سہیل انجم
7دسمبر،2022
پٹنہ ہائی کورٹ کے ایک جج
سندیپ کمار کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ تین روز کے اندر تقریباً پچیس
لاکھ افراد اس ویڈیو کو دیکھ چکے ہیں۔ یہ ویڈیو کیا ہے ایک انقلابی آواز ہے۔ قانون
کے نام پر لاقانویت پھیلانے کے خلاف ایک سخت انتباہ اور وارننگ ہے۔ اس بلڈوزر کلچڑ
کے خلاف شید قسم کا ایکشن ہے جو ملک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔یہ ویڈیو’بلڈوزر پر یمی‘ پولیس محکمہ کا زبردست
محاکمہ ہے سرزنش ہے، گوشمالی ہے۔ قابل مبارکباد ہیں جسٹس سندیپ کمار جنہوں نے
مبینہ زمین مافیا اور پولیس کی ساز باز سے ایک خاتون کے مکان کو بلڈوزر سے منہدم
کیے جانے کے خلاف سخت ایکشن لیا اور ایس پی ایسٹ، متعلقہ تھانے کے ذمہ دار، سرکل
آفیسر اور پولیس کے وکلا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے آٹھ دسمبر کو عدالت میں حاضر
ہونے کا حکم دیا اور یہ بھی کہا کہ ممکن ہوتو ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل کو بھی لایئے۔
انہوں نے پولیس کی جانب سے پیروی کرنے والے وکلا سے سخت لب و لہجہ میں کہا کہ پوری
بارات لے کر آئیے او رآنے سے پہلے میرے اس فیصلے کامطالعہ کرلیجیے جو میں نے اس سے
قبل اس قسم کے ایک مقدمے میں سنایا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ پٹنہ کے علاقے اگم کنواں
میں پولیس نے ایک خاتون کامکان بلڈوزر سے منہدم کردیا اور اس کے بعد اس کے اہل
خانہ کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرلی تاکہ وہ لوگ ڈر کر مکان خالی کردیں۔
جسٹس سندیپ کمار کے ان
گرج دار ریمارکس کی پورے ملک میں دھوم مچی ہوئی ہے اور ہر شخص یہ کہتا ہوا
سناجارہا ہے کہ جج ہوتو ایسا اور عدالتی کارروائی ہوتو ایسی۔ یوں تو یہ معاملہ
پٹنہ کا ایک مقامی معاملہ ہے اور اس کے مرکز میں زمین مافیا ہیں او ر پولیس سے ان
کی ساز باز ہے۔ لیکن اس کا پیغام بہار سے باہر پورے ملک میں گیا ہے۔ حالیہ مہینوں
میں بلڈوزروں سے مکانات کے انہدام کے تناظر میں مذکورہ واقعہ امید کی ایک روشن کرن
ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ دوسری عدالتوں میں بیٹھے فاضل جج حضرات بھی اسی رویے کا
مظاہرہ کریں گے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بلڈوزر سے پریم کامظاہرہ سب سے پہلے
یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کیا۔ پہلے انہوں نے ریاست میں غیر قانونی
طور پر تعمیر کیے جانے والے طاقتور افراد کے مکانوں او رکاروباری اداروں کو بلڈوزر
کروایا اور پھر اس کے بعد کچھ ان مسلمانوں کے مکانات میں تڑوادیے جنہوں نے بی جے
پی رہنما نپور شرما کے اشتعال انگیز بیان کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ اس
سلسلے میں سب سے زیادہ شہرت آلہٰ آباد کے جاوید محمد کے عالیشان مکان کے انہدام کے
واقعے کو ملی۔ جاوید محمد ویلفیئر پارٹی کے مقامی رہنما ہیں۔ انہوں نے اور ان کی
بیٹی نے سی اے اے کے خلاف ہونے والے احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔ وہ پولیس
اورحکومت کی نظروں میں تھے۔ لہٰذا جب احتجاج ہوا او رکچھ تشدد پسند بھی برپا ہوا
تو پولیس او ربلدیاتی اداروں کے ذمہ داروں نے ان کے مکان کو جو کہ ان کی والدہ کے
نام پر ہے زمین بوس کردیا۔جب اس پر ہنگامہ ہوا تو کہا جانے لگا کہ وہ ناجائز طریقے
سے بنایا گیا تھا۔ اسی طرح کانپور اور علی گڑھ میں بھی کچھ مسلمانوں کے مکانات کو
بلڈوزر کیا گیا۔ دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں ہندو تنظیموں کے ایک جلوس کے موقع
پر جب مسجد کے باہر شر پسندی کی جانے لگی او رمسلمانوں نے اس کی مخالفت کی تو اگلے
روز ان کی دکان اور مکان گرادیے گئے۔ مدھیہ پردیش کے کھرگون میں بھی مسلمانوں کے مکانات
گرائے گئے۔
آسام میں بھی مکانوں کو
منہدم کیا گیا۔ وہاں کئی مدارس کو بھی بلڈوزر سے توڑا گیا۔ حالانکہ عدالتوں کی
جانب سے بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف فیصلے سنائے گئے ہیں او رکہا گیا ہے کہ اگر کسی
کا مکان توڑنا ہوتو متاثرہ شخص کو تمام قانونی متبادل اختیار کرنے کا موقع دیا
جانا چاہئے۔مکانوں کا انہدام بالکل آخری قدم ہونا چاہئے او راس سے قبل انتظامیہ کی
یہ ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ متاثرہ شخص کی رہائش کا بندوبست کرے۔ سپریم کورٹ کے
جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وکرم ناتھ کی بینچ نے انہدام کے خلاف دائر ایک پٹیشن پر
سماعت کرتے ہوئے کہا کہ صرف قانون کے مطابق ہی کسی کامکان توڑا جاسکتا ہے انتقامی
جذبے کے تحت نہیں۔ گوہاٹی ہائی کورٹ نے آسام پولیس کی جانب سے پانچ افراد کے
مکانوں کو بلڈوزر کیے جانے کے خلاف دائر پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے اس کارروائی کی
مذمت کی او رکہا کہ سینئر پولیس افسر بھی مناسب حکم کے بغیر کسی کامکان نہیں توڑ
سکتے۔ گوہاٹی ہائی کورٹ کی چیف جسٹس آر ایم چھایا نے کہا کہ ’وہ پولیس محکمہ کے
سربراہ ہیں اس ملک میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا‘۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے
1985ء، 1995 ء اور 2010ء میں بھی الگ الگ فیصلوں میں بلڈوزر سے مکانوں کے انہدام
کے خلاف فیصلے دیے ہیں۔ ان فیصلوں میں کہا گیا ہے کہ رہائش زندگی گزارنے کے حق
کالازمی جزو ہے۔ دستور کی دفعہ اکیس اورانیس میں اس حق کی گارنٹی دی گئی ہے۔ دہلی
ہائی کورٹ نے بھی ایسی کارروائی کے خلاف فیصلہ سنایا ہے۔ لیکن ان فیصلوں کو نظر
انداز کرکے بلدیاتی اداروں کے قوانین کاسہارا لے کر مکانات توڑے جاتے رہے
ہیں۔بیشتر مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں انتقامی کارروائی
کے تحت مسلمانوں کے مکانات بلڈوزر کیے گئے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بلڈوزر کلچر ختم
ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا گیا او ردوسری ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے یوگی کی نقش
قدم پر چل کر بلڈوزر کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرناشروع کردیا۔ بلڈوزر بی
جے پی،آر ایس ایس او رہندوتووادی تنظیموں کے نزدیک بہت پسنددیدہ ہوگیا۔ بہت سے
مبصرین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اب بی جے پی نے بلڈوزر کو اپنا غیر اعلانیہ
انتخابی نشان بنا لیا ہے۔ بہر حال پٹنہ ہائی کورٹ کے جج کے سخت ایکشن نے بلڈوزر کے
استعمال کی سنگینی کودنیا کے سامنے واضح کردیا ہے۔ کیا اب بلڈوزر پر یمی حکومتوں
اور پولیس محکمہ کے رویے میں کوئی تبدیلی آئے گی یا اب بھی لوگوں کے مکانات کے
انہدام کا سلسلہ جاری رہے گا۔ بہر حال جسٹس سندیپ کمار مبارکباد کے مستحق ہیں۔
7دسمبر،2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism