ارشد عالم، نیو ایج اسلام
16 مارچ 2018
کچھ سال قبل جب میں سرینگر کے دورے پر تھا تو اس دوران ایک سینئر صحافی نے مجھے بتایا کہ سیکورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں جو اگلا عسکریت پسند ہلاک ہونے والا ہے اسے داعش کے پرچم میں کفن دیا جائے گا۔ اس حوالے سے جو معلومات اس کے پاس تھیں وہ معلومات میرے سامنے وہ نہیں رکھ رہا تھا ، لیکن اس نے مجھے یہ ضرور بتایا کہ فوج کے ایک سینئر اہلکار نے اسے یہ معلومات دی ہیں۔ میں نے اس کی اس بات کو سیکورٹی معاملات میں کسی کا محض خیال خام تصور کرتے ہوئے نظر انداز کر دیا۔ لیکن مجھے ٹھیک دو سال قبل اس کی وہ بات یاد آئی جب داعش کا سب سے پہلا پرچم داعش کے ایک ہلاک ہونے والے جنگجو کی لاش کو ڈھانپنے کے لئے دَرونِ شہر سرینگر کی گلیوں سے گزارا گیا۔ اس کے بعد سے اس میں کوئی روکاوٹ دیکھنے کو نہیں ملی ہے ، ہمیشہ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں اور خاص طور پر نوجوانوں کو داعش کے پرچم میں ہی کفن دیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ہلاک ہونے والے تینوں عسکریت پسندوں کی لاشوں کو حسب معمول داعش کے پرچم میں ہی کفن دیا گیا تھا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ الامق جیسی داعش حامی ویب سائٹ اور القرار جیسی داعش حامی ایجنسیوں نے ہلاک ہونے والے ان تین عسکریت پسندوں کی تعریف کی ہے۔ کیا اس سے وادی کے اندر داعش کی سست رفتار لیکن یقینی طور پر بڑھتی ہوئی مقبولیت کی طرف اشارہ ملتا ہے؟ یا اس مسئلہ کو کسی اور نقطہ نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔
کشمیر میں اس صحافی سے جو میری گفتگو ہوئی اس کی روشنی میں دو امکانات سامنے آتے ہیں۔ ایک تو بالکل ہی واضح ہے کہ اسلام بالآخر خود کو پر تشدد تعبیر و تشریح کے لئے موزوں بنا لیتا ہے، لہٰذا، داعش کے نظریات کی طرف کشمیر کے نوجوانوں کا میلان ایک طے شدہ نتیجہ ہے۔ اس کا ایک اور داخلی امکان جس کی طرف میرے صحافی دوست نے اشارہ کیا تھا یہ ہے کہ خود ہندوستانی حکومت اس خیال کے پروپگنڈہ میں شامل ہے کہ ہندوستان میں داعش اپنے پنجے مضبوط کر رہا ہے۔ اس کے وجوہات بالکل واضح ہیں۔ ٹی وی پر خبریں دیکھنے والے کسی بھی انسان کو یہ بات معلوم ہوگی۔ خبر رساں اداروں کو ہر روز منتخب میڈیا اور حکومت کے انکشافات پیش کئے جاتے ہیں۔ ٹیلی ویزن پر روزانہ ایک بڑی تعداد میں معلومات سے ایسے نابلد لوگوں کا پینل موجود ہوتا ہے جن کا انتخاب زیر بحث موضوع پر ان کی مہارت کے بجائے ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ، اور یہ 'ماہرین' کشمیر کی صورتحال کو مسلسل انتہا پسند اسلام کے ساتھ جوڑ کر اس پر بحث کرتے ہیں۔ داعش کی موجودگی ان کی گفتگو میں واضح طور پر فٹ بیٹھتی ہے۔
ٹیلی ویزن پر اس قسم کی بات چیت کا مقصد کشمیر کے مسئلے کو حل کرنا یا اس پر مباحثہ کرنا نہیں بلکہ صرف ان ناظرین کی تعصب و تنگ نظری میں اضافہ کرنا ہوتا ہے جو اس طرح کی خبریں دیکھتے ہیں۔ تاہم، ٹیلی ویزن اسٹوڈیو کے اندر یہ تماشا پروگرام کے ساتھ ہی ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ اسے انتہا پسند اسلام پر موجودہ مباحثے کے ساتھ سے جوڑ دیا جاتا ہے تا کہ وادی کے لوگوں کی حقیقی اور فطری مطالبات کو بھی غیر قانونی قرار دیا جائے۔ اگر صورت حال کو عالمی جہاد سے جوڑ دیا جاتا ہے تو پھر سیاسی طور پر 'ملک' اسلامی دہشت گردی سے لڑنے میں بین الاقوامی ہمدردی حاصل کر لے گا۔ لہٰذا، اس بات کا یقین کرنے کی ہر وجہ موجود ہے کہ وادی میں داعش کی موجودگی کچھ حکومتی اہلکاروں کے لئے معاون ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ حکمت عملی غیرمعقول اور تنگ نظر معلوم ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس بات کا حقیقی امکان موجود ہے کہ کشمیر پر موجودہ گفتگو آخر کار ایک پیشن گوئی ثابت ہو جائے۔
اس کے پر خطر علامات پہلے سے ہی موجود ہیں۔ اگر مارے گئے تین جنگجوؤں کو اسلامی دہشت گردوں کی جانب سے علی الاعلان اپنایا جانا باعث تشویش ہے تو مارے گئے جنگجوؤں میں سے ایک عیسی فاضلی کی جانب سے شائع کردہ ویڈیو کلپس زیادہ پریشان کن ہیں۔ وہ ویڈیو کلپ شاید انکاؤنٹر سے قبل ریکارڈ کیا گیا تھا جس میں فاضلی نے کافر حکومت کے خلاف اسلامی جہاد کے لئے درخواست کی ہے۔ اس ویڈیو میں اس نے کہا ہے کہ کافروں کے خلاف لڑنا ہر مسلم کا مذہبی فریضہ ہے اور واضح طور پر اس نے نہ صرف ہندوستانی حکومت بلکہ کشمیر کے اندر برسر اقتدار لوگوں بھی اپنے حملوں کا جائز ہدف قرار دیا ہے۔
اس ویڈیو کلپ میں ان علماء کی بھی تنقید کی گئی ہے جو حکومت کے ساتھ ہیں اور غیر مسلموں کے ظلم و ستم کے خلاف جہاد کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں۔ عیسی فاضلی نے ان علماء کو یہ کہا ہے کہ ایک دن انہیں اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اور خدا انہیں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام ہونے کی سزا دے گا اس لئے کہ اس صورت حال میں مسلح جنگ و جدال کی آواز بلند کرنا ان کا فرضِ منصبی ہے۔ علماء کے لئے یہ تنقیدی جذبہ صرف کشمیر کے تناظر تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ انڈین مجاہدین نے اس سے پہلے جو پیغامات جاری کئے تھے ان میں بھی انہیں جذبات کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کشمیر میں آزادی کیلئے چلنے والی تحریکوں کی بھی ان میں تنقید کی گئی ہے۔ فاضلی نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ یہ ایک مذہبی جدوجہد ہے اور اسےصرف ہندوستان کے خلاف سیاسی جد و جہد قرار دیکریہ تحریک اسلام کو زبردست نقصان پہنچا رہی ہے۔ کشمیر تحریک کا بنیادی مقصد صرف حکومت ہند سے آزادی حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کا مقصد ایک ایسی اسلامی حکومت کا قیام ہے جو شریعت کو نافذ کرے گی۔
جو لوگ عیسیٰ کو جانتے تھےوہ اس کے اندر اچانک پیدا ہونے والی اس تبدیلی سے حیران تھے۔ عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کرنے والے زیادہ تر نوجوان اپنا ذاتی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ وہ یا تو پولیس یا فوج کی گولیوں سے اپنے کسی دوست یا اپنے خاندان کے کسی فرد کو کھو چکے ہیں۔
عسکریت پسندوں کے بیانیہ میں ایک بات یہ بھی آتی ہے کہ وہ سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ذاتی طور پر سطح پر شدید ذلت اٹھا چکے ہیں۔ عیسی کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ نہ ہی اسے کوئی اذیت پہنچائی گئی اور نہ ہی اس کا کبھی سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ تصادم کا کوئی معاملہ سامنے آیا ہے۔ لہٰذا، عسکریت پسند اسلام کی طرف اس کا رخ کرنا ایک مکمل ذاتی سطح پر مذہنی نظریہ میں تبدیلی کا نتیجہ ہے جو کہ وادیٔ کشمیر کے اندر بہت سے لوگوں کے لئے پریشانی کا باعث رہاہے۔
اسلامی جہاد کا نظریہ قبول کرنے والا سب سے پہلا شخص وہ ذاکر موسیٰ ہی ہے جو زیادہ سیکور بننے کے لئے پہلے ہی سیاسی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا چکا ہے۔ لہٰذا، وادیٔ کشمیر میں جہادی رجحانات کی جو بیج بوئی جا رہی ہےاس سے فکرمند ہونے کے لئے سیاسی طبقے کے پاس ایک بہت بڑی وجہ موجود ہے۔ اس کے اندر پورے کھیل کا نقشہ بدلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کو اس تبدیلی پر توجہ دینے کی ضرروت ہے جو وادیٔ کشمیر کے سیاسی ماحول کے اندر پیدا ہو رہا ہے۔
ان تینوں عسکریت پسندوں کی لاشوں کو داعش کے پرچم میں کفن دیا گیا ، اس واقعہ سے وہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی جس سے میرے ایک صحافی دوست نے مجھے چند سال قبل آگاہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ذاکر موسی زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے اور نظام مصطفی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا تھا۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ مقتول عسکریت پسندوں کا جنازہ سیاسی محل احتجاج بن چکا ہے۔ لیکن ماضی کے برعکس کہ جب مظاہر صرف وادی کی ہی شخصیات تک محدود ہوتی تھیں، اس مظاہرہ میں ایک تصوراتی اسلامی ریاست کا خیال نمایا تھا۔ اور یہی خیال ان تمام لوگوں کے لئے پریشانی کا باعث ہونا چاہئے جو وادی کے اندر امن و امان قائم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
URL for English article: https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/the-many-uses-isis-kashmir/d/114615
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism