New Age Islam
Sat Jan 25 2025, 12:38 AM

Urdu Section ( 21 May 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why the American Liberal Bluff on Israel Needs to be Called Out اسرائیل کے بارے میں امریکی لبرل کے جھوٹ کا پردہ فاش ضروری

ارشد عالم، نیو ایج اسلام

19 مئی 2021

ہاں، امریکی لبرل نے  ٹرمپ کے خلاف     مزاحمت کی تھی ،  لیکن بائیڈن تو  اب بھی  اسرائیلی  ظلم کی  حمایت کر رہا ہے۔

اہم نکات:

 ٹرمپ کو بدل  کر  بائیڈن کو لانا بنیادی طور پر امریکی  انتظامیہ   کے لبرل امیج کو بچانے کے لئے تھا ۔

امریکی  پالیسیوں کی   اساسی   خرابیوں کو  اجاگر کرنے میں امریکی لبرل    پوری طرح ناکام

تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی سیکولر مزاحمت کو ختم کرنے کے لئے  اسرائیل نے ہی  حماس کی مدد کی تھی ۔

 حماس کی مدد سے   اسرائیل   کی منشا فلسطینی جدوجہد  کے جواز کو ختم کرکے اسے بے اثر کرنا تھا۔

------------

پہلے تو  امریکہ اور دوسری جگہوں کے لبرل  نے  ایسا  تاثر دیا کہ جیسے   دنیا میں جو کچھ    غلط ہو رہا ہے    وہ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔  ٹرمپ اب وائٹ ہاؤس میں نہیں ہے، لیکن فلسطینیوں کا قتل عام تو اب بھی بلا روک ٹوک چل رہاہے۔    فلسطینیوں کو   اب بھی اسرائیل ان کے اپنے  گھروں سے بے دخل کررہا ہے، اپنے من سے  ان پر بمباری کر رہا  ہے، بچوں اور خواتین کو   بڑی بے رحمی سے  قتل کر رہا ہے۔  لیکن بائیڈن کی     امریکی  انتظامیہ اب بھی   نیتن یاہو  کے ساتھ مضبوطی سے  کھڑی  اس کی  تخریب کاریوں کے حق   میں   جواز پیش کر رہی ہے ۔   امریکہ صرف  اسرائیل کو  ہتھیار ہی   سپلائی نہیں کر رہا ہے  جس سے  ہزاروں عام شہری مارے جا رہے ہیں بلکہ  وہ اسرئیل کی       ظالم  حکومت  کے جرائم  کی  لیپا پوتی  کر کے  اس کا  دفاع بھی کر رہا ہے۔  اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ امریکی حمایت کے بغیر   ممکن نہیں ہے،    اس لئے لا چار فلسطینیوں کے ساتھ جو  ظلم ہورہا ہے   اس میں امریکہ برابر کا شریک ہے۔

 کہنےکا    مطلب یہ نہیں   ہے کہ  ٹرمپ کی مخالفت نہیں کی جانی چاہئے تھی بلکہ   مقصد صرف     لیفٹ  لبرل انتظامیہ   کی مزاحمت    کا  کھوکھلا پن دکھانا  ہے ، جو کہ   امریکی پالیسیوں کی  اساسی خرابیوں  پر چپی سادھے ہوئے ہیں ۔   وجہ بالکل صاف ہے۔ ٹرمپ کی وجہ     سے بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی  کافی بدنامی ہو رہی تھی ، اور اس سے   امریکی لبرل    کو شرمندگی کا سامنا  کرنا پڑ رہا تھا ۔   لبرل انتظامیہ   خود کو مہذب دکھانا چاہتی تھی   جو  دنیا کے     مشکلات کے بارے میں فکر مند رہتی ہے ۔

An old Palestinian couple in front of their stolen home now inhabited by Jewish settlers from Brooklyn, New York.

-----

لیکن بنیادی طور پر ،  وہ صرف اس بات سے پریشان تھے  کہ  چیزیں   صحیح ڈھنگ سے نہیں چل رہی ہیں  ۔  لبرل  انتظامیہ نے   اوباماکی بھی  حمایت اسی وجہ سے کی تھی ۔   سرویلینس  سسٹم اور ڈرون   کے لئے تنہا اوباما ہی ذمہ دار تھے   جس سے پوری مسلم دنیا میں ہزاروں افراد  ہلاک ہو گئے ۔  لیکن چونکہ   اوباما   شائستہ  اور مہذب تھے   اور اپنے   کو کچھ اس ڈھنگ سے پیش کیا کہ     لبرل کولگا یہ  تو  بالکل اپنی طرح کا ہے۔      شائستگی   کے پردہ  میں      اوباما نے  بھی ایسا کچھ نہیں کیا جس   سے امریکہ کے   برتاو میں  کوئی بنیادی   تبدیلی  آئے ۔  لبرل کو اس سے کچھ فرق بھی نہیں پڑا ۔  لہذا یہ  کہنا   بالکل  درست ہوگا  کہ     لبرل کو صرف    ہیئت  اور صورت     کی فکر رہتی ہے،    اساسی اور نو عی تبدیلی کی بالکل نہیں ۔    لہذا   اب  اگر  بائیڈن      امریکہ کی اسی    پرانی پالیسی کو   جاری رکھے  بھی ہوئے  ہیں  تو  کیا ہوا۔ اب ہمیں   لبرل  کی طرف سے   غم و غصہ کا  اظہار نہیں دکھے گا۔  بات جب  اسرائیل کی ہو تو   پھرسوال    اوباما ، ٹرمپ یا بائیڈن کے درمیان   انتخاب  کا نہیں  رہ   جاتا ہے۔  اگر لبرل امریکی اتنے ہی با ضمیر  ہیں  جتنا کہ وہ خود کو  سمجھتے ہیں تو  ا ب تک فلسطینیوں کے دفاع میں   ریلیاں نکال ر ہے ہوتے۔  لیکن آپ اطمینان رکھیے  ایسا کچھ  ہونے والا نہیں ہے ۔

دریں اثناں،   اسرائیل  فلسطینیوں کی زندگیاں   تباہ کر رہا ہے اور اسے کوئی روکنے والا بھی نہیں ہے۔   بے حس دنیا کی نظروں کے  سامنے طاقت کا یکطرفہ استعمال بدستور جاری ہے۔  فلسطینیوں کو  ان کے اپنے گھروں سے بے دخلی   کا سلسلہ    بلا روک ٹوک چل رہاہے ۔  یہودی آباد کار  ان کے   گھروں میں  گھس کر زبردستی انہیں  ہڑپ لےرہے ہیں۔  ان غاصبین کی اکثریت  نیو یارک سے تعلق رکھنے والے یہودی ہیں،  جن کو  ’ارض موعود‘ میں اپنے     دوسرے یا تیسرے  گھر کی  تلاش  ہے،   اور اس  کے لئے  فلسطینیوں کو      ان کے  تنہا گھر  سے  محروم   کر رہے ہیں ۔    فلسطینیوں کے ساتھ  ہو رہے  غیر انسانی برتاو  کا  ثبوت یہ بھی  ہے کہ  مجرم آباد کاروں کی قانونی فیس بھی       فلسطینیوں سے ہی لی جا رہی ہے۔    فلاحی تنظیم کے نام سے رجسٹرڈ متعدد  امریکی تنظیمیں   اس  زمین ہڑپ   میں اپنا  کردار ادا کر رہی ہیں۔  لیکن اب چونکہ  ٹرمپ کی سرکار نہیں ہے  اس لئے یہ اب کوئی مسئلہ  نہیں رہا جو لبرل امریکیوں کے ضمیر کا بوجھ بنے۔

لبرل جب اسرائیل کی بربریت کی مذمت   کرتے ہیں تو  ساتھ ہی  حماس کی بھی مذمت کرتے ہیں یعنی  حماس کی مذمت کئے  بغیر  وہ اسرائیل کی  بھی  بربریت کی مذمت    نہیں کرتے جیسے حماس اور اسرائیل طاقت میں بالکل ایک دوسرے کے برابر ہوں  ،  اس سے مسئلہ فلسطین سے متعلق  ان کی    اصلی سوچ کا پتہ چلتا ہے ۔

  دونوں کے       بیچ اس طرح کی  غلط   ہمواری اور برابری دکھا  کر  وہ  یہ بتانا  چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ   ان کے اپنے کرموں کا  پھل ہے۔  دوسرے،  وہ اس طریقہ سے  ایک طرح کا کیموفلاج   تیار کر رہے ہیں تاکہ یہ استدلال کر سکیں کہ  اس ’تنازعہ‘ میں    دو پارٹی شریک  ہیں  یعنی اس ’تنازعہ‘  کے طرفین ہیں،   جبکہ حقیقت  یہ  ہے کہ یہ لڑائی  یکطرفہ ہے اس کی صرف ایک ہی  پارٹی  ہے جو  شروع سے مضبوط حالت میں ہے اور     جیسا چاہ رہی ہے کر رہی ہے۔   اور  وہ پارٹی  اسرائیل ہے،   جسے امریکہ اور احساس جرم  مبتلا یورپ کی حمایت حاصل ہے۔   فلسطینی محض اپنے ساتھ ہو رہے       اسرائیلی    ظلم  سے خود کو    ایڈجسٹ کر رہے ہیں ۔

حماس کے  ذریعہ  داغے گئے راکٹ  پر   اتنا    اظہار غم ، اتنا دکھ ، ایسا لگ  رہا ہے    جیسے اس راکٹ سے ہی سارا تشدد ہوا  اور ہو رہا ہے۔  لیکن جس بات کو جان بوجھ کر  نظرانداز کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ  اسرائیل کا وجود  خود  اپنے آپ میں  تشدد کا پہلا واقعہ ہے۔  ایسا لگ رہا  ہے جیسے   حماس  کے ایک راکٹ سے ہی     فلسطینیوں پر دہائیوں سے کیے جا رہے      منظم  اسرائیلی تشدد کی نفی  ہو جاتی ہو۔  اس سے بڑا اور پر تشدد واقعہ کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کو  اپنی تاریخ ،  اپنی  یادوں     اور  اپنے گھروں سے بے دخل   کر دیا جائے۔

لبرل یہ  ڈھونگ  کر رہے ہیں کہ  انہیں  پتہ ہی نہیں کہ  شروع  میں اسرائیل نے  ہی حماس  کی مدد کی تھی  ۔ اب یہ سوچنا  درست نہ ہوگا  کہ   حماس اسرائیلی آبادکاری کے خلاف  لڑنے کے لیے کھڑا ہوا تھا ۔     اگر ایسا  نہیں تھا تو پھر انہیں  انتفاضہ کی سربراہی کر رہے پی ایل او  کی  مدد کرنی چاہئے تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہے،   حماس نے خود مانا ہے کہ     اس کا  ظہور   فتح کے مقابلے کے لئے ہواتھا  ۔  حماس کے رہنما   شیخ یاسین نے  اسرائیلیوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے پہلے   صاف صاف کہا تھا کہ   جو ہتھیار جمع کئے گئے تھے  وہ  اسرائیل سے نہیں بلکہ  پی ایل او سے لڑنے کے لئے تھے۔  غزہ میں   سیکولر  پارٹی فتح  کو ختم کرنے کے بعد ،  حماس فلسطینیوں کا واحد نمائندہ بن گیا  اور اس طرح      اسرائیل یہ ڈسکورس سیٹ کر  نے میں کامیاب ہو گیا کہ  اس کی لڑائی صرف     اسلامی دہشت گردی   سےہے ۔   آج اگر  حماس کا بھوت  اسرائیل کا پیچھا  نہیں چھوڑ  رہا ہے تو  اسرائیل نے خود ایسا چاہا تھا ۔ اخلاقی طور پر پی ایل او سے لڑنا  اس کے لئے مشکل تھا۔لیکن اب  جبکہ فلسطینی    حماس کی  سربرا ہی میں ہیں ، انہیں   قتل کیا جا سکتا ہے  اور کسی کو کوئی پچھتاوا بھی نہیں ہوگا ۔  تمام لبرل کے   لئےاب  آسان ہے کہ وہ  فلسطینیوں کی جانوں کو اجتماعی کولیٹرل  قرار دے کر  ایک ہی  سر میں  اسرائیل اور حماس کے بارے میں بات  کرسکیں ۔ 

ارشد عالم نیو ایج اسلام ڈاٹ کام کے  مستقل  کالم نگار ہیں

URL for English article:   https://www.newageislam.com/islam-west/american-liberal-israel-palestine-israeli-oppression/d/124848

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/american-liberal-israel--/d/124857


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..