت کی طرف سے
گزشتہ سال مقامی مسلمانوں (آسامی بولنے والے مسلمانوں) کی ترقی کے راستے تلاش کرنے
کے لیے بنائے گئے 8 پینل میں سے ایک نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے جس میں اس نے
متعدد سفارشات پیش کی ہیں۔ اپنی سفارشات میں انہوں نے کہا ہے کہ حکومت کو اس بات
کی وضاحت کرنی چاہیے کہ مقامی آسامی مسلمان کون ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومت
مقامی مسلمانوں کی مردم شماری کرائے اور جو مقامی مسلمان قرار پائیں ان کے لیے ایک
شناختی کارڈ جاری کیا جائے۔ اس نے یہ بھی سفارش کی کہ انہیں اسمبلی یا پارلیمنٹ
میں زیادہ سیاسی نمائندگی دی جائے۔ اس پر حکومت نے اسمبلی میں ایک قانون ساز کونسل
بنانے کا منصوبہ بنایا ہے جس میں کچھ سیٹیں مقامی مسلمانوں کے لیے مختص کی جائیں
گی۔
گزشتہ سال جولائی میں
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے آسامی بولنے والے مسلمانوں کے 150 دانشوروں
اور معزز شخصیات سے ملاقات کی تھی۔
لیکن حکومت کے اس اقدام
کو اے آئی یو ڈی ایف نے آسام کے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ آسام
میں مسلم کمیونٹی دو لسانی برادریوں میں بٹی ہوئی ہے۔ آسامی بولنے والے مسلمان
یہاں کے پرانے باشندے ہیں اور بنگالی بولنے والے مسلمان تقسیم سے پہلے اور بعد کے
مختلف ادوار میں ان علاقوں سے ہجرت کر کے آئے ہیں جو آج بنگلہ دیش میں واقع ہیں۔
آسامی بولنے والے مسلمانوں کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے - گوریا، موریہ،
دیسی۔ جولا بھی مسلمانوں کی ایک مقامی کمیونٹی مانی جاتی ہے جو آزادی سے قبل ریلوے
کے توسیعی پروگرام کے دوران بہار اور یوپی سے آسام ہجرت کر گئے تھے۔
مقامی مسلمانوں کی شناخت
کا عمل باضابطہ طور پر اپریل 2021 میں شروع ہوا تھا۔
آسام کے مسلمانوں نے
ریاست کے مقامی مسلمانوں کی شناخت کے لیے 15 اپریل 2021 سے مسلم این آر سی میں حصہ
لیا تھا۔ آسام جناگوتھی سمانے پریشد (جے ایس پی اے) نے اس کی پہل کی تھی۔ اس سروے
کا مقصد آسام کی مقامی مسلم برادریوں کی نشاندہی کرنا اور انہیں بنگالی بولنے والے
مسلمانوں سے ممتاز کرنا تھا جو آسام کے مسلمانوں کی اکثریت ہیں، لیکن انہیں بنگلہ
دیش سے آنے والے تارکین وطن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جے ایس پی اے نے آسام کے
مقامی مسلمانوں کے طور پر صرف تین برادریوں – گوریا، موریا اور دیسی – کی شناخت کی
ہے اور انہیں تسلیم کیا ہے۔ باقی مسلم آبادی بنگلہ دیشی مہاجرین کہلاتی ہے لہٰذا
وہ ان کی نظر میں بنگلہ دیشی ہیں۔ آسام کے بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو میا کہا
جاتا ہے۔
جے ایس پی اے کے چیئرمین
سید مومن العول اس سروے کے سر پر تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سروے اس لیے ضروری تھا
کہ مہاجر مسلمان اسلام کے نام پر گوریا، موریا اور دیسی مسلمانوں کو میاوں کے ساتھ
ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مقامی مسلم کمیونٹی میں شناخت کا بحران ہے۔ مومن الاول
کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگالی مسلمانوں کے تسلط کی وجہ سے مقامی مسلمانوں کو معاشی
اور سیاسی طور پر نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
آسام میں بی جے پی حکومت
میں اقلیتی بہبود کے وزیر رنجیت دتہ نے 2019 میں اس کی تجویز پیش کی تھی۔ 2019 میں
آسام کے بجٹ اجلاس میں مقامی آسامی مسلمانوں کے لیے ایک ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا بھی
منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔ بجٹ میں مقامی آسامی مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی سروے کا
بھی منصوبہ تھا۔
10 فروری 2020 کو وزیر برائے اقلیتی بہبود نے مقامی مسلمانوں کے
سماجی و اقتصادی سروے کو حتمی شکل دینے کے لیے مقامی آسامی مسلم گروپوں اور
برادریوں کی ایک میٹنگ بلائی تھی لیکن اتفاق رائے سے لفظ مقامی(خلونجیہ) کو چار
کمیونٹی کے مخصوص ناموں سے تبدیل کر دیا گیا تھا-- گوریا، موریا، دیسی اور جولا۔
وزیر برائے اقلیتی بہبود نے کہا تھا کہ گوریا، موریا، دیش جولا ڈیولپمنٹ کارپوریشن
قائم کیا جائے گا۔
ایک طویل عرصے سے مقامی
یا آسامی بولنے والے مسلمانوں کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ بنگالی بولنے والے
مسلمانوں سے پیچھے رہ گئے ہیں اور وہ مقامی مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کے لیے
کانگریس اور بدرالدین اجمل کی اے آئی یو ڈی ایف کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ اس لیے
مقامی مسلمان کانگریس اور اے آئی یو ڈی ایف کو اپنا دشمن اور بی جے پی حکومت کو
اپنا دوست اور خیر خواہ سمجھتے ہیں۔ لیکن اے آئی یو ڈی ایف کا کہنا ہے کہ یہ اقدام
ریاست کے مسلمانوں کو مزید کمزور کرے گا اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا
کر دے گا۔
مقامی مسلمانوں کا کہنا
ہے کہ آسام کے 13 اضلاع میں بنگلہ دیشی مسلمانوں کا غلبہ ہے اور کانگریس کے 13
مسلم ایم ایل اے بنگلہ دیشی مسلمان ہیں۔
اس اقدام کے سربراہ اور
جے ایس پی اے کے سربراہ معین العول کا کہنا ہے کہ آسام کے تمام بنگالی بولنے والے
مسلمان غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن ہیں۔ وہ کانگریس کو بنگلہ دیشی مسلم
پارٹی کہتے ہیں۔
جے ایس پی اے کے فراہم
کردہ اعدادوشمار کے مطابق آسام کے مقامی مسلمانوں کی آبادی 40 لاکھ ہے۔ باقی 90
لاکھ لوگ بنگلہ دیشی تارکین وطن (بنگالی بولنے والے آسامی مسلمان) ہیں۔ ریاست میں
مسلمانوں کی کل آبادی 3.5 کروڑ کی کل آبادی کا 1.3 کروڑ ہے۔ آسام میں مسلمانوں کی
کل آبادی 33.4 فیصد ہے۔
مقامی آسامی کی تنگ نظر
تعریف نے ان تمام بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو جو آسام میں 19ویں صدی نصف اخیر
سے رہ ہرے ہیں انہیں غیر قانونی بنگلہ دیشی کا نام دیا ہے جو کہ وہ نہیں ہیں
کیونکہ بنگلہ دیش 1971 میں وجود میں آیا تھا اور جو آج بنگلہ دیشی کہلاتے ہیں وہ
صرف روزی روٹی کی تلاش میں ہندوستان کے ایک حصے سے ہجرت کر دوسرے حصے میں آباد
ہوئے تھے۔
سروے یا مسلم این آر سی
تین ماہ میں کرایا جانا تھا۔ لوگوں کو سرکاری تنظیم اور محکموں کے جاری کردہ
دستاویزات کے ساتھ اس کے پورٹل پر آن لائن درخواست دینا تھی۔ اس کے بعد تصدیق کی
جاتی اور حتمی فہرست جاری کی جاتی۔
آسام حکومت کے اس اقدام
کی ریاست کے سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشوروں نے تنقید کی ہے۔ ان کا ماننا ہے
کہ یہ مسلم کمیونٹی میں تفرقہ پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔
اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو
جاتا ہے تو مسلمانوں کی دو لسانی برادریوں کے درمیان واضح تقسیم ہو جائے گی۔ آسامی
بولنے والے مسلمان بی جے پی کے حامی بن جائیں گے اور بنگالی بولنے والے مسلمانوں
کو یہ احساس دلایا جائے گا کہ وہ باہر کے ہیں۔ یہ ان کے لیے ہراسانی اور سماجی
علیحدگی کا سبب بنے گا۔
English
Article: Assamese Muslims Divided As Indigenous Muslims And
Immigrant Muslims
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism