شکیل شمسی
13 اگست 2020
منگل کی صبح کو فیس بک پر راحت بھائی کا ایک میسیج دیکھا، جس میں انھوں نے اپنے کورونا سے متاثر ہونے کی اطلاع دی تھی اور اپنے جلد صحت یاب ہونے کے لئے دعا کرنے کو کہا تھا۔ مگر شام پانچ بجے کے آس پاس ایک میسیج آیا کہ راحت اندوری اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ وہ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں آباد اردو داں طبقے کے پسندیدہ شاعر تھے۔ اس خبر کے آتے ہی فیس بک اور ٹوئیٹر پر ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا۔ بھلے ہی ان کے جنازے کو کاندھا دینے کے لئے چند افراد کو ہی اجازت ملی ہو، مگر سوشل میڈیا پر ان کے جنازے کو کاندھا دینے کے لئے ایک ہجوم امڈ پڑا تھا۔ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اردو کے چینلوں کے ساتھ ساتھ آج تک اور این ڈی ٹی وی جیسے بڑے چینلوں نے بھی اسپیشل پروگرام نشر کئے۔ غم و اندوہ کے اسی عالم میں مجھے ۷۰؍ کی دہائی میں راحت بھائی کے ساتھ گزرے وہ لمحات یاد آ رہے تھے جب وہ میرےچچا ناظر خیامی کے گھر آئے تھے۔ اتفاق سے اسی دن حسینی شاعرفضل نقوی مرحوم کے گھر پر بزم ذاخر کی ماہانہ طرحی نشست تھی۔اس میںناظر خیامی اور کرشن بہاری نور بھی اپنا کلام پڑھنے والے تھے۔میں اس زمانے میں شاعری کے معاملے میں طفل مکتب تھا ،میں نے ان کو اپنے اشعار سنائے اور انھوںنے میرا دل رکھنے کو کہا اچھے ہیں۔پھر ہم سب نے ان سے بھی اصرار کیا کہ شام کی نشست میں وہ بھی کچھ اشعار پڑھیں تو راحت بھائی بولے چلو کہیں سکون کی جگہ پر بیٹھتے ہیں۔ میں ان کو اپنے ساتھ لے کر کمپنی باغ کے باہر واقع گیانو(گیان چند) کے چائے خانے پر گیا۔ وہاں کی خصوصیت یہ تھی کہ چائے پینے کے لئے باہر پارک کے کچھ حصوں میں شام کو’ گیانو ‘کچھ کرسیاں اور بینچ ڈال دیا کرتے تھے۔ ہم لوگوں نے اس چائے خانے کا نام شانتی نکیتن رکھ دیا تھا۔ راحت بھائی کو وہ جگہ بہت پسند آئی اور وہیں بیٹھ کر انھوں نے بزم ذاخر کی طرحی نشست کے لئے پوری غزل کہی اور پھر شام کو انھوںنے اپنی غزل سنا کر زبردست داد و تحسین حاصل کی۔اسی بزم میں ناظر خیامی نے شعر پڑھا تھا
بس یہی خوف اس دور کے
فنکاروں میں
ہم نہ کھو جائیں کہیں میر
کے مدفن کی طرح
کرشن بہاری نور نے یو ں
مقطع کہا تھا
مسکراتے ہو مگر سوچ لو
اتنا اے نور
سود لیتی ہے مسرت بھی
مہاجن کی طرح
اس بزم میں راحت بھائی نے
جو غزل پڑھی اس کا ایک شعر مجھے یاد رہ گیا
رات کے پچھلے پہر روز ندی
کے اس پار
ایک تن اور تڑپتا ہے مرے
تن کی طرح
راحت بھائی کے لہجے میں
ان دنوں نہ تو انقلاب تھا ،نہ بغاوت تھی، نہ احتجاج تھا، نہ طنز تھا اور نہ ہی وہ
اہل سیاست پر نشانے لگاتے تھے، ان کی شاعری پوری طرح سے رومانیت میں ڈوبی ہوئی تھی
اور شعر پڑھنے کا انداز ایسا تھا کہ جیسے الفاظ کے ساتھ دل بھی باہر نکال کر رکھ
رہے ہوں۔پہلی بار جب میں نے ان کو لکھنؤ کے ایک بڑے مشاعرے میں سنا تھا تو انھوں
نے اس قطع کے ساتھ کلام پڑھنا شروع کیا تھا۔
کشتیاں موجوں میں طوفان
میں لنگر ڈوبے
جو بچے تھے وہ کنارے پہ
پہنچ کر ڈوبے
میں تو قطرہ تھا نظر کیسے
ملاتا ان سے
ایسی آنکھیں کہ سمندر کے
سمندر ڈوبے
اسی زمانے میں وہ یوں بھی
محبوب کی تعریف کرتے تھے
میں نے دیکھا ہے تجھے غور
سے اے جان غزل
میرو غالب ترے الجھے ہوئے
بالوں میں ملے
چاند کو ہم نے کبھی غور
سے دیکھا ہی نہیں
اس سے کہنا کہ کبھی دن کے
اجالوں میں ملے
شکل و صورت میں تو جیسے
بھی ہیں راحت صاحب
پھر بھی جب جب وہ ملے
زہرہ جمالوں میں ملے
ایک بار انھوں نے ایک مشاعرے میں جیسے ہی مطلع پڑھنا
شروع کیا
جھیل اچھا ہے؟ کنول ہے
اچھا ہے؟ جام اچھا ہے؟
تو سامعین کی طرف سے کسی
نے کہا جھیل اچھی ہوتی ہے، اس پر راحت صاحب نے کہا اتنی اردو مجھے بھی آتی ہے،
پہلے شعر سنئے پھر بولیئے۔ پھر انھوں نے مطلع پڑھا تو پورا ہال داد و تحسین کی
آوازوں سے گونج اٹھا
جھیل اچھا ہے؟ کنول اچھا
ہے؟ جام اچھا ہے؟
تیری آنکھوں کے لئے کون
سا نام اچھا ہے
ایسے ہی اشعار کی وجہ سے
وہ کالج کے اسٹوڈنٹس کے دلوں کی دھڑکن بن گئے تھے۔ وہ مجھ سے بہت محبت سے پیش آتے
تھے۔ جب جب وہ لکھنؤ میں میرے چچا کے مہمان ہوتے تو کہتے چلو شانتی نکیتن میں
چائے پی کر آتے ہیں، لیکن چچا ناظر خیامی کے انتقال کے بعد ان کا ہمارے گھر کی
طرف آنا جانا بند ہوگیا۔ پھرجب میں بھوپال دوردرشن میں تعینات ہوا تو ان سے
ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب میں نے دوردرشن کے لئے ایک بڑا مشاعرہ
ریکارڈ کیا ۔پھر جب۱۹۹۳ء
میں میرا ٹرانسفر دہلی ہوا تو چچا ساغر خیامی طنز و مزاح کی دنیا میں زبردست نام
کما چکے تھے ۔ راحت بھائی ان کے گھر بھی اکثر و بیشتر آیا کرتے تھے۔ جہاں ان سے
خوب گفتگو رہتی تھی۔ دہلی آکر مجھے بھی جب مشاعروں کا شوق چڑھا تو راحت بھائی سے
ملاقاتوں کاسلسلہ بڑھ گیا ۔کچھ برس قبل قطر کے ایک مشاعرے میں مجھے صدر مشاعرہ
بنایا گیا تو راحت بھائی ہر شعر پر مڑ کر کہتے تھے’’ شکیل ابھی میں مشاعرہ پڑھ رہا
ہوں، شعر بعد میں سنائوں گا۔‘‘ اسی مشاعرے میں انھوں نے لکھنؤ میں میرے ساتھ
گزارے ہوئے لمحات کا بھی بہت محبت سے ذکر کیا، جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ چالیس
پینتالیس سال گزر جانے کے بعد بھی ایک ایک بات ان کو بخوبی یادتھی،لیکن جب میں نے
مشاعرے پڑھنا بند کردئے اور خود کو پوری طرح سے صحافت سے وابستہ کر لیا تو راحت
بھائی سے ملنا جلنا بھی کم ہوگیا، لیکن ان سے جو دلی ربط تھا وہ کبھی ختم نہیں
ہوا۔ پینٹنگ کا ان کو بہت شوق تھا، مگر وہ اس فیلڈ میں نام نہیں کما سکے۔ نام
انھوںنے شاعری کی دنیا میں کمایا، مشاعروں کے ساتھ ساتھ سیکڑوں کوی سمیلن انھوں نے
پڑھے، فلمی دنیا کو بھی اپنے کلام سے روشن کیا۔ راحت بھائی تو مرگئے ،مگر ان کا
کلام ہمیں یقین ہے ہمیشہ زندہ رہے گا ۔
13 اگست 2020، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/an-artist-poet-qalandar-died/d/122631
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism