New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 01:53 PM

Urdu Section ( 27 March 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

All Islamic Fundamentals are Aimed at Military Preparation for Jihad مولانا مودودی کا نظریہ ‘ اسلام کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو جہاد کے لیے تیار کرنا ہے’ لیکن جہمور علما کی کیا موقف ہے

غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام

10 فروری، 2015

جہاد ہمیشہ ہی خود ساختہ جہادیوں اور بنیاد پرستوں کے ذریعہ غلط فہمی کا شکار رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انسانوں کے خلاف نفرت پھیلائے، ان کو ان کے بنیادی حقوق اور فطری مراعات سے محروم کیا اور ان پر عدل و انصاف اور امن وسلامتی کے دروازے کو بند کرکے  فساد اور انتشار پیدا کیا۔ مقدس اسلامی مصادر و مآخذ  کے نصوص کی جو انہوں نے  اشتعال انگیز غلط تشریح پیش کی ہے یہ در اصل ان کی ذاتی مفادات  اور حقیر مقاصد سے محرک ہے ۔ اس کی ایک سب سے بڑی مثال برصغیر پاک و ہند  میں اسلامی ریاست کی وکالت کرنے والے مولانا مودودی کی تحریروں میں جہاد، اسلامی ریاست اور دیگر بہت سے بنیاد پرست مذہبی عقائد کا بیان ہے۔

مولانا مودودی نے اسلامی معتقدات و نظریات  کی اس حد تک سیاسی تشریح کی کہ انہوں نے تمام اسلامی معتقدات و نظریات کو ایک سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا۔ انہوں نےاسلام کو امن و روحانیت کا ایک مذہب ہونے کے  بجائے، جہاد کے لیے ایک سیاسی نظریہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ، اور اس کے لیے انہوں نے  مذہبی مسائل میں مکمل طور پر بے بنیاد اور اشتعال انگیز بیانات دیے ہیں۔ انہوں نے  اس عبادت یعنی  نماز کے بارے میں مسلمانوں کی اجتماعی اتفاق رائے (اجماع) کو بھی چیلنج پیش کیا ہے جسے مسلمان اللہ کی رضا اور اس کا تقرب  حاصل کرنے کے لئے ادا کرتے ہیں۔لیکن مولانا مودودی نے  نمازکو "مسلمانوں کو جہاد کے لئے تیار کرنے کا آلۂ کار" قرار دیا اس سلسلے میں ان کااشتعال انگیزبیان اس طرح ہے:

"نماز جہاد کے لئے ایک تربیتی مشق ہے۔ زکوٰۃ (صدقہ) جہاد کے لئے ایک فوجی فنڈ ہے۔ روزہ فوجیوں کی طرح ایک تربیت ہے جنہیں جہاد کے دوران طویل مدت کھانے کے بغیر رہنا پڑتا ہے۔ حج بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیوں کی سازش کے لئے فطری اعتبار میں ایک بہت بڑی کانفرنس ہے۔ پس، نماز، روزہ، زکوٰۃ، اور حج کا حقیقی مقصد اسی جہاد کی تیاری اور تربیت ہے" (Fundamental of Islam صفحہ 250

مولانا مودودی نے ایک اسلامی ریاست کے قیام کی وکالت کی جہاں نام نہاد "اسلامی جہاد" اس وقت تک ہر مسلمان پر فرض ہوگا جب تک تمام روئے زمین پر اللہ کی حکومت قائم نہ ہو جائے، جہاں غیر مسلموں کے حقوق محدود کر دیے جائیں گے اور انہیں ان کے مذہب، رسومات، عبادات یا سماجی روایات پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جہاں "اسلامی جہاد" ریاستی امور شرکت کے ان کے حق کو تسلیم نہیں کریگا، جیسا کہ مولانا کی تحریروں میں اس کی مکمل وضاحت موجود ہے۔

مولانا مودودی نے تقریبا  ۱۲۰ کتابیں تصنیف کیں ہیں جن میں انہوں نے بنیاد پرست اسلام پسند نظریات کی عقلی اور فقہی سطح پر حمایت کی۔ اپنی کتاب حقیقت جہاد میں انہوں نے اپنے نقطہ کو اس طرح واضح کیا ہے:

"ایک ‘مسلم جماعت’ اپنی حفاظت اور عام اصلاحات دونوں کے پیش نظر محض کسی ایک خطۂ ارض پر اسلام کے قیام سے مطمئن نہیں ہو سکتی۔ انہیں روئے زمین کے تمام خطوں پر اسلام کو پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک طرف وہ اپنے نظریات کی اشاعت کرے گی؛ اور دوسری طرف اس میں پوشیدہ نجات حاصل کرنے کے لئے اس کے معتقدات و نظریات کو قبول کرنے کے لیے تمام قوموں کو مدعو کرے گی۔ اگر اسلامی ریاست کے پاس طاقت اور وسائل ہوں تو وہ غیر اسلامی حکومتوں کا مقابلہ کرے گی اور انہیں تباہ کر کے اور ان کی جگہ اسلامی ریاستیں قائم کرے گی۔

(مولانا مودودی، حقیقت جہاد، ص 64، تاج کمپنی لمیٹڈ، لاہور، 1964 پاکستان)

ایک اور کتاب "الجہاد فی الاسلام" (اسلام میں جہاد) میں، انہوں نے اپنی بنیاد پرست ذہنیت اور جہاد کی عسکریت پسند تشریح کو اس طرح بیان کیا ہے:

"اس بحث سے آپ پریہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ اسلامی جہاد کا مقصود غیر اسلامی نظام کی حکومت کو مٹا کر اسلامی حکومت قائم کرنا ہے۔ اسلام یہ انقلاب صرف ایک ملک یا چند ملکوں میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں برپا کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ ابتداء ً مسلم پارٹی کے ارکان کا فرض یہی ہے کہ جہاں جہاں وہ رہتے ہوں ، وہاں کے نظامِ حکومت میں انقلاب پیدا کریں لیکن ان کی آخری منزلِ مقصود ایک عالم گیر انقلاب کے سوا کچھ نہیں ہے۔

(جہاد فی سبیل اللہ: اسلام میں جہاد، سید ابو الاعلی مودودی، باب 3، ص 10)

اپنی تحریروں میں مولانا نے مسلمانوں کو جسمانی طور پر "بری طاقتوں" کے خلاف جنگ کرنے کی نصیحت کی اور "دنیا کی بری طاقتوں" کے خلاف جنگ میں ان کی زندگی، جائداد، طاقت، مال و دولت اور صحت سب کو تباہ کرنے تک کا حکم دے دیا۔ وہ اپنی کتاب "الجہاد فی الاسلام" میں لکھتے ہیں: "ہر ایک اپنے مقصد کی تحصیل کے لیے پورا زور صرف کر رہا ہے۔ لیکن ‘‘مسلمان’’ جس انقلابی جماعت کا نام ہے اس کے انقلابی نظریات میں سے ایک اہم ترین نظریہ بلکہ بنیادی نظریہ یہ ہے کہ اپنی جان و مال کھپاؤ، دنیا کی ساری سرکش طاقتوں سے لڑو، اپنے جسم و روح کی ساری طاقتیں خرچ کر دو، نہ اس لیے کہ دوسرے سرکشوں کو ہٹا کر تم ان کی جگہ لے لو، بلکہ صرف اس لیے کہ دنیا سے سرکشی و طغیان مٹ جائے اور خدا کا قانون دنیا میں نافذ ہو۔"

وہ مزید لکھتے ہیں: یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر جب آپ غور کریں گے تو یہ بات بآسانی آپ کی سمجھ میں آ جائے گی کہ جنگ کی جو تقسیم جارحانہ (Aggressive) اور مدافعانہ (Defensive)  اصطلاحوں میں کی گئی ہے،اس کا اطلاق سرے سے اسلامی جہاد پر ہوتا ہی نہیں۔ یہ تقسیم صرف قومی اور ملکی لڑائیوں پر ہی منطبق ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اصطلاحاً ‘‘حملہ’’ اور ‘‘مدافعت’’ کے الفاظ، ایک ملک یا ایک قوم کی نسبت سے ہی بولے جاتے ہیں۔ مگر جب ایک بین الاقوامی پارٹی ایک جہانی نظریہ و مسلک کو لے کر اٹھے اور تمام قوموں کو انسانی حیثیت سے اس مسلک کی طرف بلائے اور ہر قوم کے آدمیوں کو مساویانہ حیثیت سے پارٹی میں شریک کرے اور محض مسلکِ مخالف کی حکومت کو مٹا کر اپنے مسلک کی حکومت قائم کرنے کے لیے جدوجہد نہ کرے، تو ایسی حالت میں اصطلاحی حملہ اور اصطلاحی مدافعت کا قطعاً کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر اصطلاح سے قطع نظر کر لی جائے تب بھی اسلامی جہاد پر جارحانہ اور مدافعانہ کی تقسیم منطبق نہیں ہوتی۔ اسلامی جہاد بیک وقت جارحانہ بھی ہے اور مدافعانہ بھی۔ جارحانہ اس لیے کہ مسلم پارٹی مسلک مخالف کی حکمرانی پر حملہ کرتی ہے اور مدافعانہ اس لیے کہ خود اپنے مسلک پر عامل ہونے کے لیے حکومت کی طاقت حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ "(مولانا مودودی:۔ اسلام میں جہاد)

مولانا مودودی کی کتاب کے مندرجہ بالا اقتباس کو پڑھنے کے بعد یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ ان کی نظر میں اسلامی جہاد کا کیا مطلب تھا۔ مسلم دنیا کے مرکزی دھارے کے علماء کرام کے اقوال کے بر خلاف جنہوں نے ‘‘جہاد فی سبیل اللہ’’ کو ظلم و ستم کے کے خلاف ایک دفاعی جدو جہد ماناہے، مولانا مودودی نے جہاد کو غیر مسلموں، جنگجوؤں اور عام شہریوں دونوں کے خلاف پر ایک ایسی جارحانہ جنگ قرار دیا ہے جس کا مقصد زمین پر خدا کا اقتدار قائم کرنا ہے۔

جارحانہ جہاد کی مولانا مودودی کی خود ساختہ نقطہ نظر کے برعکس اسلام کے ابتدائی ادوار سمیت مرکزی دھارے کے اسلامی علماء کی یہ رائے ہے کہ اسلام صرف دفاعی جہاد کی اجازت دیتا ہے۔ مرکزی دھارے کے مدارس کے نصاب میں پڑھائی جانے والی کتب فقہ اسلامی کے مصنف امام برہان الدین مرغینانی لکھتے ہیں:

"اگر دشمنوں شہر پر حملہ کرتے ہیں تو عام شہریوں کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے" (ہدایہ:۔ جلد 2، صفحہ 559)

علامہ ابو بکر کاشانی اپنی کتاب البدائع میں لکھتے ہیں جو کہ ہندوستانی مدرسوں کے درس نظامی کے نصاب میں شامل ہے:

"جنگ کے سوداگروں کے خلاف محاذ جنگ قائم کرنا ہے۔ عورتوں، بچوں، عمر رسیدہ مردوں اور بیمار افراد کے خلاف جنگ روا نہیں "(البدائع: جلد 6، ص 64

ماضی قریب میں ایک بڑی تعداد میں اعتدال پسند اسلامی علماء کرام نے اسی نقطہ نظر کی تائید و توثیق کی ہے اور اس کی تبلیغ کی ہے۔ ان میں سب سے نمایاں علماء یہ ہیں: معروف مصری عالم دین شیخ محمد الغزالی، مفتی محمد عبدہ اور ان کے شاگرد شیخ رشید ردا، عبدالرحمن اعظم، علامہ مصطفی سبائی، احمد امین، محمود عقاد، شبلی نعمانی اور مشہور ہندوستانی عالم دین مولانا احمد رضا خان وغیرہ۔ یہاں تک کہ مصر کے اسلامی اسکالر شیخ یوسف القرضاوی بھی جو کہ اپنے سلفی اثر و رسوخ اخوان المسلمین کے ساتھ اپنے تعلقات کے لیے سے مشہور ہیں اس سلسلے میں یہی نقطہ نظر رکھتے ہیں جیسا کہ ان کی اپنی کتاب "فقہ الجہاد" سے عیاں ہے جس کی وجہ سے عرب دنیا میں کافی بحث و مباحثہ کا بازار گرم ہو گیا تھا۔ اعتدال پسند اسلامی علماء کرام کی راہ پر چلتے ہوئےمرکزی دھارے کے مسلمان دفاعی جہاد کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں جنگ چھیڑنے کی علت کافروں اور منکرین کی جارحیت یا ان کا جارحانہ حملہ تھا محض ان کا کفر یا حقیقت کا انکار (کفر) نہیں تھا۔

یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ اسلام میں جہاد کے احکام کے بارے میں عصر حاضر کے سنی صوفی علماء کرام کیا موقف ہے۔

ہندوستان کے مشہور و معروف سنی صوفی عالم دین مفتی شریف الحق امجدی بخاری کی شرح میں جہاد کی تعریف اس انداز میں کرتے ہیں:

" جہاد کا لفظی معنیٰ جانفشانی اور جدوجہد ہے۔ اسلامی صطلاح میں اس کا مطلب حقانیت کی نصرت و سربلندی کے لیے ایک جہد مسلسل ہے۔ ایک کثیر جہتی اصطلاح ہونے کی وجہ سے اس کا معنی محض رضائے الٰہی کی خاطر گناہوں سے بچنے کے لیے نفس عمارہ کے خلاف جد و جہد کرنے کوشش کرنا ہے۔ (نزہۃ القاری، شرح بخاری: جلد 6، صفحہ 154، دائرۃ لبرکات، کھسی، مؤ، یوپی، انڈیا)

اردو ماہنامہ جام نور کے جہاد پر خصوصی شمارے میں ایک ماہر اور نامور سنی صوفی اسلامی فقیہ اور جامعہ امجدیہ مؤ، یوپی کے مفتی، مفتی آل مصطفی مصباحی نے اپنے مضمون "جہاد کے شرائط و لوازمات" میں لکھتے ہیں : "جو لوگ اسلامی تعلیما سے واقف نہیں ہیں ان تک اسلام کے پیغامات کو پھیلانا ہم پر فرض ہے۔ لیکن اس عمل میں ان کے خلاف جہاد چھیڑنا مومنوں کے لئے جائز نہیں ہے۔ اسلام کا مقصد جہاد کرنا یا کسی کو تکلیف پہنچانا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد لوگوں کو خدا کے قریب لانے کی کوشش کرنا ہے۔ اور اس مقصد کا حصول تلوار سے نہیں بلکہ زبان سے اللہ کے پیغامات کی تبلیغ و اشاعت سے ہی ممکن ہے۔ لہٰذا اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے مسلح جدوجہد کا سہارا لینے کا کوئی جواز ہی نہیں پیدا ہوتا"۔

قرآن میں آیات جہاد پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سنی صوفی عالم اور اردو کے معروف مصنف مولانا یاسین اختر مصباحی رقم طراز ہیں:

" اگر چہ قرآن کی بعض آیات کریمہ میں جہاد، قتل اور قتال کا ذکر ہے لیکن ان آیات کا مصداق ہر کس وناکس نہیں اور نہ ہی ان کا انطباق موجودہ دور کی نام نہاد جہادی تنظیموں کی طرف سے جاری دہشت گردانہ کارروائیوں پر کیا جاسکتا ہے۔بلکہ ان کے پیچھے ایک مخصوص وجہ اور سیاق و سباق ہے۔ تاہم، آج  مسلم ممالک میں انتہاپسندوں کے ایک گروہ نے ان آیات کا استعمال سیاق و سباق کا اعتبار کیے بغیر کرنا شروع کردیا ہے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ ان جہادیوں اور نام نہاد اسلام پسندوں کے کرتوت کی وجہ سے آج دنیا بھر میں بالعموم آیات جہاد اور بالخصوص قرآن کریم کے خلاف اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں۔ اسلام کو قتل و غارت گری کے ایک مذہب کے طور پیش کیا جا رہا ہے۔ عوام کو اسلام اور اس کی تعلیمات سے بر گشتہ کرنے کے لیے ان آیات کا غلط اور بے جا استعمال کیا جارہا ہے ۔دراصل اسلام کو ایک پر تشدد اور خطرناک مذہب اور مسلمانوں کو ایک جارحیت پسند اور شرانگیز قوم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش اس لئے جاری ہے تاکہ عالمی رائے عامہ مسلمانوں اور دین اسلام کے خلاف ہوجائے۔ "( پیش لفظ، آیات جہاد کا قرآنی مفہوم)

یہ امر اب پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ خود ساختہ جہادیوں اور دیگر تمام انتہا پسند مسلم جماعتوں کی جہاد کے نام پر انجام دی جانے والی تمام پرتشدد کارروائیاں مکمل طور پر اسلامی اصولوں اور بنیادی تعلیمات سے متضاد ہیں۔ لیکن اس کے باجود بنیاد پرست اسلام پسندی اور پرتشدد جہاد کا تصور مسلم ممالک میں فروغ پا رہا ہے۔ آخر کیوں؟ تو اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ انہیں ان انتہاپسند مذہبی نظریہ سازوں اور انتہا پسند علماء کی حمایت اور تائید و توثیق حاصل ہے جو جہاد، قتال، جزیہ اور خلافت وغیرہ کی قرآنی آیات کی غلط تشریح کرتے ہیں۔ جن کا تعلق در حقیقت مخصوص سیاسی سیاق و سباق اور ناگزیر وجوہات سے ہے۔ یہ عہد حاضر میں مسلم ممالک کی ایک تلخ حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم، زیادہ پریشان کن بات تو یہ ہے کہ جہاد سے متعلق آیات کی بنیاد پرستوں کی عالمی تشریحات پر مرکزی دھارے کے علماء نے کوئی توجہ نہیں دیا اور نہ ہی ان کا رد و ابطال کیا ہے۔ اور میرے خیال میں مسلم ممالک میں نوجوانوں کے درمیان انتہا پسند نظریات کے فروغ کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب ان کے گمراہ نظریہ ساز غیر مسلموں کے قتل اور ان کی املاک پر قبضہ کرنے کی اباحت کو یقینی بنانے کے لئے سیاق و سباق سے ہٹاکر جہاد اور قتال کی آیات کو پیش کرتے ہیں تو انہیں اس بات کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ وہ ان غیر انسانی معمولات پر نظر ثانی بھی کریں۔

لہذا، مرکزی دھارے میں شامل علماء اور اعتدال پسند اسلامی اسکالرز کو ہر قسم کے نظریاتی تشدد اور دہشت گردی کی تردید کرنے کے لئے مزید مشترکہ کوششوں میں مشغول ہونے کی ضرورت ہے۔ اور اس طرح وہ اس پر اپنا  یہ موقف ثابت کر سکتے ہیں کہ قرآن مجید ظاہری اور معنوی دونوں اعتبار سے امن اور عدم تشدد کی ایک علامت ہے۔ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ وہ جہاد، قتال، شہادت اور خلافت سے متعلق قرآنی آیات کی حقیقی تشریحات کو دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ عصر حاضر کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکے۔ وہ قرآن کی تشریح اور اس کی آیات کی درست تفہیم کی تبلیغ و اشاعت کے لیے پیشگی اقدامات اٹھاتے ہیں تو ممکن ہے کہ کوئی بھی مسلمان دہشت گردی اور تشدد کی راہ اختیار نہ کرے۔

URL for English article: https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/all-islamic-fundamentals-aimed-military/d/101454

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/all-islamic-fundamentals-aimed-military/d/124607

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..