ارشد عالم، نیو ایج اسلام
25 فروری 2022
حجاب کی صرف ایک واحد
تفہیم سے گریز کرنا بہتر ہے۔
اہم نکات:
1. مسلم شناخت کے طور
پر حجاب کی تاریخ انتہائی پیچیدہ اور مختلف فیہ رہی ہے۔
2. قرآن میں حجاب کا
ذکر بطور لباس نہیں بلکہ اس کے لیے خمار کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
3. خمار کوئی باضابطہ
لباس نہیں ہے، بلکہ یہ صرف حیا و پارسائی
کا ایک معیار ہے جو کہ قرآن کے مطابق مردوں اور عورتوں کے لیے مختلف ہے۔
4. خمار یا پردہ نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ اس کی ایک اپنی
سماجی اہمیت بھی ہے۔
-----
The
row over headscarves has sparked countrywide protests
(Getty
Images, BBC News)
----
کرناٹک میں حجاب پر
پابندی کے تناظر میں سب سے زیادہ پریشان کن معاملہ مسلم طلباء اور اساتذہ کے سر سے
اسکارف کا زبردستی نکلوایا جانا تھا۔ بابری مسجد کے انہدام کی طرح، وہ تصاویر بھی
ہندوستان میں فرقہ وارانہ تعلقات کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ بن جائیں گی۔ کچھ لوگوں
نے اس واقعہ کا موازنہ فرانسیسی دور تسلط میں الجزائری خواتین کے بے پردہ کیے جانے
سے بھی کیا ہے۔ لیکن اس موازنہ میں یہ بات ندارد ہے کہ فرانسیسی فوج نے مسلم
خواتین کو آزاد کرنے کے گمراہ کن بہانے سے انہیں بے پردہ کیا تھا۔ جبکہ کرناٹک میں
حجاب کا معاملہ نہ تو منصوبے کے تحت تھا اور نہ ہی اس کے لئے مسلم خواتین کی
’آزادی‘کا نعرہ دیا گیا تھا۔ یہ واضح طور پر ’’مسلمانوں کو ان کی اوقات دکھانے‘‘
کے ارادے سے اکثریتی فرقے کی طاقت کا ننگا ناچ تھا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ہر
دوسرے سرکاری اسکول میں سرسوتی پوجا کا اہتمام کیا جاتا ہے، یہ دلیل بے معنی معلوم
ہوتی ہے کہ مذکورہ کالج سیکولر یکسانیت کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک ایسے
ملک میں جہاں زیادہ تر عوامی مقامات ہندو مذہبی علامتوں سے بھرے ہوئے ہیں،
مسلمانوں سے اپنے مذہبی علامتوں کو ترک کرنے کی توقع رکھنا بے ایمانی ہے۔
مسلم شناخت کے طور پر
حجاب کی تاریخ انتہائی پیچیدہ اور مختلف فیہ رہی ہے کیونکہ یہ مذہبی فریضہ اور
سیاسی مظاہرہ دونوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ آج حجاب کو اسکارف سمجھا جاتا ہے، لیکن
قرآن اس اصطلاح کو اس کپڑے کے معنی میں استعمال نہیں کرتا ہے جو سر ڈھانپنے کے لیے
استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جن سات مختلف مقامات پر حجاب کا لفظ آیا ہے،
وہاں اس سے مراد صرف علیحدگی ہے، خواہ وہ ظاہر ہو یا پوشیدہ۔ لیکن ان میں سے صرف
ایک آیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے جو کہ اس طرح ہے: "اے ایمان والو! نبی کے
گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ
خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق
ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ بیشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ
تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا، اور جب تم ان سے
برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر مانگو" [33:53]۔ اور یہ آیت اس لیے
بار بار پیش کی جاتی ہے کہ یہ مسلمان خواتین کے لیے علیحدگی کو لازم قرار دیتی ہے۔
تاہم، یہ آیت واضح طور پر نبی کی ازواج سے متعلق ہے اور یہ ایک سیاق و سباق کا
تقاضا کرتی ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والوں کی خلوت کا احترام
ہے، یقینی طور پر اس میں کسی باضابطہ لباس کا حکم نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد عربوں
کو اچھے اخلاق کی تعلیم دینا ہے، اور اس کا دوسرا مقصد نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کا
مرتبہ بلند کرنا اور انہیں مومنوں کی ماں
قرار دینا ہے، جن کے ساتھ مکمل احترام اور
پاس و لحاظ سے پیش آنا ضروری ہے۔
حجاب کا موجودہ مفہوم
یعنی اسکارف غیر قرآنی ہے۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سر ڈھانپنے پر قرآن کا
کوئی موقف ہی نہیں ہے؟ نہیں ! یہ بات غلط ہے۔ درحقیقت قرآن خواتین کو سر ڈھانپنے
کا حکم دیتا ہے لیکن اس کے لیے جو اصطلاح استعمال کی گئی ہے وہ حجاب نہیں بلکہ
خمار ہے۔ آیت کہتی ہے: "... اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ
نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود
ہی ظاہر ہے اور وہ دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں، اور اپنا سنگھار ظاہر نہ
کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں یا شوہروں کے
بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے یا اپنے دین کی عورتیں یا اپنی
کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی ملک ہوں یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ بچے
جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں " 24:31]۔ خمور خمار کی جمع ہے،
اور اس سے مراد وہ حجاب ہے جو اس زمانے میں خواتین کے درمیان رائج تھا نہ کہ صرف
عرب میں۔ قرآن اس آیت میں مسلمان خواتین کو یہ حکم دے رہا ہے جب وہ عوامی مقام پر
ہوں تو اپنے جسم کے اوپری حصے کو ڈھانپنے کے لیے اپنے سینے پر خمار/دوپٹہ کھینچ
لیں۔ کلاسیکی مفسرین کا ماننا ہے کہ اسلام
سے پہلے عورتیں اپنی گردن اور سینہ کے اوپری حصے کو بے پردہ رکھتی تھیں اور اسی
تناظر میں یہ آیت مسلم خواتین کو حکم دیتی ہے کہ وہ اپنے سینے کے اوپری حصے کو ترتیب
سے ڈھانپیں اور ’حیاء‘ کو اپنا لیں۔
اسماء برلاس اور دیگر
مسلم حقوق نسواں کے حامیوں کا کہنا ہے کہ قرآن سر کو ڈھانپنے کا حکم نہیں دیتا
بلکہ ان سے خمار کے مقصد اور اس کی اصطلاح کو سمجھنے میں خطا سرزد ہوئی ہے۔ زیادہ
تر عربی لغات میں خمار کا معنی حجاب بیان کی گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خمار
خطے کا ایک روایتی لباس تھا جو اسلام میں داخل ہوا۔ تقریبا تمام مفسرین کا اس بات
پر اتفاق ہے کہ بالوں کو ڈھانپنا چاہیے لیکن چہرے کو نہیں۔ جو لوگ پورے چہرے کے
نقاب یا برقعے کے کی حمایت کرتے ہیں وہ یقیناً قرآن و سنت کے خلاف ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ
اسکارف صرف مذہب اسلام کے ساتھ ہی ہے۔ تمام سامی مذاہب میں اس کا حکم اور ہندومت کے اندر تو پارسائی کا
روایتی طریقہ ہمیشہ سے گھونگھٹ ہی رہا ہے جس کا مشاہدہ اب بھی بہت سے خطوں میں کیا
جا سکتا ہے۔ تاہم، اسلام میں پارسائی کا تعلق صرف خواتین کے جسم سے ہی نہیں ہے
کیونکہ قرآن واضح طور پر کہتا ہے کہ مردوں کو بھی اپنی مذہبی دعوت کے پیش نظر
پارسائی اختیار چاہیے۔ البتہ مرد اور عورت کے درمیان اس پارسائی کے اظہار کے مختلف
معیارات ہیں اور کسی کو بھی قرآن سے اس فرق کے حوالے سے معذرت کی توقع نہیں رکھنی
چاہیے۔ کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پارسائی کے اس لباس کے پیچھے عورتوں کا استحصال
یا جبر و تشدد ہے۔ اور یہ مسلم خواتین کے ساتھ بعض تجربات کی روشنی میں درست ہو
بھی سکتا ہے۔ لیکن قرآن ایک اخلاقی و مذہبی قدر کے لحاظ سے پارسائی کی بات کرتا ہے
نہ کہ خواتین کو محکوم بنانے کے لحاظ سے۔
خمار کی آیت میں اس بات
کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جب مسلم خواتین غیر مردوں کے ساتھ معاملات کریں یعنی جب
وہ عوامی جگہ پر ہوں تب ہی اس لباس کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا، خواتین کو غیر
مرئی بنانے کے بجائے، خمار کو ایک ایسا واسطہ بھی
قرار دیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے مسلم خواتین عوامی زندگی میں حصہ لے سکتی
ہیں۔
مسلم خواتین کے خمار یا
نقاب کے استعمال کے پیچھے متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔ وہ مذہبی وجوہات کی بناء پر
ایسا کر سکتے ہیں، تا وہ تقویٰ کے اظہار
کی شکل میں بھی پردے کا اہتمام کر سکتی ہیں۔ اگر ایسی مومن عورتیں یہ کہیں کہ پردہ اختیار کرنے سے وہ خدا کا قرب محسوس
کرتی ہے تو اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ خود کو دنیا
کے سامنے پیش کرنے کے متعدد طریقے ہو سکتے
ہیں اور مذہبی جذبے کے لحاظ سے بھی ایسا کرنا بھی جائز ہے۔ کئی بار، سیکولر نقطہ
نظر مطلق انفرادیت کو انسانوں، مردوں یا عورتوں کے لیے واحد قابل عمل تجربہ قرار
دیتا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ انفرادیت بہت سے ممکنہ تجربات میں سے ایک ہے۔ بہت
سے لوگوں کے لئے سر جھکا دینایکساں طور پر معنی خیز اور فائدہ مند تجربہ ہوسکتا
ہے۔ لہٰذا، حجاب کے ساتھ سیکولر طبقے کی
بے چینی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ شاید یہ بنیادی طور پر سخت مغربیت
زدہ ہے۔ ہندوستانی سیکولرازم ہمیں تمام مذہبی نظریات کے ساتھ تال میل پیدا کرنے کا
موقع فراہم کرتا ہے، بجائے اس کے کہ انھیں صرف اس بنیاد پر خارج کر دیا جائے کہ یہ
آزادی اور انفرادیت کے ہمارے تصور کے مطابق نہیں ہے۔
Several
women said they faced discrimination in school because of their headscarf (BBC
News/ Getty Images)
----
لیکن مسلم خواتین پردے کا
اہتمام صرف اس وجہ سے نہیں کرتیں کہ وہ باشرع ظا ہر ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ باشرع
بھی نہ ہوں لیکن پردے کا اہتمام کرتی ہوں۔ بسا اوقات، ایسی خواتین کے لیے پردہ
خاندانی اور سماجی معاملات کو انجام دینے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ مسلم معاشرے کے اندر
قدامت پسندی کا اثر یہ ہے کہ بہت سی خواتین کو صرف پردہ ہی اسے اعلیٰ تعلیم تک
رسائی کے قابل بناتا ہے۔ اس کے علاوہ، بعض مسلم خواتین ایسی بھی ہیں جو غیر مذہبی
بھی ہیں لیکن ثقافتی اور سیاسی شناخت کے طور پر حجاب استعمال کرتی ہیں۔ ان کے لیے
پردہ آزادی کی علامت ہے کیونکہ ان کے اس عمل کی بنیاد کوئی مذہبی تعلیم نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم
معاشرے کے اندر روایت پرست طبقہ پردے سے کافی پریشان ہے۔ چونکہ پردہ مسلم خواتین
کو عوامی جگہوں تک رسائی کے قابل بناتا ہے، اس لیے قدامت پسند اسے فتنہ
(بدامنی/عدم استحکام جو موجودہ سماجی نظام کو درہم برہم کرتا ہے) سمجھتے ہیں۔ اس
لیے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ہمارے اکثر روایتی مفسرین، مثلاً اشرف علی
تھانوی عورتوں کو باحیاء اور سامان زینت سمجھتے ہیں، اور انہیں ان کا حق نہیں
دیتے۔ لیکن جیسا کہ ہم پہلے ہی این آر سی اور سی اے اے کے مظاہروں میں دیکھ چکے ہیں اور اب ایک بار
پھر کرناٹک میں دیکھ رہے ہیں کہ پردہ پوش
خواتین گھریلو نہیں بلکہ وہ دلیر ، ہوشیار اور انتہائی عقلمند ہیں۔ یہ کوئی تعجب
کی بات نہیں ہے کہ دیوبندی اور بریلوی روایت پسند علمائے کرام نے اس مسئلے پر بڑی
حد تک خاموشی اختیار کی ہے گویا کہ ان کے
خیال میں ان مسلم لڑکیوں کو اسکولوں اور کالجوں میں جانے کے بجائے گھروں میں ہی رہ
کر گھریلو کام کاج سیکھنا اور تھوڑی بہت دینی کتابوں کی جانکاری ہونی چاہیے تھی۔
لہٰذا پردہ عورتوں کی روکاوٹ کے بجائے مسلم معاشروں میں روایتی مذہبی اتھارٹی کے
بکھرنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس لیے پردے کا صرف ایک معنی درست نہیں ہے۔ یہ بات
بخوبی سمجھی جاتی ہے کہ بڑے پیمانے پر پردہ/خمار ایک مذہبی فریضہ ہے لیکن ہمیں
پردے کے ان سماجی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو جن سے یہ عصری تناظر میں
وابستہ ہے۔
تاہم، اس شعور کے ساتھ
ہمیں اس حقیقت سے بھی نظر نہیں پھیرنا چاہیے کہ اب بھی شادی شدہ اور غیر شادی شدہ
مسلم خواتین پر پردہ کرنے کے لیے کافی دباؤ ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران معاشرے میں
بڑھتی ہوئی اسلام پرستی نے اسے اسلام کی
ظاہری اور قرآن و سنت کی لغوی تشریحات پر عمل درآمد کا عادی بنا دیا ہے، جہاں مسلم
خواتین کا جسم مسلم مذہبیت کا سب ے بڑا مظہر بن کر ابرا ہے۔ چھ اور سات سال کی عمر
کی لڑکیوں کو سر ڈھانپنے کی یا تو ترغیب دی جاتی ہے یا انہیں اس پر مجبور کیا جاتا
ہے اور یہ سماجی ساخت پردے کو اس کی جسمانی عادت کا حصہ بنانے کے لیے ایک طویل سفر
طے کرتی ہے۔ اکثر ایسے معاشروں میں پردے کے بغیر نکلنے والی خواتین کو بداخلاق اور
غیر مہذب قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے سماجی و مذہبی رسوم و رواج ایسے خاندانوں پر
’قاعدے میں رہنے‘ کے لیے غیر رسمی اور بعض اوقات رسمی انداز میں دباؤ ڈالتے ہیں۔
سماجی دباؤ بہت سی مسلم لڑکیوں کو صرف اس لیے پردہ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ
بلاوجہ کسی اختلاف میں نہیں پڑنا چاہتیں۔جو کوئی بھی یہ کہتا ہے کہ خواتین پر پردہ
کرنے کے لیے کوئی سماجی دباؤ نہیں ہے تو وہ ایمانداری سے کام نہیں لے رہا ہے یا وہ
مسلم معاشرے کو قریب سے نہیں جانتا ہے۔
سیدھی سی بات ہے کہ اگر کوئی پردے کے انتخاب کی آزادی کی بات کرتا
ہے تو پھر اس کا رویہ ان لوگوں کے ساتھ بھی ویسا ہی ہونا چاہیے جو پردہ نہیں کرنا چاہتے۔ آخر کیا ہم مسلمان قرآن کے اس
فرمان کو نہیں مانتے ہیں کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے؟
English
Article: The Many Meanings of Hijab
Malayalam
Article: The Many Meanings of Hijab ഹിജാബിന്റെ പല
അർത്ഥങ്ങൾ
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism