ڈاکٹر زیب النساء سعید
11 دسمبر،2022
اسرارالحق مجاز
-------
زندگی، صحت اور مستقبل سے
بے نیاز رہنے والا خاموش اور افسردہ اپنے آخری دنوں میں دن رات نشے میں مست السٹ ،
مجنونانہ اداؤں سے مشاعروں کو لوٹنے والا ،اپنی حقیقی زندگی میں جینے والا شاعر
اسرارالحق مجاز( 19 اکتوبر، 1911 ۔06 دسمبر، 1955) اپنی زندگی کے صرف 44 برس ہی جی
سکا۔ مجاز اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی (1930 کے آس پاس) پختہ شاعری کرنے لگے
تھے۔ دنیا کے تصورات سے خود کو ہم آہنگ نہ پاکر کبھی انہوں نے خود کشی کی ٹھانی تو
کبھی دیوانے ہوجاتے۔ میراتوخیال ہے کہ مجاز نے اردو شاعری کو اتناکچھ دیا ہے جو ان
کے ہمہ عصروں کے زندگی بھر کے اثاثے سے زیادہ ہے۔ مجاز ایسے پہلے جوان شاعر تھے
جنہوں نے اپنے فن کا رشتہ شعور ی طور پر عوامی قوتوں سے جوڑا اور سرمایہ نظام کے
تضاد اور تاریخی محرکات کے بہاؤکو سمجھ کر انسانیت کو آزادی کی سرخ صبح کا مژدہ
دیا۔ وہ کہتے ہیں۔
بہ ایں رندی مجاز اک شاعر
مزدور ودہقاں ہے
اگر شہر وں میں وہ بدنام
ہے بدنام رہنے دو
مجاز نے 1936 کے آتے آتے
اپنی شاعری کی بلند آواز ، اپنے بے باک تیور اوراپنے نئے طرز احساس کی بدولت وہ
اہم شاعرانہ مقام بنالیا تھا جو اس وقت ان کے معاصرین کے حصے میں نہ آسکا تھا۔ یہ
وہ زمانہ تھا جو سیاسی، سماجی ، معاشرتی ، عمرانی اور ادبی طور پر ایک بحرانی
کیفیت کاشکار تھا۔اس پر آشوب زمانے میں اپنی آوازوں کو ایک نئی لے کے ساتھ
اٹھانابڑی ہمت کاکام تھا۔ شروع میں ان کی شاعری میں روحانی داخلیت اور انفرادیت
تھی اور سماجی شعور خال خال نظر آتا تھا لیکن پھر انہوں نے اپنا راستہ بدلا اور
انفرادیت اور اجتماعیت کاایساملا جلا رنگ پیش کیا کہ اس کا داخلی وحدت اجتماعی
شعور کا مکمل حصہ بن گیا۔ یہی سبب ہے کہ اپنی راہ کی تبدیلی پر وہ خود نوحہ کناں
ہے۔
کیا تجھ کو خبر ہے ہم کیا
کیا اے شورش دوراں بھول گئے
وہ زلف پریشاں بھول گئے
وہ دیدہ، گریاں بھول گئے
کسی نے یہ بات سچ کہی ہے
کہ مجاز کی شاعری میں روایات قدیم کا بہترین ترکہ موجود ہے اور اسی کے ساتھ نئی
زندگی کی نبض کے ساتھ دھڑکنیں بھی واضح طور پر محسوس ہوتی ہیں۔میں نے پورے طور پر
محسوس کرتی ہوں کہ وہ قدیم وجدید کا ایک ایسا سنگم تھے جہاں سمندر کی زیریں لہریں
ابھر ابھر کر اوپر کو نظر آرہی ہوں اور وہ ایک نئی معنویت او رنئے احتجاجی اور
اجتہادی لہجے میں ایک ایسی فضا قائم کرتے ہیں جہاں شاعری اور شخصیت اپنے اعتبارات
کا بھرم رکھتے ہیں۔ یہاں ان کی غزل کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں۔
سب کا تو مداوا کر ڈالا
اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں سی ڈالے
اپنا ہی گریباں بھول گئے
اے شوق نظارہ کیا کہئے
نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
اے ذوق تصور کیا کہئے ہم
صورت جاناں بھول گئے
مجاز کی شاعری کاخمیر جن
تین عناصرف سے اٹھا ہے ان میں رومان، شباب او رانقلاب کو اہمیت حاصل ہے۔ فیض نے ان
کی شاعری کے اجزاء کو ‘‘دیکھ شمشیر ہیساز ہے یہ، جام ہے یہ ’’ سے دریافت کیا او
رکہا کہ ‘‘ کامیاب شعر کے لئے آج کل کے زمانے میں شمشیر کی صلاحیت اور ساز و جام کو
گذاز دونوں ضروری ہے۔ ’’ حقیقت یہ ہے کہ مجاز نے غفوان شباب میں آوارگان عشق
کافریضہ انجام دیا اورزندگی میں اس بت کا ادا کی پوجا کی جس کے بارے میں انہوں نے
کہا تھا۔
ان انکھڑیوں کاعالم نہ
پوچھو
صہبا ہی صہبا مستی ہی
مستی
ان کی نظموں میں شرار ے ،
اعتراف ، خانہ بدوش، گریز ، اندھیری رات کامسافر، رات اورریل، ننھی پجارن، خواب
سحر، مہمان، بول اودھرتی بول میں لہجے کی جو تنگ مزاجی ہے وہ ان کے بے باک فکری
شاعر ہونے کی دلالت کرتی ہے۔ اس طرح ان کی نظمو ں میں آوارہ ، آج کی رات، بربط
شکستہ ، بتان حرم،اور شمع رہگزر ایسی نظمو ں میں جن کا لب و لہجہ صرف منفرد ہی
نہیں بلکہ نظمیہ شاعری کاسنگ میل ہیں۔
مجاز نے اپنی مختصر عمر
میں جمالیاتی ، رومانی، سماجی، تاریخی، نفسیاتی، طبقاتی اور وجودی حوالوں سے اس
دنیا کو دیکھا، سمجھا اور پرکھا۔ ان کی ذہنی نشوونما میں عمرانی اور ثقافتی تقاضوں
کے رنگا رنگ وقوعات کار فرما رہے۔ ان کافکری رویہ اور دوسرے شاعری اور جذباتی
تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ انسان کواس کی ثقافتی ،طبقاتی اور عمرانی
سیاق و سباق میں صالح قدروں کے امین بنانے کے قائل تھے۔ ان کی انسان دوستی ایسے
معاشرے کی طلبگار تھی جہاں انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ زندہ رہے۔سماج میں پھیلنے
والی بہمانہ حیوانیت کے خلاف وہ برسر پیکار تھے۔ ان کاایقان تھا کہ انسان کے جائز
مطالبات اور حقوق کی پاسداری کی جائے۔وہ انسان کو اس کے داخلی عناصر کے حوالے سے
بھی جاننے اور سمجھنے کے قائل رہے ہیں۔اجتماعیت کے زندہ احساس اور انفرادیت کے
روحانی فیضان کا ہی نتیجہ تھا کہ مجاز نے اپنی شاعری کی ڈگر کو اپنے پیش رووں سے
نہ صرف الگ کر رکھا بلکہ ایک نئے وژن کے ساتھ اس میدان میں قدم جمایا۔ یہی وجہ ہے
کہ فیض نے بالکل صحیح لکھا ہے:
‘‘ مجاز کے شعر میں تھکن نہیں مستی ہے ، اداسی نہیں سرخوشی ہے
،مجاز کی انقلابیت عام انقلابی شاعروں سے مختلف ہے۔ عام انقلابی شاعر انقلاب کے
متعلق گرجتے ہیں ، للکارتے ہیں ،سینہ کو ٹتے ہیں ۔ انقلاب کے متعلق گانہیں سکتے۔
ان کے ذہن میں آمد انقلاب کا تصور طوفان برق ورعد سے مرکب ہے۔ نغمہ ہزار اور
رنگینی بہار سے عبارت نہیں۔’’
یہاں انقلاب سے مراد ذہنی
انقلاب ہے، سماجی او رمعاشرتی انقلاب ہے۔ انسانی تصورات میں تبدیلی کا انقلاب ہے۔
ان کاانقلاب ترقی پسندوں کے نعرہ انقلاب سے بالکل مختلف تھی یہی سبب ہے کہ آل احمد
سرور نے صحیح لکھا ہے کہ انہوں نے نہ کسی بڑی تحریک سے عملی دلچسپی لی۔ ذاتی طور
پر وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے مگر اس قید میں انہوں نے خاصی آزادی روارکھی۔
ان کی نظم ‘‘آوارہ’’(
1937) میں جوحزن وملال اور اداری کی کیفیات ہیں وہ دراصل ایک پوری نسل کی المناکی
کااظہار یہ ہیں۔ رومانیت صرف ایہام ،اشاریت، داخلیت یا آوارہ جذباتیت کا ہی نام
نہیں ہے بلکہ یہ روایت کے ہر اس طلسم کو توڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو دنیا کی لعنت
بن گئی ہے۔ مجاز اسی آرزو مندی کی تڑپ میں مبتلا رہے اور اتنے گھاؤکھائے کہ
انفرادی درد و غم کواجتماعی المناکی عطا کی اور اس کااظہار ایسے طرز ادا سے کیا کہ
ہر شخص کے لئے لمحہ ،فکر یہ بن گیا۔ انہوں نے زندگی کو بے نقاب اور دنیا کو برہنہ
دیکھا۔ مجاز کی نظم نگاری میں جو تین اہم مقام آئے ہیں ان میں اولاد و محبوبہ
دلنواز کے حسن فسوں گر کی توصیف ومدح کرتے ہیں۔ اس مقام پر جذبے کی شدت اور تخیل
کی بلندی نظر آتی ہے۔ ثلعباً حقیقت اپنے نوکیلے کانٹوں سے شاعر کو نہ صرف کچوکے
لگاتی ہے بلکہ محبوبہ اور شاعر کے درمیان ظالم سماج بھی دیوار بن جاتا ہے اور اس
مقام پر شاعر و حشت دل کا شکار ہوکر کائنات سے بغاوت کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں
سے خنجر توڑ دووں
تاج پر اس کے دمکتا ہے جو
پتھر توڑ دووں
بات جب مجاز کی نظم
‘‘آوارہ’’کی ہوگی تو بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مجاز کو اردو شاعری میں زندہ
رکھنے کے لئے یہی ایک نظم بہت ہے۔ نظم کا کلیدی مصرعہ‘‘ اے غم دل کیا کرو ں اے
وحشت دل کیا کروں’’ نہ صرف نارسائی کے جاں گسل احساسات کو نمایاں کرتاہے بلکہ یہ
باور کراتا ہے کہ استحصال معاشرے کے مختلف مظاہرے نے شاعر کو یعنی آج کے عہد کے
انسان کو آتش زیر پا کر دیا ہے نیز آبلدیاتی اس کی جذباتی زندگی کی آخری پناہ کی
صورت میں سامنے آئی ہے ۔ مجاز کی یہ نظم ہمیں مجاز کے انداز فکر او راس کے جہلت کو
روشن کرتی ہے جو ان کی پوری شاعری پر اس طرح چھائی ہوئی ہے۔
مجاز کی شاعری کے رموز و
نکات کی تشکیل میں ان کے رومانی ، نقطہ، نظر اور افتاد طبع کو پورے طور پر دخل ہے۔
ان کا حزایہ لحن نا آسودہ جذبات کے ساتھ قدم قدم پر اپنی شکست و ریخت کا اظہار یہ
بن گیا۔ سبب ہو وہ یہ کہ نظم کے لئے جس جزئیات نگاری اور تسلسل بیان کی ضرورت رہتی
ہے وہ ان کی نظموں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کی نظموں میں تخیل ان تھک اور
مستقبل پرواز کی شکل میں رہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ بغاوت کی آگ میں جھلس رہے
ہوں یا ان کا آتشکدہ بن گیا ہو۔ ان کے اشعار پڑھتے جائیے یہ راز منکشف ہوتا جائے
گا۔
ہم عرض وفا بھی کر نہ
سکے، کچھ کہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی
تھی واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے
دل دھڑک اٹھتا ہے خود
اپنی ہی ہر آہٹ پر
اب قدم منزل جاناں سے بہت
دور نہیں
مجاز کی شاعری گنجینہ
معنی کا طلسم نہیں بلکہ ان کی شاعری جذبہ احساس اور وجدان کی شاعری ہے۔ وہ حسن
کاشیدائی ہے اسی کو وہ اپنی کائنات سمجھتا ہے ۔ مجاز کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ
اپنی نظموں میں تشبیہوں ،استعاروں کو حسن ادا، خوبصورتی او رہنر مندی سے اسلوب
اظہار کا ذریعہ بناتے تھے۔ ان کی بعض نظمیں جدت طرازی ، ندرت بیان اور نئی تشبیہات
و استعارات کی وجہ سے ایک دلفریب رنگ و آہنگ کے ساتھ سامنے آتی ہیں۔ مجاز کے
رومانوی اور انقلابی لہجے کی داد دینے والو ں کی کمی نہیں وہ لوگ ان کے اس لہجے
میں موجود اس فریب رنگ وبو کو سمجھنے سے قاصر رہے جو ان کی شاعری کا طرہ امتیاز
رہا ہے۔ دراصل وہ اپنے عہد کے ایسے نبض شناس تھے جن کا جذبہ عشق جذبہ انقلابی بن
کر سامنے آیا۔ ان کا فریب نظر حقیقت سے آگہی کامظہر بنا ۔ ان کے یہاں اظہار نفس
کاکھلا بیان ہے ۔ انہوں نے اپنے زخم ہائے جگر کو لفظوں کا پیکر عطا کیا ۔ یہی وجہ
ہے کہ ان کا کہنا تھا کہ :
حجاب فتنہ پرور اب اٹھا
لیتی تو اچھا تھا
خود اپنے حسن کو پردہ بنا
لیتی تواچھا تھا
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت
ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم
بنالیتی تو اچھا تھا
مجاز کی شاعری کاہر رنگ
اتنا گہرا ہے کہ اس پر یہ گمان ہوتاہے جیسے انہوں نے اپنے دل کے زخموں کو کرچیوں
کی شکل میں بکھیر دیا ہے اور ہر ذرہ اپنی چمک دوبالا کررہا ہے۔ مجاز کی داخلیت
دراصہ پورے آفاقی ، اثرات لئے ہوئے ہے اور ان کے احساسات جوشعرو ں میں ڈھلے ان کا
بہاؤ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی نوعیت کا ہے۔ انسان کے دکھ درد ، انسان کے کرب و
غم اور اس کی بے چینیوں کااظہار مجاز نے جس لہجے میں کیا ہے، وہ بہت کم شاعروں کے
حصے میں آتاہے۔ یوں ہم مجاز کو ترقی پسند شعرا کی فہرست میں رکھتے ہیں لیکن
حقیقیتاً ان کا لب و لہجہ ان کا طرز بیان او رانکی کسک اور تڑپ ترقی پسند اور جدید
شعراء کے فکری رویوں سے ہم آہنگ تھا۔ اگر خارجی حقائق پر نظر ڈالیں تو وہ ترقی
پسند کہلائیں گے اور اگر داخلی احساسات پر غور کریں تو انہیں جدید کہیں گے۔ اس سے
اندازہ ہوتا ہے کہ مجاز نے کسی بندھے ٹکے اصولوں کے ماتحت شاعری نہیں کی۔ اپنے
جذبات کو من وعن پیش کر دینے کی صلاحیت رکھنے والا یہ شاعر بڑی خوبیوں کا مالک
تھا۔
مجاز کی شاعری میں لفظیات
فکر کا رخ، سماجی ادراک اپنے جدید تیور کے ساتھ نمایاں ہیں۔ تاریخ و تہذیب کابین
قومی شعور رکھنے والے شاعر مجاز اردو کے نئے محاروں میں اپنی بات ادا کرتے ہیں۔
مقام افسوس ہے کہ اردو کے وبیشتر ناقدین نے اردو ایک مقبول شاعر مجاز کی شاعری کی
تعین قدر کے سلسلے میں واضح طور پر تنقید ی سہل نگاری او ر تن آسانی کا ثبوت دیا۔
یہ سچ ہے کہ ان کی شاعری ‘ رومانی انقلابیت’ او رمتوسط طبقے کے نوجوانوں کی معاشی
بدحالی ، بے اطمینانی ، کرب او رشکست خواب کی مظہر ہے لیکن یہ سارے احساسات تو
ہماری قدروں کی دین ہی ہیں او ران سے فرار ممکن نہیں کیونکہ ہم جس معاشرے کی
پروردہ ہیں وہاں ان سچائیوں اور حقائق سے چشم پو شی کیوں کر ممکن ہے۔ مجاز انقلابی
شاعری کے دلدادہ ہونے کے باوجود بنیادی طور پر رومانی شاعر تھے لیکن مجاز کی
رومانیت کے عناصر ترکیبی کیا ہیں؟ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی
تخلیق کار کی ہمہ گیرعوامی مقبولیت اس امر میں مضمر ہے کہ مذکورہ فنکار کی تخلیقات
میں مابہ الامتیاز عناصر بشمول موضوع، ہیبت اسلوب ڈکشن اور فنی طریقہ کار کس طرح
او رکہاں کہاں روشن ہے۔ مجاز کی شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے فن میں
روح عصر جلوہ گر ہے۔
خود کو شاعر بیدار کہنے
والے کی زبان سے سنئے
عشق ہی عشق ہے دنیامیری
فتنہ عقل سے بیزار ہوں
میں
دیر و کعبہ میں ہیں میرے
چرچے
اور رسوا سربازار ہوں میں
ایک نظم کے چند شعر ہی میں
نے لئے ہیں کہ ان میں استعمال کئے گئے لفظوں کے حوالے سے یہ سمجھا جاسکے کہ ان کے
یہاں کلیدی تصورات کیا ہیں ؟ ان کے فکر وفن کا محور کیا ہے؟ مجاز کی نظموں میں آج
کی رات ،انقلاب، تعارف ،نذر علی گڑھ ، سرمایہ داری، عشرت تنہائی ، عیادت ، اعتراف
، آزادی اور فکر کے ساتھ ساتھ آوارہ ، خواب سحر البیان ایسی نظمیں ہیں تومجاز کے
ارتقا، ذہن اورفن کی راہ دمیں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔مجاز نوجواں نسل کی
امنگوں او رخواہشوں ، کامیابیوں او رناکامیوں، ہزیمتوں او رفتح مند یوں کی علامت
بن گئے۔ مجاز عام انسانوں سے کس قدر قریب ہے۔ ان کے یہاں فکر وجود کی ہم گیری اور
شخصیت کے اندر انفرادی اور سماجی کشمکش کی مظہر بن گئی ہے۔ مجاز نے نظموں کے ساتھ
ساتھ غزلیں بھی کہی ہیں ۔ ان کی نظمیں ہوں یا غزلیں ہر جگہ موضوعات کی فراوانی ہے
او رکم وبیش وہی قدروں کی پامالی انسانی درد وغم کا احساس دروں اور زندگی اور سماج
کی نیز نگیاں موضوع گفتگو رہی ہیں۔
یہ رنگ بہار عالم ہے
۔کیوں فکر ہے تجھ کو اے ساقی
محفل توتری سونی نہ ہوئی
۔ کچھ اٹھ بھی گئے کچھ آبھی گئے
مجاز کے بارے میں کہا
جاسکتا ہے کہ ان کے ہاں نہ صرف سماجی تبدیلی کا احساس موجو ہے بلکہ وہ حقیقت میں
مداخلت کے لئے ایک فضا تعمیر کرنے کابھی آرزو مندر ہا ہے ۔ مجاز کی شاعری کا سفر
حقیقی معنی میں داخلیت سے خارجیت کی طرف کا سفر ہے۔ وجود سے آفاق کی جانب ہے او
رلپکتی ہوئی جدباتیت میں زندگی کی امنگیں بھی ہیں او رآرزو ئیں بھی ۔مجاز ہر عہد
میں زندہ رہنے والا ترقی پسند شاعر ہے جو اپنے عصر کی نمائندگی کرتا رہے گا۔ وہ یہ
کہتا ہو ا دنیاسے گیا۔
او ربہت دور آسمانوں سے
موت آواز دے رہی ہے مجھے
11 دسمبر،2022 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism