ارشد عالم، نیو ایج اسلام
21 اگست 2021
افغانستان میں طالبان کی
واپسی پر ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان واضح طور پر دو طرح کا ردعمل پیا جا رہا
ہے، پہلا تو فرحت و انبساط کا ہے جبکہ دوسرا ردعمل طالبان کی واپسی پر احتیاط اور
تشویش کا ہے۔
اہم نکات:
1. مسلمانوں نے یا تو
طالبان کا خوشی کے ساتھ خیر مقدم کیا ہے یا مطالبہ کیا ہے کہ خواتین اور اقلیتوں
کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
2. طالبان کی تاریخ سے
واقفیت کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں نے طالبان کی کھل کر مذمت نہیں کی ہے کیونکہ
ایک جمہوری ملک میں رہنے والی ایک سب سے بڑی اقلیت سے یہی توقع کی جا رہی تھی۔
3. اس تردد کی واحد
معقول وجہ یہ ہے کہ وہ ایسے کچھ بنیادی عقائد رکھتے ہیں جو طالبان اسلام کے بارے
میں رکھتے ہیں۔
-----
افغانستان میں طالبان کی
واپسی پر ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان واضح طور پر دو طرح کا ردعمل پایا جا رہا
ہے، پہلا تو فرحت و انبساط کا ہے۔ یہاں کے مسلمان امریکہ اور اس سے پہلے سوویت
یونین کی 'شکست' کا جشن مناتے ہوئے نظر آرہے ہیں جنہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے
کہ اس صورت میں امریکہ نے ہی خود اپنے اسٹریٹجک منصوبے کی بنیاد پر افغانستان خالی
کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ طالبان کی تعریف کرنے والا ہندوستانی مسلمانوں کا یہ گروہ
بڑی حد تک کھلے اسلام پسندوں پر مشتمل ہے جبکہ اس میں روایت پسند مسلمان بھی ہیں
جو طالبان کو افغانوں کا ایک جائز حکمران سمجھتے ہیں۔ انہوں نے طالبان کی فتح کو
مکہ پر اسلام کی فتح سے تشبیہ دی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے وابستہ سجاد
نعمانی جیسے علماء نے بتایا کہ کس طرح ہتھیاروں اور دولت کی قلت کے باوجود طالبان
فتح یاب ہو گئے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ خدا ہی طالبان کی مدد کر رہا ہے
اور ان کی واپسی اللہ کی رضا سے ہے۔ لہٰذا اسلام اور طالبان دو ایسی حقیقتیں ہیں
جن کا استعمال ایک دوسرے کی جگہ کیا جا سکتا ہے۔
مسلمانوں کا دوسرا طبقہ
طالبان کا براہ راست استقبال کرنے میں محتاط رہا ہے کیونکہ وہ اس ملک میں خواتین
اور دیگر اقلیتوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے۔ طالبان کے ماضی کے ریکارڈ کو
دیکھتے ہوئے یہ مسلمان امید کرتے ہیں کہ اس بار خواتین اور بچوں کی تعلیم متاثر
نہیں ہوگی۔ یہ نیک توقعات اس دعوے کی وجہ سے ہیں کہ اسلام صنفی مساوات کو فروغ
دیتا ہے اور اپنے پیروکاروں کو تعلیم حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ
ان میں سے کسی سے بھی انحراف کا مطلب یہ ہوگا کہ طالبان اسلام کے بتائے ہوئے راستے
پر نہیں چل رہے ہیں۔
اپنے سابقہ مضمون میں میں
نے لکھا تھا کہ طالبان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے بنیادی فلسفے سے
سمجھوتہ کریں اور یہ کہ اسلام میں صنفی عدم مساوات ان میں سے ایک ہے۔ طالبان مسلم
خواتین کے بارے میں شور مچا رہے ہیں لیکن یہ کہنا ابھی عجلت ہو گی کہ وہ واقعی بدل
گئے ہیں یا یہ بیانات صرف کیمرے کے لیے تھے۔
اسکے ماضی کے ریکارڈ کو
دیکھتے ہوئے طالبان کی واپسی پر مسلمانوں کو اس کی مذمت کرنی چاہیے تھی۔ بلکہ ہم
یہ دیکھ رہے ہیں کہ انہیں ایک لمبی ڈھیل دی جا رہی ہے۔ نہ صرف روایت پسند اور
اسلام پسند بلکہ نام نہاد مرکزی دھارے کے اعتدال پسند مسلمانوں کو بھی اس بات کا
کوئی گمان بھی نہیں ہے کہ اس سے ان پر کیا اثر پڑنے والا ہے۔ پہلے ہی اتر پردیش نے
دیوبند میں اے ٹی ایس (انسداد دہشت گردی اسکواڈ) ٹریننگ سینٹر کے قیام کا اعلان
کیا ہے، اس طرح شہر اور مدرسے کو طالبان کے عروج سے جوڑ دیا گیا ہے۔ چونکہ
انتخابات قریب ہیں اور معاشرے کو پولرائز کرنے کے لیے حکومت کی کوشش شروع ہوچکی ہے
اور وہ ہندوؤں کے ذہن میں عدم تحفظ پیدا کرنے کے لیے طالبان کا استعمال کر رہے
ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کی عقلمندی ہوتی اگر وہ طالبان کی واپسی کی کھل کر
مذمت کرتے ہوئے بیان جاری کرتے۔ وہ واضح طور پر یہ کہہ سکتے تھے کہ اقلیتوں،
عورتوں اور بچوں کے حقوق کو طالبان محفوظ کرے۔ ایک جمہوری ملک میں رہنے والی اس
واحد مسلم اقلیت سے کم از کم اس کی توقع تھی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جس سے یہ
تاثر پیدا ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر ہندوستانی مسلمان طالبان کی واپسی سے خوش ہیں۔
یا ان کی یہ خاموشی اس
حقیقت پر مبنی ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں طالبانی مفروضات کے حامل ہیں؟ مثال کے
طور پر تعلیم کے حوالے سے مسلم نقطہ نظر پر غور کرتے ہیں۔ ہندوستانی تناظر میں
دیوبندیوں سے لے کر بریلویوں اور اہل حدیثوں تک سب اس بات پر متفق ہیں کہ حقیقی
تعلیم (علم) صرف قرآن اور حدیث میں ہے۔ دیوبند کے بانیوں نے تمام قسم کی جدید
تعلیمات کو یہ کہتے ہو مسترد کردیا تھا کہ اس سے لامذہبیت کا فروغ ہوتا ہے۔ ان کا
ماننا تھا کہ جدید علوم حاصل کرنے کا ایک واحد جواز یہ ہے کہ اسے رد کرنے کے ارادے
سے حاصل کیا جائے۔ ان کے لیے جدید تعلیم صرف ایک ہتھیار تھا یا ایک ہنر تھا جس کے
ذریعے انسان اپنی روزانہ کی روٹی کما سکتا ہے اور کچھ نہیں۔ تعلیم کے حوالے سے یہ
نقطہ نظر وجہ ہے اس بات کی کہ آج تک مسلمان سائنسی نقطہ نظر نہیں اختیار کر سکے۔
یہاں تک کہ جماعت اسلامی جیسی تحریک جدید اور مذہبی تعلیم کو یکجا کرتی ہے اور
آسانی سے ان حصوں کو چھوڑ دیتی ہے جو ایک دوسرے سے متصادم ہو سکتے ہیں۔ طالبان بڑی
حد تک دیوبندی مدارس کی پیداوار ہیں اور انہوں نے اسی طرح کی تعلیمات کو اپنایا
ہوا ہے۔ یہ اکثریتی مسلمانوں کی سوچ سے مختلف کس طرح ہے؟
پھر ان کے صنفی خیالات پر
غور کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ طالبان جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ اکثریتی مسلمانوں کے لیے
ایک بدنما داغ ہے۔ دیوبند کے تسلط والا پرسنل لاء بورڈ خواتین کے بارے میں اپنے
رجعت پسندانہ خیالات کی وجہ سے بدنام ہے۔ اس نے فوری تین طلاق اور دیگر زن بیزار
معمولات کی حمایت کی ہے اور مذہبی قوانین کے اندر کسی بھی اصلاح کا دروازہ بند کر
دیا ہے جیسا کہ مسلم خواتین وقتا فوقتا اس کا مطالبہ کرتی رہی ہیں ۔ یہ ان تمام کا
جواز شریعت کی پیروی کے نام پر جواز پیش کرتا ہے۔ مسئلہ صرف دیوبندیوں تک محدود
نہیں ہے۔ شریعت اور اس کے قیام کی حمایت تمام مسلم طبقے کرتے ہیں چاہے وہ اعتدال
پسند ہوں یا انتہا پسند۔ جو کچھ پیو حالیہ سروے میں سامنے آیا ہے ہم شریعت کے تحت
زندگی گزارنے کی ہندوستانی مسلمان کی خواہش کو اور کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔
اسی طرح کے خیالات کا
طالبان نے بھی اظہار کیا ہے جن میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ خواتین اور
مردوں پر شرعی اصولوں کی حکمرانی ہو گی۔ اور یہ کہ اس پر زیادہ زور نہیں دیا جا
سکتا کہ شریعت فطری طور پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہے۔ عورتوں کو کمتر
سمجھا جاتا ہے اور قرآن کے مطابق انہیں مردوں کی سرپرستی میں رکھا گیا ہے۔
یہ شاید طالبان اور
مسلمانوں کی اکثریت (چاہے وہ روایت پسند ہوں یا اسلام پسند) کے مابین ایسی ہی
نظریاتی ہم آہنگی ہے جس کی وجہ مسلمان کوئی بھی پوزیشن لینے سے گریزاں ہیں۔ طالبان
سے سوال کرنا اسلام کے کچھ بنیادی اصولوں پر سوال اٹھانا ہے جو زیادہ تر مسلمان
واضح طور پر کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
English Article: What is Stopping Indian Muslims from Condemning the Taliban?
Malayalam Article: What is Stopping Indian Muslims from Condemning the
Taliban? താലിബാനെ
അപലപിക്കുന്നതിൽ നിന്ന് ഇന്ത്യൻ മുസ്ലീങ്ങളെ തടയുന്നത് എന്താണ്?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism