کنیز فاطمہ ، نیو ایج
اسلام
22مارچ،2024
آج قوم مسلم عجیب طرح کی
کشمکش اور خلجان کا شکار ہیں ۔ وہ دنیا کی طرف مائل ہوتے ہیں تو دین کا دامن چھوٹ
جاتا ہے اور دین کی راہ پر چلتے ہیں تو دنیا سے دور نکل جاتے ہیں ۔ جب وہ اپنے
ساتھ ظلم، ناانصافی اور دھوکا کرنے والوں کی پیروی کرتے ہیں تو ضمیر اندر سے طعن و
تشنیع کرتا ہے ۔ مسلم حکومتیں اور قیادتیں خود مظلوم مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیتیں
کیونکہ اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہیں اور مغرب کی تائید کے بغیر اپنے کمزور قدموں پر
کھڑی بھی نہیں ہو سکتیں ۔ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ انہیں
اسرائیل کے ظلم کے سامنے راحت رسانی سے بھی محروم رہنا پڑ رہا ہے اور اسی طرح
متعدد ممالک کے مسلم مہاجرین در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔
آج چھوٹے بڑے ۵۷ مسلم ممالک کی نا اہل ،
غیر نمائندہ ، بد دیانت اور بے حوصلہ حکومتوں اور قیادتوں کے خلاف شدید غم و غصے
نے مسلمانوں کو راہ راست پر عمل کرنے کی بجائے رد عمل کا خوگر بنا دیا ہے اور وہ
آگے بڑھنے اورصحیح لائحہ عمل تیار کرنے کی بجائے پیچھے مڑ کر دیکھنے پر مجبور ہو
گئے ہیں ۔ مگر تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں ہو رہا ۔ ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا کہ
’’مسلمانوں نے اسلام کی خدمت نہیں کی بلکہ اسلام ہی ہر مشکل وقت میں مسلمانوں کے
کام آیا ہے ‘‘۔دیکھا جائے تو آج بھی مسلمان الحمد للہ ہی اسلام ہی میں پناہ
ڈھونڈھ رہے ہیں ۔اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ بہت اچھی اور خیر کی بات ہے ۔
مگر سب سے زیادہ اہم اور
پریشان کن مسئلہ اتنہا پسندی ، شدت پسندی ، عدم رواداری اور تشدد کے بڑھتے معاملات
سے متعلق ہے ۔ آج قوم مسلم متعدد فرقوں میں بٹی ہوئی ہے اور بعض مسلم ممالک میں
بعض مسلم فرقوں کے افراد نے قانون کو ہاتھ میں لیکر اپنے ہی ملک کے خلاف بغاوت کی
اور کچھ نے اپنی نام نہاد خلافت کا اعلان کرکے دنیا کے مسلمانوں کی تائید حاصل
کرنے کی بھرپور کوششیں کیں ۔اسلام اور اسلامی اصطلاحات کے نام پر متعدد اتنہا پسند
اور مسلح تنظیمیں وجود میں آئیں اور پھر جہاد اور شریعت کے نام پر تشدد کا ایسا
کھیل کھیلا کہ دنیا بھر کے مسلمان واضح طور پر سمجھ گئے کہ تنظیمیں دہشت گرد ہیں
اور اسلام سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ داعش ، القاعدہ جیسی تنظیمیں کی جڑیں
بہت کمزور ہو چکی ہیں لیکن ابھی بھی ان کی طرف سے مواد پھیلایا جاتا ہے ، جن میں
نہ صرف غیر مسلموں کو قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے بلکہ اپنے فرقے سے الگ فرقے کے
مسلمانوں کو بھی واجب القتل قرار دیتے ہیں ۔وہ اپنے مسلح افراد کو مسجدوں اور امام
بارگاہوں میں بھیجتے ہیں تاکہ اللہ تعالی کے سامنے جھکے ہوئے بے گناہ نمازیوں پر
خود کش حملہ کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیں ۔
کتنی عجیب بات ہے کہ یہ
وحشیانہ، قاتلانہ اور خود کش حملے اس خدا کے بندوں پر کیے جاتے ہیں جو اپنے بندوں
کے ساتھ ان کے والدین سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے ۔یہ اتنے بہرے ، گونگے اور اندھے
کیسے ہو سکتے ہیں کہ ان کو اللہ تعالی کا یہ فیصلہ دکھائی نہیں دیتا کہ ’’ایک بھی
بے گناہ انسان کو جان سے مار دینے کا مطلب پوری انسانیت کو قتل کر دینے جیسا ہے
‘‘۔ سورہ مائدہ ۳۲۔
لیکن ان قاتلوں اور دہشت گردوں نے دین کا عجیب مذاق بنا رکھا ہے ۔ان کی نظر میں ان
کے سوا سارے لوگ یا تو کافر ہیں یا غیر مسلم اور پھر وہ کہتے ہیں کہ ان سب کو
مارنے کے بعد انہیں جنت میں ڈالا جائے گا ۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی ! اللہ کا شکر
ہے متعدد دہشت گرد تنظیمیں جو اسلام کے نام پر وجود میں آئیں تھیں ، ان میں اکثر
بہت بری طرح ناکام ہوئے اور تھوڑے جو بچے ہوں گے ، ان شاء اللہ وہ بھی اپنے ناپاک
منصوبوں میں ناکام ہو جائیں گے ۔
قوم مسلم میں اب ایک ایسی
عادت بلکہ فطرت ثانیہ بن چکی ہے کہ وہ حالات کی پیش بینی کرکے حالات کے دھارے کو
اپنے حق میں موڑنے کے بجائے ان پر اس وقت توجہ دیتے ہیں جب یہ دھارا نہیں اچھا
خاصا نقصان پہنچا چکا ہوتا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام مسلم ممالک ،
حکومتیں ، حکمران طبقے ، دانشور ، بیدار مغز صحافی اور باشعور عوام ملکر اسلام اور
مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی انتہاپسند تنظیموں کے امکان پر بر وقت تدبر کرکے
عالم اسلام کے مسلمانوں کو بڑے نقصانات سے بچاتے ۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ
صرف یہ بیانیہ نشر کر دیا گیا کہ ان سب کے پیچھے مغربی طاقتوں اور انگریزی
سامراجوں کی گھنونی سازشیں ہیں ۔ یہ ہماری روش بن چکی ہے کہ ہم اپنے برے احوال کے
اسباب اور کوتاہیوں پر غور کرنے کی بجائے ، ہم صرف دوسروں کو تمام مصیبتوں کا ذمہ
دار ٹھہرا دیتے ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے اندر اصلاح نہیں ہو پارہی اور پھر
اس لیے پریشانیاں گویا ہمارا مقدر بن چکی ہیں ۔
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے
:اِنَّ اللّٰہَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنفُسِہِمْ
(الرعد :11)
ترجمہ : ’’بیشک اللہ کسی
قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے”
قوم مسلم واقعی میں ایک عظیم
بحران کا شکار ہو چکی ہے لیکن پھر بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالی
نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ۔ قرآن کریم ہمیں مایوسی کی
بجائے امید کا چراغ جلاتے ہوئے اپنے احوال کو بدلنے اور انہیں عمدہ کرنے کی تعلیم
دیتا ہے ۔
اتنہاپسند اور تشدد پسند
تنظیموں نے دنیا بھر کے غیر مسلموں کے درمیان مسلمانوں کے متعلق اتنا بد ظن بنا
دیا ہے کہ اگر کہیں پر مظلوم مسلمان ظلم کے خلاف اپنا احتجاج یا اپنی صدا بلند
کرتے ہیں تو وہاں بھی یہ بد ظنی عام ہو جاتی ہے کہ یہ لوگ انتہاپسند ہیں اور پھر
کوئی ان کی حمایت میں کھڑا ہونے کے لیے جلدی تیار نہیں ہوتا ۔ اتنہاپسند تنظیمیں
بیرونی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی تحریکیں سوشل میڈیا پر اپنا کام کر رہی
ہیں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش میں لگی ہے ، اس لیے ضرورت ہے
کہ مسلم قیادت اور رہنما بالخصوص علمائے کرام ان باتوں پر توجہ فرماکر مسلمانوں کے
موجودہ مسائل کا حل نکالیں اور قوم مسلم کو منفی افکار کے بجائے مثبت افکار سے
روشناس کرائیں ۔ انہیں دین کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی جینے کے عمدے طریقے کو عام
کرنا ہوگا تاکہ قوم مسلم کی مسخ شدہ تصویر دنیا کے سامنے اپنی اچھی صورت پر آجائے
۔
اللہ تعالی سے اس مبارک
مہینے میں دعا ہے کہ قوم مسلم کے حالات کو بہتر کردے۔
--------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism