11 فروری،2023
گرفتاریوں کے خلاف خواتین
احتجاج کرتے ہوئے
۔۔۔۔۔
نئی دہلی (انقلاب بیورو)
آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے ریاست کے مسلمانوں پر ظلم وستم کا نیا طریقہ
ڈھونڈ تے ہوئے 18 سال سے کم عمری کی شادی کے خلاف کارروائی کے نام پر خوف وہراس کا
ماحول پیدا کرتے ہوئے اب تک سیکڑوں گرفتاریاں کی ہیں جن کی وجہ سے ریاست میں حاملہ
مسلم خواتین زچگی کے لئے ہسپتال جانے سے گریز کرنے لگی ہیں۔ ریاستی حکومت کے کریک
ڈاؤن کی وجہ سے ریاست کے بونگائی ضلع میں ایک 16 سالہ حاملہ مسلم لڑکی کی موت
ہوگئی ، وہ اپنے شوہر اور والد کے خلاف کارروائی کے خوف سے ہسپتال لے جانے کی کوشش
کی گئی ، تاہم اس کی راستہ میں ہی موت ہوگئی ۔ اس پر مستزادیہ کہ پولیس نے متوفیہ
کے شوہر شاہ نور علی اور والد عین الحق کو گرفتار کرلیا ہے۔
واضح رہے کہ آسام میں
2016 ء سے بی جے پی کی حکومت ہے تاہم ریاستی حکومت اگر کم عمری میں شادی کے تئیں
اس قدر فکر مند اور سنجیدہ تھی تو اس کو اس طرح کی شادیوں کو روکنے کے لئے مناسب
اقدامات کرنے چاہئے تھے، تاہم ریاستی حکومت اس طرح کی شادیوں کو روکنے کی بجائے ان
جوڑوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے جن کی پہلے ہی شادی ہوچکی ہیں۔ اگر اس طرح کے
جوڑے بالغ ہوچکے ہیں او ران کے بچے ہیں پھر بھی ان کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے ۔
آسام کے وزیر اعلیٰ نے ریاست میں خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے اور کم عمر مسلم ماؤں
کو ان کے شیر خوار بچوں سے جدا کیا جارہا ہے جب کہ ان کے شوہروں او روالدین کو جیل
کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جارہا ہے۔ ہیمنت بسوا شرما نے اس پر فخر کا اظہار کرتے
ہوئے اپنے ٹویٹر پر لکھا کہ ‘‘ابھی تک دوہزار 89 گرفتاریاں ہوچکی ہیں او رکریک
ڈاؤن جاری ہے’’۔حالانکہ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی صرف مسلمانوں کے
خلاف نہیں کی جارہی ہے بلکہ دیگر برادریوں کے خلاف بھی اسی طرح کی کارروائی ہورہی
ہے۔ ریاست کی صورتحال او رآج ایک حاملہ مسلم خاتون کی موت پر کانگریس کے ممبر
پارلیمنٹ گو روگگوئی نے سخت رد عمل کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘ اس معصوم بچی کی
موت بی جے پی کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کے ہاتھوں ہوئی ہے جن کے احمقانہ قدم
کی وجہ سے حاملہ خواتین بچوں کی پیدائش کے لئے ہسپتال سے گریز کررہی ہیں۔شیر خوار
بچے ماں کے بغیر ہیں اور ان کے والد جیلوں میں ہیں۔’’ گگوئی نے مزید کہا کہ 18 سال
سے کم عمر کی حاملہ لڑکیاں ہسپتالوں کی بجائے گھر میں زچگی کا انتخاب کررہی ہیں
کیونکہ وہ اپنے باپ اور شریک حیات کے قید ہونے سے خوفزدہ ہیں۔’’ خیال رہے کہ مسلم
پرسنل لا کے مطابق مسلم لڑکیوں کی شادی کے لئے 18سال کی عمر کی قید نہیں بلکہ
بلوغیت شرط ہے۔ پنچاب وہریانہ ہائی کورٹ او رملک کی ایک دیگر ہائی کورٹ نے مسلم
لڑکیوں کی 15 سال کی عمر میں بھی شادی کو جائز قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا
تھا کہ مسلم لا کے مطابق اس طرح کی شادیاں غلط نہیں ہیں اور شادی کرنے والے جوڑوں
کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی ۔قومی کمیشن برائے اطفال حقوق نے اس کے خلاف
سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس کے بعد چیف جسٹس چندر چوڑ کی سربراہی والی بینچ نے
کہا تھا کہ پنجاب وہریانہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کسی دوسرے معاملہ میں نظیر کے طور
پر استعمال نہ کیا جائے ۔ سپریم کورٹ نے مسلمانوں میں 18 سال سے کم عمر میں شادی
کے خلاف درخواستوں پر نہ تو کوئی سماعت کی ہے او رنہ ہی کوئی دوسرا حکم جاری کیا،
تاہم اس کے باوجود آسام میں ہیمنت بسوا شرما کی حکومت کم عمری کی شادی کے خلاف
کریک ڈاؤن کے نام پر ظلم وستم کا بازار گرم کرکے مسلمانوں میں خوف کا ماحول قائم
کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
11 فروری،2023 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism