New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 10:39 PM

Urdu Section ( 19 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Progressive Path to Combat Islamophobia اسلام کے تئیں علمی نقطہ نظر، اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا ایک ترقی پسند راستہ

ادیس ددیریجا، نیو ایج اسلام

 17 اکتوبر 2023

 میڈیا میں بعض سیاسی شخصیات کے اسلامو فوبک بیانات، دقیانوسیت اور سماجی تعصبات، مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف ڈھکیلنے اور انہیں معاشرے سے چھانٹنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نفرت انگیز جرائم، مساجد کی توڑ پھوڑ، اور روزگار سے متعلق امتیازی سلوک کے واقعات اسلامو فوبیا کے جیتے جاگتے نتائج کی چند مثالیں ہیں۔

File Photo

------

 آج کی الجھی اور باہم مربوط دنیا میں، اسلامو فوبیا کا عروج ایک سب سے بڑا چیلنج ہے جس کے لیے سوچ سمجھ کر محتاط ردعمل کی ضرورت ہے۔ ایک ترقی پسند مسلم اسکالر ہونے کے ناطے، میرا یہ پختہ یقین ہے کہ اسلام کا مطالعہ کرنے کے لیے علمی نقطہ نظر کو اپنانا، خاص طور پر جس کی بنیاد ترقی پسند تشریحات پر ہو، اسلامو فوبیا سے مؤثر طریقے سے نمٹنے اور اسے ختم کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس، کچھ مشہور مسلم مبلغین اسلام کے حوالے سے جو نقطہ نظر رکھتے ہیں وہ غلط فہمیوں کو بڑھاوا دے سکتا ہے، دقیانوسی تصورات کو تقویت پہنچا سکتا ہے، اور ایک زیادہ جامع معاشرے کی تعمیر میں بڑھتے ہوئے قدموں کو روک سکتا ہے۔ اس مقالے میں، میں یہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا کہ کیوں علمی نقطہ نظر، جس کی بنیاد ترقی پسند اسلامی نظریہ پر ہو، مذہب کی زیادہ جامع اور محتاط تعبیر پیش کرتی ہے، جس سے ہمدردی کو فروغ حاصل ہوتا ہے، دقیانوسی تصورات کا سد باب ہوتا ہے، اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔ مزید برآں، میں اس بات کی تفتیش بھی کروں گا کہ کس طرح اسلام کے بارے میں پدرسرانہ، بالادست اور خفت پسندانہ نقطہ نظر، جس کے حامل اکثر کچھ مشہور مسلم مبلغین پائے جاتے ہیں، مغربی لبرل جمہوری ممالک میں اسلامو فوبیا کے فروغ میں معاون ہے۔

 عالم مغرب میں اسلام فوبیا کی حقیقت:

 عالم مغرب میں اسلام فوبیا کا موجود ہونا ایک انتہائی تشویشناک اور پریشان کن مسئلہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عالم مغرب میں مسلمانوں کو اپنی مذہبی شناخت کی وجہ سے اکثر امتیازی سلوک، تعصب اور یہاں تک کہ تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میڈیا میں بعض سیاسی شخصیات کے اسلامو فوبک بیانات، دقیانوسیت اور سماجی تعصبات، مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف ڈھکیلنے اور انہیں معاشرے سے چھانٹنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نفرت انگیز جرائم، مساجد کی توڑ پھوڑ، اور روزگار سے متعلق امتیازی سلوک کے واقعات اسلامو فوبیا کے جیتے جاگتے نتائج کی چند مثالیں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کے پاس ایک بہترین علاج اسلامی روایت کے تئیں ان کا ترقی پسند نقطہ نظر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے تئیں یہ نقطہ نظر اسلام کی ایک کائناتی، جامع اور اخلاقی طور پر ایک خوبصورت تعبیر پیش کرتا ہے جو ان اسلاموفوبک جذبات کا ایک بہترین علاج ہو سکتا ہے، کہ اسلام ایک فطری طور پر متشدد، پدرسرانہ اور بالادست نظریہ ہے۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ کچھ مشہور مسلم مبلغین کا اسلامی روایت کے حوالے سے نقطہ نظر، اسلامو فوبک جذبات بھڑکانے کا باعث ہو سکتا ہے۔

سیاق و سباق کی تفہیم اور تاریخی تجزیہ:

 اسلام کے تئیں ترقی پسند نقطہ نظر، قرآن کی سیاق و سباق سے مزین تفہیم کی اہمیت اور اسلامی روایت کی ابتدا اور تشکیل میں تنقیدی-تاریخی تجزیہ کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ ترقی پسند اسکالر شاندار اسلامی تاریخ کی پیچیدگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں، اور ان متنوع تشریحات، سماجی عوامل اور ثقافتی اثرات کا جائزہ لیتے ہیں جن کا مذہب کی تشکیل میں عمل دخل ہے۔ اس تاریخی سیاق و سباق کی چھان بین کرتے ہیں جس میں اسلامی تعلیمات کا ارتقاء ہوا، وہ اسلام کے ارتقاء کی ایک جامع تفہیم فراہم کرتے ہیں، جس سے کہ حد سے زیادہ آسان بیانیوں کے لیے چیلنج پیدا ہوتا ہے، کیونکہ اسلامو فوبیا کے فروغ میں ان کا کردار بڑا اہم ہے۔

 ترقی پسند اسکالر اسلامی فکر کے پیچیدہ، متضاد اور کثیر جہتی ارتقاء کا جائزہ لیتے ہیں، بشمول مذہبی، سماجی، سیاسی، اور ثقافتی عوامل کے، جن کا اسلام کے اصولی نصوص یعنی قرآن اور حدیث کی تدوین اور تشریح میں بڑا اثر رہا ہے۔ یہ نقطہ نظر اسلامی تعلیمات کی ایک محتاط تفہیم کو جنم دیتا ہے، جس سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور اسلامو فوبک بیانیہ کا جواب ملتا ہے، جس نے وسیع تر سیاق و سباق کو نظر انداز کرتے ہوئے اسلامی فکری روایت کو کمزور کیا ہے۔

 اس کے برعکس، مشہور مسلم مبلغین اکثر اسلام کے حوالے سے ایک خفت پسند نقطہ نظر رکھتے ہیں، جس میں کچھ منتخب آیات یا غیر تاریخی تشریحات پر توجہ دی جاتی ہے، جس سے پدرسرانہ اور بالادست عقائد و نظریات کو تقویت ملتی ہے۔ اس خفت پسندانہ نقطہ نظر میں ان پیچیدہ تاریخی اور ثقافتی عوامل کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جن کا اسلامی تعلیمات میں عمل دخل ہے، جس کے نتیجے میں اسلام کی ایک نامکمل اور مسخ شدہ تعبیر نے جنم لیا۔ اس طرح کا نقطہ نظر اسلامو فوبک بیانیہ کو تقویت دیتا ہے جو اسلام کو جبلی طور پر جابرانہ، پسماندہ، اور مغربی لبرل جمہوری اقدار کا دشمن بنا دیتا ہے۔

 تنقیدی سوچ اور فکری مشق:

 ترقی پسند مسلم اسکالر تخلیقی، تنقیدی سوچ اور فکری تدبر کو اسلام کے مطالعہ میں ضروری ہتھیار مانتے ہیں۔ باریک بین تجزیہ کر کے وہ کئی قسم کی تشریحات پیش کرتے ہیں اور رجعت پسند نظریہ کو چیلنج کرتے ہیں جو اکثر اسلامو فوبیا کو ہوا دیتے ہیں۔

 ترقی پسند اسکالر اسلامی نصوص کی جامع اور محتاط تعبیر کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ قرآن اور حدیث وسیع اور بعض اوقات باہمی متضاد پیغامات پر مشتمل ہیں، جن کی تعبیر جامع انداز میں ان کے تاریخی سیاق و سباق کے دائرے میں رہ کر انصاف، ہمدردی اور مساوات کے اعلیٰ ترین اصولوں کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نقطہ نظر اسلام کے بارے میں سیاق و سباق کے لحاظ سے زیادہ حساس تفہیم کو جنم دیتا ہے، جو کہ سادہ اور شدید لفظ پرسانہ تشریحات سے بالاتر ہے کیونکہ اس سے اسلامو فوبیا کو فروغ ملتا ہے۔

 بدقسمتی سے، کچھ مشہور مسلم مبلغین اکثر اسلامی نصوص کے حوالے سے خفت پسندانہ اور غیر تنقیدی نقطہ نظر کے حامل پائے جاتے ہیں، اور وہ حد سے زیادہ جذباتی اور اعتقادی تشریحات پر انحصار کرتے ہیں جس سے پدرسری اور بالادستی کے نظریات کو تقویت ملتی ہے۔ اس نقطہ نظر میں ان تاریخی اور ثقافتی سیاق و سباق کی گنجائش نہیں رہتی جن میں ان نصوص کی تدوین ہوئی اور پھر ان کا نفاذ عمل میں آیا، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی ایک سطحی تفہیم پیدا ہوتی ہے جن سے نقصان دہ دقیانوسی تصورات کا جنم ہو سکتا ہے۔ اسلام کی سادہ اور غیر تنقیدی تعبیرات کو فروغ دے کر، یہ مبلغین نادانستہ طور پر اسلامو فوبک بیانیہ کو بڑھاوا دیتے ہیں جو اسلام کو موروثی طور پر پدرسرانہ، بعض اوقات متشدد، اور جدید اقدار کا دشمن مانتا ہے۔

جامعیت اور صنفی مساوات کا فروغ:

 ترقی پسند اسلام پر مبنی علمی نقطہ نظر، اسلامی فریم ورک کے اندر جامعیت اور صنفی مساوات کا حامی ہے۔ ترقی پسند علماء مانتے ہیں کہ انصاف، ہمدردی اور مساوات کے قرآنی اصول اسلام کی مزید جامع تفہیم کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ وہ پدرسرانہ تعبیرات کو چیلنج کرتے ہیں اور ان روایتی اصولوں کی از سر نو تحقیق و تفتیش کا مطالبہ کرتے ہیں جو صنفی عدم مساوات کے حامی ہیں۔

 ترقی پسند اسکالروں کا ماننا ہے کہ جب سیاق و سباق کے اندر جامع انداز میں دیکھا جائے تو قرآن اور حدیث صنفی مساوات کی بنیاد فراہم کر سکتے ہیں، جس میں صنف سے قطع نظر تمام انسانوں کی یکساں قدر اور وقار پر زور دیا گیا ہو۔ وہ ان مثالوں پر روشنی ڈالتے ہیں جن میں خواتین نے ابتدائی اسلامی تاریخ میں بااثر کردار ادا کی ہیں، بشمول علماء، کاروباری شخصیات اور سیاسی رہنما کے۔ ان مثالوں پر زور دیتے ہوئے، ترقی پسند اسکالر ان پدرسرانہ تعبیرات کو چیلنج کرتے ہیں جو خواتین کو پسماندہ بناتی ہیں اور ان کے حقوق اور آزادیوں کو محدود کرتی ہیں۔

 اس کے برعکس، کچھ مشہور مسلم مبلغین اکثر اسلام کی پدرسرانہ تفہیم کا پرچار کرتے ہیں جو صنفی درجہ بندی کو تقویت دیتی ہے اور خواتین کے حقوق اور آزادیوں کو محدود کرتی ہے۔ یہ نقطہ نظر نہ صرف مسلم خواتین کو حاشیہ پر ڈالتا ہے بلکہ اسلام کے دقیانوسی تصورات کو موروثی طور پر جابرانہ اور زن بیزار ثابت کرکے اسلامو فوبیا کو فروغ دیتا ہے۔ جامعیت اور صنفی مساوات کو فروغ دینے میں ناکام ہونے کے سبب یہ مبلغین نادانستہ طور پر اسلامو فوبک بیانیہ کو ہوا دیتے ہیں جو اسلام کو مغربی لبرل جمہوری اقدار کا دشمن مانتا ہے، خاص طور پر خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات کے حوالے سے۔

 مذہبی تکثیریت، بین المذاہب مکالمہ اور اتحاد کی تعمیر:

 ترقی پسند مسلم اسکالر مذہبی تکثیریت کو مانتے ہیں، بین المذاہب مکالمے میں فعال کردار ادا کرتے ہیں اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں اور خود اسلام کے اندر مختلف روایت کی پیروی کرنے والوں کے درمیان افہام و تفہیم اور باہمی تعاون کا رشتہ قائم کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ اس کے لیے مشترکہ بنیاد تلاش کرتے ہیں اور مشترکہ اقدار پر زور دیتے ہیں، ایک ایسے معاشرے کے لیے کام کرتے ہیں جس میں باہمی احترام اور ہم آہنگی کا راج ہو۔ بین المذاہب مکالمے کو فروغ دے کر، ترقی پسند اسکالر مسلمانوں کو انسان دوست بناتے ہیں، دقیانوسی تصورات کو ختم کرتے ہیں، اور جہالت اور خوف پر مبنی اسلاموفوبک بیانیہ کو چیلنج کرتے ہیں۔

 ترقی پسند علماء بین المذاہب مکالمے کو متنوع مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ بامعنی مکالمے کا ایک موقع سمجھتے ہیں۔ وہ نہ صرف متعدد سطحوں (ما بعد الطبعیات، فلسفیانہ اور تفسیریاتی) پر مذہبی تکثیریت کی ناگزیریت کو تسلیم کرتے ہیں، بلکہ اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ مذہبی تنوع آج کی عالمگیر دنیا میں ایک حقیقت ہے اور سماجی ہم آہنگی کے لیے افہام و تفہیم اور احترام کو فروغ دینا ضروری ہے۔ بین المذاہب مکالمے میں شامل ہو کر، وہ محبت و ہمدردی کی فضا قائم کرتے ہیں، غلط فہمیوں کو دور کرتے ہیں اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دیتے ہیں۔

 ان مشترکہ اقدار کو اجاگر کرتے ہوئے، وہ اس تصور کو چیلنج کرتے ہیں کہ اسلام دیگر مذہبی روایات کے مقابلے میں فطری طور پر بالادست نظریہ کا حامل ہے، اس طرح وہ تقسیم اور خوف پیدا کرنے والے اسلامو فوبک بیانیوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔

اس کے برعکس، مشہور مسلم مبلغین اکثر اسلام کے حوالے سے بالادستی اور امتیازی حیثیت کا نظریہ رکھتے ہیں، مذہبی برتری اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے بیگانگی کے احساس کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر اسلام فوبک بیانیہ کو تقویت دیتا ہے جو اسلام کو عدم روادار اور مذہبی تنوع اور بقائے باہمی کا دشنم مانتا ہے۔ بین المذاہب مکالمے میں بامعنی طور پر شامل نہ ہو کر اور اسلام کی خفت پسند اور بالادست تعبیر کو فروغ دیکر یہ مبلغین مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالتے ہیں اور مغربی لبرل جمہوری ممالک میں اسلامو فوبیا کے فروغ کا سبب بنتے ہیں۔

 نتیجہ:

 اسلام کے مطالعہ کے علمی نقطہ ہائے نظر، بالخصوص جو ترقی پسند تشریحات پر مبنی ہیں، اسلامو فوبیا کا ایک طاقتور تریاق ہیں۔ یہ نقطہ ہائے نظر سیاق و سباق کی تفہیم، تنقیدی سوچ، جامعیت، مذہبی تکثیریت اور بین المذاہب مکالمے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی گہرائی اور پیچیدگی کو اچھی طرح جان اور سمجھ کر، ترقی پسند علماء دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرتے ہیں، افہام و تفہیم کو فروغ دیتے ہیں اور سماجی ہم آہنگی میں نئی جان ڈالتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اسلام کوئی یک سنگی وجود نہیں ہے بلکہ ایک متنوع اور کثیر جہتی مذہب ہے جو صدیوں میں پروان چڑھا ہے۔

 ترقی پسند علماء اسلام کی سادہ اور خفت پسند تشریحات سے آگے بڑھ کر سیاق و سباق کے تجزیے اور فکری مشق میں مشغول رہتے ہیں۔ وہ ان تاریخی، سماجی اور ثقافتی عوامل کو تسلیم کرتے ہیں جن کا اسلامی فکر کی تشکیل میں اپنا ایک کردار رہا ہے، اور اسلامو فوبک بیانیوں کو تقویت دینے والی تعبیرات کو چیلنج کرتے ہیں۔ مزید برآں، وہ اسلامی فریم ورک کے اندر جامعیت اور صنفی مساوات کو فروغ دیتے ہیں، پدرسرانہ اصولوں کو چیلنج کرتے ہیں اور مساوات پسند معاشرے کی وکالت کرتے ہیں۔

 بین المذاہب مکالمے میں شامل ہو کر، وہ محبت و ہمدردی کی فضا قائم کرتے ہیں اور غلط فہمیوں کو دور کرتے ہیں۔ تقسیم اور خوف پھیلانے والے اسلامو فوبک بیانیوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ مشترکہ اقدار اور اصولوں پر زور دیتے ہیں، ہمدردی کو فروغ دیتے ہیں اور غلط فہمیوں کو دور کرتے ہیں۔ ان ترقی پسند نقطہ ہائے نظر کو بروئے کار لا کر ہم ہمدردی کو فروغ دے سکتے ہیں، اسلامو فوبک بیانیہ کو ختم کر سکتے ہیں، اور ایک زیادہ جامع اور ہم آہنگ معاشرے کی تعمیر کے لیے کام کر سکتے ہیں جہاں اسلامو فوبیا کی کوئی جگہ نہ ہو۔

English Article: Embracing Scholarly Approaches to Islam: A Progressive Path to Combat Islamophobia

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/approaches-progressive-path-combat-islamophobia/d/130929

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..