New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 03:00 AM

Urdu Section ( 19 Jun 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Anti- Muslim Cinema, a New Trend Nurturing Under Hindutva Culture مسلم مخالف سنیما، ہندوتوا کلچر کے تحت پروان چڑھنے والا ایک نیا رجحان

سید علی مجتبیٰ، نیو ایج اسلام

 12 جون 2023

 حالیہ برسوں میں ہندوستانی سنیما میں مسلم مخالف نفرت انگیز فلموں کا رجحان پروان چڑھا ہے۔ بالی ووڈ فلم انڈسٹری پچھلے نو سالوں میں مسلمانوں کی مسخ شدہ تصویر کو فروغ دے رہی ہے اور 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اس طرح کے پلاٹ پختہ ہو چکے ہیں۔

 ان سالوں میں بننے والی فلموں میں شامل ہیں؛ کشمیر فائلز (2022) پدماوت (2018)، لپ اسٹک انڈر مائی برکھا (2016)، تانہاجی (2020)، اور حال ہی میں دی کیرالہ سٹوری (2023) فرحانہ وغیرہ۔ ان تمام فلموں میں ایک مسلم مخالف اسلام مخالف جذبہ ہے جس میں ہندوستانی مسلم معاشرے کو ایک وحشی، جابرانہ، سخت، غیر مہذب مذہب کی پیروی کرنے کے لیے ملامت کی گئی ہے۔ ایسی فلموں کا مقصد ہندوستان کے پورے سماجی تانے بانے کو مستقل طور پر نقصان پہنچانا ہے۔

 بالی ووڈ ایک طویل عرصے سے ہندوستانی مسلمانوں پر حملے کے لیے سنیما کا ذریعہ استعمال کر رہا ہے۔ اس طرح کی فلمیں آر ایس ایس اور بی جے پی کے خفیہ ایجنڈے کو پورا کر رہی ہیں جن کا مقصد ہندو راشٹر کی تشکیل دینا ہے، جہاں مسلمان تیسرے درجے کے شہری بن جائیں گے جن کے حقوق محدود اور ذرائع بھی محدود ہونگے۔

 قبل ازیں بالی ووڈ کو ہندو مسلم بھائی چارے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے والی فلمیں بنانے کے لیے جانا جاتا تھا۔ ہندوستان کی آئینی اقدار کو فروغ دینے کے لیے حکومت ان فلموں کو ٹیکس فری بھی قرار دیتی تھی۔ اب تازہ ترین رجحان ایسی فلمیں بنانے کا ہے جو معاشرے میں نفرت اور تقسیم کو فروغ دیں اور ایسی فلموں کو ٹیکس فری بنایا جائے۔ یہ ہندوستان میں ایک تشویشناک رجحان ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو ولن بنانے کے لیے سنیما آرٹ کا استعمال کر رہا ہے۔

 اس طرح کی فلمیں بنانے کا ایک اور مقصد لوگوں کے ذہنوں کو حقیقی مسائل سے ہٹانا ہے، مثلاً بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور معاشی بدحالی اور اس طرح کی دوسری چیزیں۔ مقامی میڈیا ایسی فلموں کی تشہیر اور ملک کے سیاسی ماحول کو بدلنے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ میڈیا معیشت یا دیگر اہم مسائل پر بحث کرنے کے بجائے نئی ریلیز ہونے والی مسلم مخالف فلم کے بارے میں بات کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو انہیں پر بات کرنے میں مصروف رکھتا ہے اور اصل مسائل کو بھولا دیتا ہے۔

 کرناٹک انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے کھل کر فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ کی تشہیر کی۔ انہوں نے کرناٹک کے بلاری میں ایک ریلی میں بھیڑ سے کہا۔ دی کیرالہ اسٹوری دہشت گردی کی سازش پر مبنی ہے۔ یہ دہشت گردی کی بدصورت حقیقت کو ظاہر کرتی ہے اور دہشت گردوں کے منصوبوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ انہوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ جا کر "اس بدصورت سچائی" کو دیکھیں۔

 مودی کے کھلے عام اس رسوا کن فلم کی تشہیر کے بعد بی جے پی کے کئی سیاستدان بھی اس فلم کی حمایت میں سامنے آئے۔ دی کیرالہ اسٹوری بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں جاری کی گئی تھی اور اسے ٹیکس فری قرار دیا گیا تھا۔ نتیجے کے طور پر، اس فلم نے نفرت پر مبنی فلموں کی مقبولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاکھوں کمائے۔ کشمیر فائلز کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے، جس نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور ہندوستانی معاشرے کو کامیابی سے پولرائز کرنے کے لیے بھاری رقم کمائی۔

 سنیما میں، کاروباری فارمولے آزمائے جا رہے ہیں اور جس قسم کی فلم زیادہ پیسہ کماتی ہے اسے مختلف ترتیبوں اور تبدیلیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ پیسہ کمایا جا سکے۔ سنیما پیسہ کمانے کا ایک تیز ترین ذریعہ ہے۔ یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جہاں ایک چھوٹی سی سرمایہ کاری سے زیادہ منافع کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ مثالیں کشمیر فائل اور دی کیرالہ اسٹوری ہیں۔

 مسلم مخالف فلم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ واقعات کو توڑ مڑوڑ ر پیش کرتی ہیں اور اسے ایک بڑے تاریخی تناظر میں نہیں پیش کرتیں۔ یہ فلمیں تاریخ کے بارے میں سامعین کے ذماغ میں الجھن پیدا کرتی ہیں اور حکمران جماعت کے اکثریت پسند سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہیں۔ کشمیر فائلز کے معاملے میں، فلم نے اس کے لیے کشمیری مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا، جب کہ انھوں نے دراصل اقلیتی ہندوؤں کا تحفظ کیا تھا۔ دی کیرالہ اسٹوری میں بتایا گیا ہے کہ 32,000 ہندو خواتین کو اسلام قبول کروا مر عراق اور شام بھیج دیا گیا تاکہ وہاں لڑنے والے جہادیوں کی خدمت کی جا سکے۔ جبکہ مبینہ طور پر الزام یہ ہے کہ ایسی سرگرمیوں میں صرف 3 خواتین ملوث پائی گئیں، جن میں سے 2 مسلمان تھیں اور ایک ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔

 ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی فلم انڈسٹری نازی جرمنی کے نقش قدم پر چل رہی ہے تاکہ سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے سامعین کے ایک مخصوص طبقے کو متزلزل، کنٹرول اور اثر انداز کیا جا سکے۔ "بڑی جھوٹ" کی حکمت عملی کا استعمال ہندو عوام کو برین واش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کے تئیں بے حسی پیدا کریں اور ملک کی تمام برائیوں کے لیے ان سے نفرت کرتے ہیں۔

 ایک اور تشویشناک رجحان سنسر بورڈ کے ارکان کا کردار ہے جو مسلمانوں کے تئیں نفرت انگیز فلموں کو اسکریننگ سرٹیفکیٹ دیتے ہیں۔ سنسر بورڈ کے ارکان حکومت کے چنے ہوئے ہیں اور حکمران جماعت کے نظریے کے وفادار ہیں۔ وہ ایسی فلموں کی نمائش کا سرٹیفکیٹ دیتے ہیں اور معاشرے پر ان کے اثرات کو نظر انداز کرتے ہیں۔

 اس سے قبل سنسر بورڈ اس طرح کی فرقہ وارانہ فلموں کی نمائش کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ لیکن اب بی جے پی کے دور حکومت میں اس قسم کی فلموں کی نمائش کی اجازت ہے حالانکہ وہ ملک میں برادریوں کے خلاف دشمنی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔

 یہ نسل در نسل تباہی ہے جو بھارت میں نفرت انگیز فلموں کے ذریعے بالی ووڈ پھیلا رہا ہے۔ یہ ہندوستانی سماج کو اس سطح تک بانٹ رہا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ یہ فلمیں بہت احتیاط سے تیار کی گئی ہیں، منظر در منظر، اس ارادے کے ساتھ کہ جو بھی دیکھے گا وہ کہانی کے پروپیگنڈے کا شکار ہو جائے گا۔ سامعین اس طرح کی فکشن فلموں کو سچ سمجھ کر قبول کرتے ہیں اور آخر کار خود ہی فلم کے کردار بن جاتے ہیں۔

 ان فلموں سے جس قسم کی نفرت، جس قسم کی بدنیتی اور جس قسم کی عصبی حرارت کو فروغ دیا جا رہا ہے وہ ملک میں دراڑیں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں، اسے ایک ملک دشمن سرگرمی کہا جا سکتا ہے۔ یہ فلمیں فرقہ وارانہ خطوط کے درمیان خلیج کو بڑھا رہی ہیں، جس سے ہندوستانی معاشرے میں نفرت کا ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ ہندوستانی سنیما کے بدلتے رنگوں کا یہ پہلو ہندوستانی شہری دیکھ رہے ہیں لیکن کوئی بھی ایسے خطرناک رجحان کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کرتا۔ یہ آج کے ہندوستان کی تلخ حقیقت ہے۔

 English Article: Anti- Muslim Cinema, a New Trend Nurturing Under Hindutva Culture

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/anti-muslim-cinema-hindutva-culture/d/130026

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..