ارشد عالم، نیو ایج اسلام
27 ستمبر 2022
حکومت کی جانب سے پردے کی
لازمی شرط سے بہت سی خواتین تنگ آچکی ہیں
اہم نکات:
1. مہسا امینی، جو ایرانی
اخلاقی پولیس کی شدید مار پیٹ سے مر گئی، اس مزاحمت کی علامت بن گئی ہے
2. پردہ پارسا اور غیر
پارسا مسلم خواتین کے درمیان ایک تقسیم پیدا کرتا ہے، جس میں تقویٰ کی تعریف تنگ
فرقہ وارانہ انداز میں کی جاتی ہے۔
3. اسلامی اخوان المسلمین
اس پردہ کو قائم کرنے میں کامیاب رہی جس کے ذریعے مسلم مذہبیت کو دیکھا جانا
چاہئے، اگرچہ بہت مختلف طریقوں سے۔
4. ایرانی خواتین کہہ رہی
ہیں کہ مذہبی ہونے کے اور بھی طریقے ہیں؛ پردہ مذہبیت کا نشان نہیں ہونا چاہیے۔
-----
An
undated picture obtained from social media shows Mahsa Amini. (Reuters)
----
ایران کی بہادر خواتین
دوبارہ سڑکوں پر آ رہی ہیں۔ جیسا کہ اب کچھ دہائیوں سے یہ ان کا معمول رہا ہے۔ اس
مرتبہ ایک بار پھر، مطالبہ حجاب کے جبرا نفاذ کے خلاف ہے، جو کہ ایران میں ایک
قانون ہے۔ اخلاقی پولیس کی شدید مار پیٹ سے مرنے والی ایک کرد لڑکی مہسا امینی
مزاحمت کی علامت بن گئی ہے۔ نہ صرف ان خواتین کے لیے جو اپنے حجاب جلا رہی ہیں
بلکہ ان حجابی خواتین کے لیے بھی جو ایرانی حکومت کی جانب سے خواتین پر عمومی طور
پر عائد پابندیوں سے عاجز آ چکی ہیں۔ ایران کے تقریباً تمام حصوں میں مظاہرے پھوٹ
پڑے ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی میں مظاہرے کیے جا
رہے ہیں۔ تقریباً 41 پرامن مظاہرین ایرانی حکومت کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ لیکن
پھر بھی مظاہروں کے تھمنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ ایران ایک نوجوان ملک ہے، جس کی
آبادی کا تقریباً 60 فیصد حصہ 30 سال سے کم کے شہریوں پر مشتمل ہے۔ تقریباً ہر
جگہ، مظاہروں کی قیادت خواتین کر رہی ہیں، خاص طور پر یونیورسٹیوں کے اندر، جہاں
طلبہ کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے۔ تقریباً ہر جگہ، ان مظاہروں کی حمایت مردوں نے
کی ہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ہر عمر اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق
رکھنے والی خواتین بھی اس کی حمایت میں اتر چکی ہیں۔ یہ احتجاج اب صرف لازمی حجاب
تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ اب حکومت کی تبدیلیں کے مطالعہ میں بدل رہا ہے۔
ایران میں ایک وقت تھا جب
باپردہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ انہیں اسکولوں، کالجوں میں جانے
کی اجازت نہیں تھی اور وہ پردے کے ساتھ کام پر نہیں جا سکتی تھیں۔ خواتین ان
احتجاجات کا ایک بہت اہم حصہ تھیں جنہوں نے بالآخر شاہ کا تختہ الٹ دیا۔ انہوں نے
اسلامی حکومت کا خیرمقدم کیا لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے ایک اسلام
پسند علما کی حکومت کا انتخاب کیا ہے جو خواتین کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔
خواتین تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور کام کر سکتی ہیں لیکن پردے کی علمبردار بنے
بغیر نہیں، جوکہ شریعت کا ایک ایسا نشان ہے جو بالآخر زندگیوں، جگہوں اور ذہنوں کو
الگ کر دے گا۔ خواتین کے پاس اس علیحدگی کی اپنی تشریح ہے۔ کچھ اس کی حمایت کرتی
ہیں لیکن کچھ اس کی حمایت نہیں کرتیں۔ لیکن ان مظاہروں سے جو بات تیزی سے واضح ہو
رہی ہے وہ یہ ہے کہ نقاب پہننے والی خواتین بھی اس کے جبرا نفاذ کے خلاف نکل آئی
ہیں۔
مصر میں اخوان المسلمین
نے کبھی بھی حقیقی حکومت کا مزہ نہیں چکھا سوائے اپنے اس مختصر سے وقت کے جب محمد
مرسی صدر بنے تھے۔ لیکن اس سے بہت پہلے، تعلیمی اداروں پر ایک بہت ہی موثر گرفت کے
ذریعے، اخوان نے بڑی تعداد میں خواتین پر پردہ مسلط کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
تحریک مساجد وغیرہ کے ذریعے خواتین نے ہی رضاکارانہ طور پر پردہ کیا، پہلے مساوات
کی علامت کے طور پر لیکن بعد میں انہوں نے اس کا استعمال اسلام پرستی کے سیاسی
پرچم کے طور پر کیا۔ ایران میں اس عمل کی باگ ڈور اعلی حکام کے ہاتھوں میں تھی،
ریاست نے لازمی حجاب کا قانون نافذ کیا، جس کی اخوان کی قیادت نے بھرپور حمایت کی۔
لیکن جو چیز دونوں میں مشترک تھی وہ علامتی تھی جو پردے کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ سب
سے پہلے، اس نے پردہ دار خواتین کو 'کم' مسلم خواتین/معاشرے سے نشان زد کیا۔ دوسرا
یہ کہ پردہ کو مغرب دشمنی، جدیدیت اور مغربیت کے تقاضوں کے سامنے جھکنے سے انکار
کی علامت بنا دیا گیا۔ پردہ ایک اسلامی صداقت کو اپنانے کی خواہش بن گیا۔ اگرچہ
کسی کو ایسی اصطلاحات سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن یہ نظریات پہلے بھی حجاب کی
سیاست کا حصہ تھے اور آج بھی یقیناً ہیں۔
Women
hold up signs depicting the image of 22-year-old Mahsa Amini, who died while in
the custody of Iranian authorities, during a demonstration denouncing her death
outside the UN offices in Arbil on September 24, 2022. (AFP)
------
اب تک مصری ماڈل زیادہ
کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ وہاں حجاب پہننا ضروری نہیں ہے اور اس لیے یہ دلیل دی جا
سکتی ہے کہ خواتین اسے اپنی مرضی سے پہن رہی ہیں۔ تاہم جبر کی کئی شکلیں ہیں۔ 1980
اور 1990 کی دہائیوں میں ایسی خواتین کے بارے میں کی گئی تحقیق سے ہمیں واضح طور پر
یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح بے پردہ خواتین کو اسلامی اخوان المسلمین کے اراکین نے
عوام میں طعنہ دیا اور ان کا مذاق اڑایا۔ یعنی ریاست نے حجاب مسلط تو نہیں کیا تھا
لیکن اخوان المسلمین نے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ حجاب نہ پہننا بہت سی
خواتین کے اختیار میں نہیں رہ گیا تھا۔ جب ہم اپنی مرضی سے پردہ کرنے کی بات کرتے
ہیں، تو ہمیں اس سماجی تناظر کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے جس میں اس 'مرضی' کا
استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایران میں احتجاج قطعی طور پر ریاست مخالف ہو گیا ہے
کیونکہ وہاں اس نظریہ اور پسند کا وہم موجود نہیں ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ
چالیس سال سے زائد عرصے تک اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ اپنی ہی خواتین کو پردے
کی مطلق ضرورت پر قائل نہیں کر سکی۔ دوسری طرف اخوان المسلمین بغیر کسی حکومتی
طاقت کے پچھلے پچاس سالوں سے اس تسلط کو قائم رکھنے میں کامیاب ہے۔
موجودہ ایرانی تحریک کا
کیا نتیجہ نکلے گا یہ فیصلہ کرنا ابھی جلد بازی ہوگی۔ مظاہرین جیت سکتے ہیں یا
نہیں بھی جیت سکتے۔ یا وہ کچھ جزوی اصلاحات کے وعدوں کے ساتھ ہی اپنی تحریک کو ختم
کرنے پر بھی آمادہ ہو سکتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ 41 مظاہرین مارے جا چکے
ہیں، یہ سمجھنا صحیح ہے کہ ایرانی حکومت نے اس تحریک کا سر کچلنے کیلئے ابھی اپنی
پوری طاقت نہیں جھونکی ہے۔ ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جب مظاہرے شروع ہوئے تو
ایرانی صدر رئیسی بیرون ملک تھے، اقوام متحدہ میں تھے، اس لیے اگر اندرون ملک کچھ
ہاتھ سے نکل جاتا تو بین الاقوامی پریس کا سامنا کرنا پڑتا۔ لیکن اب چونکہ وہ واپس
آ گئے ہیں، لہذا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ حکومت اس سے بھی زیادہ طاقت استعمال کرنے
سے باز نہیں آئے گی۔
ہمیں اس کو سیکولرازم اور
اسلامی بنیاد پرستی کے درمیان کشمکش کا نام دے کر اپنے تجزیے میں زیادہ سادگی پسند
ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایرانی خواتین کی آوازیں، جو ہم نے اب تک سنی ہیں، اس سادہ
تخمینہ سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔ بہت سی خواتین ہیں، شاید ان میں سے اکثریت،
سیکولرازم کو اپنی پہچان نہیں بنانا چاہتی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام وہ فریم ہے جس
کے ذریعے وہ دنیا کو دیکھتے ہیں لیکن ان کا اسلام ایسا ہے جو خود کو زبردستی مسلط
نہیں کرتا۔ یعنی مذہبی خواتین اس جدوجہد کا حصہ ہیں لیکن وہ حکومت کی طرف سے لوگوں
کی مرضی کے بغیر ہر کسی پر حجاب مسلط کرنے کے خلاف ہیں۔ وہ اس وحشیانہ انداز کے
لیے حکومت کے خلاف ہیں جس میں انہوں نے مظاہرین کے ساتھ برتاؤ کیا ہے۔ وہ اس لڑائی
میں اس لیے نہیں ہیں کہ وہ ایک سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ
وہ اسلامی مذہبیت کے ایک واحد مظہر کے خلاف ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمان خواتین
کو پردے کے ذریعے اپنے اسلام کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور یہ کہ مذہبیت
انفرادی سطح پر ایک انتہائی نجی شئی ہے۔ اور پردہ یا اس کی غیر موجودگی وہ پیمانہ
نہیں ہے جس سے کسی کے اسلام کو ناپا جائے۔
----
English
Article: Anti-Hijab Protests: Iranian Women Lead the Way,
Again
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism