ارشد عالم، نیو ایج اسلام
17 اکتوبر 2021
بنگلہ دیش میں پوجا
پنڈالوں پر باقاعدہ حملہ کیا جا رہا ہے۔ جو کہ ایک جمہوری ملک کی سیکولر ساکھ پر
سوالیہ نشان کھڑے کرتا ہے
اہم نکات:
1. ہندو اقلیتوں پر یہ حملے کوئی ایک مرتبہ کی بات نہیں ہے۔ بلکہ
ان پر ایسے حملے باقاعدگی سے ہوتے رہتے ہیں۔
2. حملوں کا پیمانہ اور نمونہ یہ واضح کرتا ہے کہ یہ حملے بے ساختہ
نہیں تھے۔ بلکہ ان منصوبہ بند حملوں کے پیچھے جماعت اسلامی اور اس کے اسٹوڈنٹ ونگ
کا ہاتھ ہونے کا اندیشہ ہے
3. حملوں کے پیچھے اسلام پسند قوتوں کا نام نہ لے کر میڈیا اپنی
ذمہ داری ادا نہیں کر رہا ہے
4. اچھی جنوبی بنگلہ دیش کی وہ سول سوسائٹی ہے جو اب تک سیکولرازم
اور تکثیریت کے بنیادی خواب کو زندہ رکھے ہوئے ہے
----
درگا پوجا کے اختتامی
دنوں میں دوران بنگلہ دیش میں مختلف شہروں کے پنڈالوں اور مندروں پر حملے ہوئے۔ ان
حملوں میں سب سے زیادہ شدید نقصان کمیلا قصبے میں ہوا جبکہ ہندو آبادی والے بہت سے
دوسرے شہروں سے تشدد، آتش زنی اور موت کی اطلاعات بھی ملیں۔ ملک میں تقریبا 9 فیصد
ہندو آبادی ہے جو کئی سالوں سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کمزور
اقلیت پر حملہ کیا گیا ہو۔ ان کی زندگی، جائیداد، اور علامات پر اس طرح کے حملے
باقاعدہ ہوتے رہے ہیں۔
یہ بڑی راحت کی بات ہے کہ
وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اس تشدد کے مجرموں کو سخت انداز میں دھمکی دیتے ہوئے کہا
ہے کہ انہیں گرفتار کیا جائے گا اور سزا دی جائے گی۔ تاہم، اسی بیان میں انہوں نے
یہ توقع بھی ظاہر کی کہ 'ہندوستان میں ایسا کچھ نہیں ہوگا جس سے بنگلہ دیش میں
حالات خراب ہوں اور ہماری ہندو برادری متاثر ہو۔' ان کی بات کا مطلب اب تک واضح
نہیں ہوا ہے۔ کیا وہ اشارہ کر رہی تھیں کہ جب تک ہندوستان میں مسلمان محفوظ ہیں تب
تک بنگلہ دیش میں ہندو محفوظ رہیں گے۔ کیا یہ وہی یرغمالی نظریہ نہیں ہے جو برصغیر
کی تقسیم کے دوران کچھ انتہائی فرقہ پرست رہنماؤں نے پیش کیا تھا؟ ایک آزاد
جمہوریہ کی سربراہ کی حیثیت سے انہیں کہیں اور بہانے ڈھونڈنے کے بجائے اپنے ملک
میں نظم و ضبط کی بحالی پر توجہ دینی چاہیے۔
Representational
image. | Photo: Commons
-----
دوسری طرف حکومت ہند کا
بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے تحفظ کا مسئلہ اٹھانا بالکل درست ہے۔ لیکن یہ بات ایک
ایسی حکومت کی طرف سے غیر معقول معلوم ہوتی ہے جس کا رویہ اس وقت دیگر ہوتا ہے جب
ہندوستان میں مسلمانوں کی زندگیاں اور املاک تباہ کئے جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں جو ہو
رہا ہے کیا ہمارے پاس اب بھی یہ اخلاقی اختیار باقی ہے کہ ہم اس پر سوال کریں جب
کہ ہندوستان میں مساجد کو مکمل عوام سطح پر مسمار کر دیا جاتا ہے اور اس کے لیے
کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا؟
بنگلہ دیش میں حملے کی جو
وجہ دی گئی وہ یہ ہے کہ ایک پنڈال میں مبینہ طور پر مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی
بے حرمتی کی گئی تھی۔ اس سے کامن سینس کی نفی ہوتی ہے۔ ایک ایسی مذہبی اقلیت جو اب
کچھ سالوں سے حملے کی زد میں ہے ایسی حرکت کیوں کرے گی؟ مزید یہ کہ حملے کا انداز
اور اتنے کم وقت میں جس تیزی سے یہ حملے بڑھے، ان سب سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ
اقلیتی آبادی کو نشانہ بنانے کی ایک منظم کوشش کی جا رہی ہے۔ حملے خود بخود رد عمل
کا نتیجہ نہیں معلوم ہوتے۔ بلکہ اس میں پہلے سے منصوبہ بند انداز میں کیے والے
جبرا حملوں کی تمام علامتیں پائی جاتی ہیں۔
اس میں جماعت اسلامی اور
بالخصوص اس کے اسٹوڈنٹ ونگ اسلامی چھاترشبر کا ہاتھ معلوم ہے۔ اس اسلام پسند گروپ
کے حکومت کے ساتھ اختلافات ہیں۔ شیخ حسینہ نے انہیں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی
نظر پر چڑھا رکھا ہے، اور عدالتوں نے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں ان کے خطرناک اور
پاکستان حامی رویے کے باعث کئی اہم جماعتیوں کو سزائے موت سنائی ہے۔ لہٰذا یہ
پارٹی ایک مخصوص سیاسی عزائم رکھتی ہے جو ملک کو غیر مستحکم کرنے کی پوری کوشش کرے
گی تاکہ حکومت کو بدنام کیا جا سکے۔
لیکن یہ حملہ بنگلہ دیش
کے مذہبی مزاج میں تبدیلی کا بڑا سوال کھڑا کرتا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک کے تازہ ترین
رکن اس ملک کو مجیب الرحمن نے سیکولر اصولوں پر قائم کیا تھا۔ پھر بھی ہم مذہبی
لحاظ سے ایک نمایاں تبدیلی دیکھتے ہیں اور بہت سے حلقوں سے یہاں اسلام کو ایک
ریاستی مذہب قرار دیے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس تبدیلی کے تناظر میں مذہبی
گروہوں نے حکومت پر اپنا ایجنڈا مسلط کر کے بالا دستی حاصل کر لی ہے۔ شیخ حسینہ
حکومت نے ان میں سے کچھ اقدامات کی مزاحمت کی ہے لیکن اس نے دیگر مطالبات کو تسلیم
بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر اس نے 'انصاف کے مجسمے' کو ہٹانے کے مطالبات کو تسلیم
کیا اور جب سیکولر اور ملحد بلاگرز کو اسلام پسند قدامت پرست مسلسل قتل کر رہے تھے
تو اس کا نظریہ کچھ اور تھا۔ یہ شیخ حسینہ حکومت کی خستہ حالی ہے جس نے ان گروہوں
میں سے کچھ کو اب یہ حوصلہ بخشا ہے کہ وہ اب اقلیتی برادری کے حقوق کو پامال کر
رہے ہیں اور بتوں کو کھلے عام توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔ حکومت اپنی ذمہ داری سے بری
نہیں ہو سکتی۔
میڈیا نے ان حملوں کو
اجاگر کرنے میں ایک قابل تعریف کردار ادا کیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا بھی
کے اندر بھی تشدد کے مرتکب افراد کا نام لینے کی ہمت نہیں ہے۔ شہ سرخیوں میں آگ
لگانے والوں کے لیے 'غنڈے' ، 'بدمعاش' اور 'شرپسند' وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے
گئے۔ واضح طور پر اسے مسلم قدامت پرستوں کی کارستانی نہ تبا کر میڈیا بھی اپنی ذمہ
داری سے جی چرا رہا ہے، بلکہ اس معاملے پر پردہ ڈال رہا ہے۔ اس برائی کا نام لیکر
دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے تبھی ہم اس سے نمٹنے کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔ زیادہ
تر مسلمان جن میں لبرل بھی شامل ہیں، یہ بات بغیر کسی جھجھک کے تسلیم کرتے ہیں کہ
اس طرح کا تشدد اسلام کے نام پر جائز ہے۔ اسلام کی ایسی مہلک تعلیمات کی تردید نہ
کر کے وہ اس پریشانی کی جڑ پر حملہ نہیں کر رہے ہیں، بلکہ اس ناسور کو پھیلنے اور
پورے معاشرے کو متاثر کرنے کا راستہ کھول رہے ہیں۔
یہ خوشی کی بات ہے کہ
بنگلہ دیش کی سول سوسائٹی بالخصوص اس کے نوجوانوں نے پوجا پنڈالوں اور مندروں پر
حملوں کی بھرپور مذمت کی ہے۔ بہت سی طلبہ کی تنظیمیں ایسی جگہوں پر اور اس کے آس
پاس کے علاقوں میں نگہبانی کر کے اپنے علاقوں میں ایسے کسی بھی حملے کے خلاف چاق و
چوبند تھیں۔ سول سوسائٹی کے اراکین نے ان حملوں کی مذمت میں ایک ریلی بھی نکالی
اور ایسی کچھ مسلم جماعتوں کی کھل کر مذمت بھی کی جن پر اس فتنے کو ہوا دینے کا
الزام ہے۔ ایسی ہمدردانہ کارروائیاں ہمارے اندر یہ یقین پیدا کرتی ہیں کہ بنگلہ
دیش کا بنیادی نظریہ ملک میں اب بھی زندہ ہے، اور یہ کہ مسلم اکثریت اب بھی ایک
سیکولر اور تکثیریت پسند بنگلہ دیش چاہتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان اور
پاکستان کی اکثریت کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا، جو کہ اپنے ملکوں میں مذہبی
قدامت پرستوں کے ایسے حملوں کا مقابلہ کرنے میں یکسر ناکام رہے ہیں۔
English
Article: Targeting Hindus in Bangladesh Must Stop
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism