ارشد عالم ، نیو ایج اسلام
18 اپریل 2018
یہ کہتے ہوئے دلی تکلیف ہوتی ہے کہ ایک آٹھ سالہ بچی کا اغوا کیا جاتا ہے ، بار بار اس کی عصمت دری کی جاتی ہےاور آخر کار اس بے رحمی کے ساتھ اسے قتل کر دیا جاتا ہے ، جس سے ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہئے۔ اس شرمناک حادثے کے تقریبا تین ماہ بعد ایسا لگتا ہے کہ اس ملک کا ضمیر بیدار ہوا ہے۔ اچانک ہم نے آصفہ کے حق میں انصاف کے لئے صدائے احتجاج بلند کرنے لگے ہیں اور اس خوف و دہشت کے خلاف نئی دہلی سے لیکر سرینگر آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یہ ایک جزوی فتح ہے کہ قاتلوں کی حمایت میں نکلنے والی ریلی کا حصہ بننے والے دو وزراء اب استعفی دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اب مجرمین کو کیفر کردار تک پہونچانا باقی رہ گیا ہے۔ اس کے لئے استغاثہ (prosecution) اور ساتھ ہی ساتھ سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں کو صبر اور زبردست جد و جہد کی ضرورت ہے۔
اس پورے واقعے میں دو چیزیں پریشان ہو رہی ہے۔ پہلی بات جو پریشان کن ہے وہ جموں و کشمیر کی حکومت اور سول سوسائٹی کی جانب سے اس کے ردعمل میں غیر معمولی تاخیر ہے کیوں کہ یہ واقعہ تقریبا تین مہینے قبل سامنے آیا تھا۔ اتنے نازک معاملے پر ردعمل میں اس تاخیر کا مطلب سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ یہاں تک کہ جموں میں بی جے پی اس معاملے کو سیاسی رنگ دے چکی تھی لیکن اس وقت تک بھی پی ڈی پی حکومت خاموشی اختیار کئے ہوئے تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ چارج شیٹ داخل کئے جانے کے بعد یہ معاملہ قومی میڈیا میں اچھالا جا چکا تھا۔ چارج شیٹ میں اس حادثے سے متعلق جو دردناک تفصیلات بیان کی گئی ہیں وہ دائیں بازو (right wing) میڈیا کے ایک طبقے سمیت بہت سے لوگوں شرمسار کرنے والی ہیں۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ دایاں بازو (right wing) میڈیا انسانیت کا علم بردار بن گیا اور اس چھوٹی سی بچی کے لئے انصاف کا مطالبہ کرنے لگا جسے انتہائی بےدردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی پی کو قومی رجحان میں اس تبدیلی سے حوصلہ ملا جس کی وجہ سے اس نے اس مسئلے کو نیکی نیتی کے ساتھ آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ سرینگر میں سول سوسائٹی کے اندر اس بات کی کچھ تشویش تھی کہ چونکہ یہ ایک پسماندہ بیکروال برادری سے تعلق رکھتی ہے اسی لئے ہو سکتا ہے کہ وادی کی مین اسٹریم (mainstream) مسلم سیاست اس معاملے کو آگے بڑھانے میں بہت دلچسپی نہ لے۔ لیکن لوگوں نے مشاہدہ کیا کہ ایسی کچھ چیزیں ہیں جو ذات اور مذہب کی حدوں سے پرے ہیں۔ آصفہ کا معاملہ اسی کی ایک مثال ہے جس میں پوری وادی کے اندر اس مظلوم کے ساتھ انصاف کے لئے ایک ساتھ آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔ اگرچہ دیر ہو چکی ہے لیکن پھر ‘نہ سے دیر ہی بھلی’۔
بی جے پی کو اس پورے مسئلہ پر اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نفرت انگیز بات ہے کہ اس کے دو سینئر وزراء نے قاتلوں اور بدکاروں کی حمایت کی تھی۔ اس کے علاوہ ملزم کی حمایت میں احتجاجی مظاہروں کو منظم کرنے میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ ہندو مسلم تنازعہ ان کے ڈی این اے میں شامل ہے ، بی جے پی نے پوری مستعدی کا مظاہرہ کیا اور فوری طور پر اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے کا موقع ضائع نہیں ہونے دیا۔ چونکہ اس حادثہ کی شکار ایک مسلمان بچی تھی اسی لئے انہوں نے اپنے ان ہندو بھائیوں کی حمایت میں ریلیاں نکالیں جن کے سر پر بدکاری اور قتل جیسے الزامات ہیں۔ لیکن یہ پہلا ایسا موقع نہیں ہے کہ جب ان کا یہ چہرہ سامنے آیا ہے۔ بلکہ راجستھان میں ان کا یہ چہرہ پہلے ہی سامنے آ چکا ہے جہاں انہوں نے شمبھولال ریگر کی حمایت کی اور اب بھی اس کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے رام نومی کے دوران شمبھولال کی ایک مورتی بنائی جس میں اسے ہندوؤں کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔
لہذا ایسے معاملات سے نمٹنے کے لئے بی جے پی کا ایک خاص انداز ہے۔ اسی لیے وزیر اعظم کی جانب سے اس کی صرف مذمت ہی کافی نہیں ہے۔ اگر وہ اس معاملے میں کچھ کرنے پر واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں ان قدامت پسند تنظیموں کا دوٹوک انداز میں نام لینا چاہئے اور ان کی ملامت کرنی چاہئے جو ایسی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ بدکار اور قاتل اس ملک میں قوم پرستی کا اغوا نہیں کر سکتے۔
اس معاملے پر بے شمار الزامی ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ قدامت پرست ہندو ٹرولز (trolls) نے ہمیں یہ جتلانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے کہ ایسے معاملوں کا شکار کوئی ہندو ہوتا ہے تو ہم اس پر احتجاج نہیں کرتے ہیں۔ لیکن اس بات میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ اس لیے کہ دیگر معاملوں میں بھی سول سوسائٹی نے مظلوموں کے مذہب سے قطع نظر اسی مستعدی کے ساتھ ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم، ان قدامت پرست حمایتیوں اور ٹرولز (trolls) کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ آصفہ کا معاملہ کچھ پرآگندہ ذہن جرم پیشہ افراد کی جانب سے صرف حیوانیت و درندگی کا معاملہ نہیں ہے۔ چارج شیٹ کے مطابق اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اسے صرف اس لئے ہدف بنایا گیا تھا کیونکہ وہ مسلمان تھی۔ جموں میں قدامت پسند ہندو ایک طویل عرصے سے بکروال برادری کے خلاف تخریبی سازشوں میں ملوث رہے ہیں اور ہر سال ان کی کوشش یہی رہتی ہے کہ وہ اپنی چراہ گاہوں کی طرف واپس نہ لوٹیں۔ چونکہ بکروال زیادہ تر مسلمان ہیں اسی لئے وہ آسانی کے ساتھ ہدف بنا لئے جاتے ہیں کیونکہ آج کل شاید کسی کو مسلمانوں کی پرواہ نہیں ہے۔
لہٰذا آصفہ کو بہت سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک منصوبہ بند طریقے سے ہدف بنایا گیا تاکہ اس مسلم برادری کے دل میں دہشت قائم کیا جا سکے۔ ایسا نہیں ہے حزب اختلاف اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہی ہے۔ بلکہ یہ معاملہ شروع سے ہی فرقہ وارانہ تھا اور یقینا اسے اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ اس معاملے کو کسی اور تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ آصفہ اور اناؤ حادثے کے درمیان مماثلت ظاہر کرنے کی کوشش کرنے والے ایک بات بھول رہے ہیں۔ اناؤ بدکاری کا معاملہ طاقت کے نشے میں چور ایک سیاستدان کا تھا جو اب سے چند روز قبل تک اپنی مردانگی کے غرور میں ڈابا ہوا تھا۔
آصفہ کا معاملہ ملزم کی ذاتی شخصیت سے جڑا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی فسطائی سیاست معاملہ ہے جس میں ایک چھوٹی بچی کے جسم کو خوف اور دہشت کے مظاہرے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اس چھوٹی سی بچے کے جسم کا ہر ہر زخم ریاستی ساز باز اور ایک مصنوعی قوم پرستی کی داستان بیان کرتا ہے جس کا تعین اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہی کیا جا سکتا ہے۔ جب ریاست خود اپنے ہی شہریوں کو مشق ستم بنانے لگتی ہے تو وہ وقت خود ریاست اور قوم کی نوعیت پر سوال کھڑے کرنے کا ہوتا ہے۔
ظلم کی داستان بیان کرتا آصفہ کا جسم اس انتہاپسند قوم پرستی کا نہ تو کوئی پہلا ثبوت تھا اور نہ ہی آخری ہوگا۔ کئی سال پہلے سورت میں بھی ایسا ہی ایک حادثہ پیش آ چکا ہے اور اس سے بھی کئی سال قبل کنان پوشپورا میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ اس بربریت کا شکار ہونے والے کچھ متاثرین تو انصاف تلاش کرتے کرتے اس دنیا سے چل بسے اور جو زندہ ہیں وہ اب بھی انصاف کی راہ تک رہے ہیں۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ آیا ہمارے غم و غصہ اور ہمارے اخلاقیات کا شعور آصفہ پر آ کر ختم ہو جاتا ہے یا یہ کہ آصفہ کے ساتھ پیش آنے والا یہ عظیم سانحہ ہمیں ہماری اجتماعی ذمہ داریوں کا گہرا محاسبہ کرنے پر آمادہ کرے گا۔
URL for English article: https://newageislam.com/islam-women-feminism/asifa-brutalised-muslim;-period/d/114965
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism