New Age Islam
Mon Apr 21 2025, 04:27 AM

Urdu Section ( 13 May 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why is the Muslim Personal Law Board Crying Hoarse Over a Non-Existent Uniform Civil Code? مسلم پرسنل لاء بورڈ ایک ایسے یکساں سول کوڈ پر کیوں واویلا مچا رہا ہے جو موجود ہی نہیں ہے؟

ارشد عالم، نیو ایج اسلام

30 اپریل 2022

انہیں یکساں سول کوڈ کو ’مسلم مخالف‘ قرار دینے سے پہلے مسودے کا انتظار کرنا چاہیے تھا

اہم نکات:

1.     آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے 24 اپریل کو اپنی میٹنگ میں یوسی سی کو مسلم مخالف قرار دیا تھا

2.     جبکہ ابھی تک نہ تو مرکزی یا کسی ریاستی حکومت کے ذریعہ یو سی سی کا کوئی مسودہ پیش کیا گیا ہے

3.     کیا کسی بھی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے مسودہ سامنے نہیں آنا چاہیے تھا اور اس کے بعد اس پر مسلمان بحث و مباحثہ کرتے؟

4.     ایسا کرنے سے صرف اس تاثر کو بڑھاوا ملتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ حکومت کی مخالفت کرتے ہیں

-------

کچھ دن پہلے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک بیان جاری کیا جس میں یکساں سول کوڈ (UCC) کو 'غیر آئینی' اور 'اقلیتوں' اور بالخصوص مسلمانوں اور مختلف قبائلی برادریوں کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔ جنرل سکریٹری خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ "اقلیتوں اور قبائلی طبقات کو ان کے رسوم و رواج، عقائد اور معمولات کے مطابق الگ الگ پرسنل لاء فراہم کیےگئے ہیں، جو کسی بھی طرح آئین میں سے مداخلت نہیں کرتے"۔ پریس نوٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ یو سی سی کا اصل مقصد لوگوں کی توجہ مہنگائی، گرانی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے ہٹانا ہے اور اسے نفرت اور امتیاز سلوک کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ رحمانی نے مزید کہا کہ "یو سی سی مسلمانوں کے لیے بالکل بھی قابل قبول نہیں ہے"۔

اس تناظر میں ایسی باتیں کی جارہی ہیں جہاں اتراکھنڈ، ہماچل اور اتر پردیش کی حکومت نے یو سی سی کے حوالے سے بات کرنا شروع کر دیا ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے حال ہی میں یہ بھی کہا تھا کہ مرکز یو سی سی کے نفاذ کے بارے میں غور و فکر کر رہا ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں کی ایک خود ساختہ نمائندہ تنظیم ہونے کے ناطے آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ نے حسب توقع ردعمل کا اظہار کیا۔ لیکن آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کا یہ ردعمل کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2016 میں بھی انہوں نے، بہت سی دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر یو سی سی کو مسترد کرتے ہوئے اسی طرح کا بیان جاری کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے جبکہ یو سی سی کا کوئی مسودہ اب تک نہیں پیش کیا گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بورڈ کسی ایسی چیز پر اپنا موقف واضح کر رہا ہے جو اس وقت موجود ہی نہیں ہے۔ موجودہ نظام حکومت میں اور اس سے پہلے بھی مسلمان یقیناً بہت زیادہ دباؤ میں تھے۔ مسلمانوں کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ابھر کر سامنے آیا ہے اور مضبوط ہو چکا ہے کہ مسلمان ہر بات پر حکومت کی مخالفت کرتے ہیں۔ سی اے اے مخالف تحریک وغیرہ جیسے مسلسل اقدامات کی بنیاد پر یہ تاثر موجودہ نظریاتی حکومت کے تحت صرف مضبوط ہی ہوا ہے۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر، کیا بورڈ کو سمجھداری نہیں دکھانی چاہیےاور محض مذمتی بیان دینے کے بجائے زیادہ محتاط بیان جاری کرنا چاہیے؟

چونکہ اب تک یو سی سی کا کوئی مسودہ ہمارے سامنے نہیں ہے اس لیے ہم نہیں جانتے کہ حکومت کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ اور یقینی طور پر، ہندوستان کے مذہبی اور ثقافتی تنوعات کے تناظر میں یو سی سی صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اسے کئی ہندو برادریوں میں بھی تنقید کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ لہٰذا، مسلمانوں کو ہی سب سے پہلے مذمت کیوں کرنی چاہیے؟ ایسی سیاست کا کیا حاصل سوائے اس کے کہ یہ تصور قائم ہو کہ حکومت جو بھی کرے مسلمان ہمیشہ اس کی مخالفت ہی کریں گے۔ اے آئی ایم پی ایل بی صرف اتنی بات پت اکتفاء کیوں نہیں سکتا کہ چونکہ یو سی سی کا مسودہ ابھی تک تیار نہیں ہے، اس لیے اس پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ کوئی بھی انسان کسی بھی پالیسی کی مخالفت یا حمایت تب ہی کر سکتا ہے جب لوگ اسے اچھی طرح سمجھ لیں اور اس پر غور و خوص کر لیں۔ لیکن کیا کیا جائے اے آئی ایم پی ایل بی اپنے اس مخالفانہ رویہ کو کھونا نہیں چاہتا اس لیے مسودہ کے کے بغیر ہی اس نے یو سی سی کو مسترد کر دیا ہے!

اس کے علاوہ یہ افواہ بھی پھیلائی جارہی ہے کہ یو سی سی کے نافذ ہونے سے ہندوستان میں مسلمانوں کا دین ختم ہوجائے گا۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ یو سی سی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک کے تمام قوانین کو ہندو قانون سے بدل دیا جائے گا۔ مثال کے طور پر، یو سی سی گوا میں نافذ العمل ہے لیکن اس ریاست کے مسلمان پہلے کی طرح اب بھی اپنے دین پر عمل پیرا ہیں۔ یو سی سی کو اس طرح سمجھا جائے کہ یہ تمام لوگوں کے پرسنل لاء کو آئینی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے والا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ جب اسلامی عقیدے کی بات آتی ہے تو اس کی کچھ باتیں جمہوریت سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتیں۔ مثال کے طور پر طلاق کا مسئلہ لے لیجئے جو مذہب سے قطع نظر تمام خواتین کا حق ہونا چاہیے۔ لیکن مسلم پرسنل لا اپنی خواتین کو یہ حق نہیں دیتا۔ خواتین صرف خلع لینے کی حقدار ہیں جو کہ بنیادی طور پر طلاق لینے کی درخواست ہے جسے شوہر اپنی مرضی سے انکار بھی کر سکتا ہے۔ نیز، مسلم خواتین اگر خلع لیتی ہیں تو انہیں وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ہمیں مسلم معاشرے کے اندر وراثت کے مسئلے کو بھی دیکھنا چاہیے۔ مسلم پرسنل لا کے مطابق عورت اور مرد یکساں طور پر وراثت میں حصے دار نہیں بن سکتے۔ ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام خواتین کو جائیداد کے حقوق دینے والے اولین مذاہب میں سے ایک ہے۔ اور یہ جذبہ جاری رہنا چاہیے تھا اور یہی خواتین کو جائیداد کے مساوی حقوق دینے والا سب سے پہلا مذہب ہونا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں ہوا کیونکہ یہ جمود و تعطل کا شکار رہا۔ دوسری طرف، جن مذاہب میں عورتوں کے لیے جائیداد کے حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا، وہ اس حد تک ترقی کر گئے ہیں کہ اب اس میں مرد اور عورت یکساں طور پر وراثت حاصل کر سکتے ہیں۔ مسلم شریعت کا بدلتے وقت کے ساتھ ترقی کرنا کتنی شرم کی بات ہے۔ ہندو پرسنل لا کے بعض پہلو امتیازی بھی ہیں لیکن اس میں کوئی ایسا نہیں ہے جو یہ کہے کہ چونکہ یہ خدائی حکم ہے اس لیے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، ہم مسلمان جب بھی خواتین کو حقوق سے محروم کرنے کی بات کرتے ہیں تو اسی طرح کی دلیلیں دیتے ہیں۔ زرعی جائیداد میں عورتوں کو ان کا حق (اسلامی قانون کے مطابق) نہ دینے کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ جب بات علمائے کرام کی ہو تو ان کے اندراتنے برے طریقے سے زن بیزاری کا جذبہ موجود ہے کہ وہ اپنے پرسنل لاز میں عورتوں کے جو متعینہ حقوق ہیں وہ انہیں وہ بھی دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ ذرا سوچئے کہ مہر معافی کا وہ کون سا نظام ہے جس کے ذریعے مسلمان اپنی بیوی پر رسمی اور غیر رسمی انداز میں دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ اپنی شادی میں ملنے والی اس تھوڑی سی رقم بھی چھوڑ دے۔

مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان کا مذہب کوئی خاص نہیں ہے۔ تمام مذاہب کے پیروکاروں کا ماننا ہے کہ ان کے قوانین خدا کے عطا کردہ ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مذاہب نے ترقی کی ہیں اور انہوں نے اپنے امتیازی قوانین کو تبدیل کیا ہے۔ لیکن یہی بات مسلمانوں کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی جس کی وجہ سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ (مسلمان) سخت، قدامت پسند اور غیر لچکدار ہوتے ہیں۔ اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنے مذہب کو قومی ضروریات سے بالاتر رکھتے ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ یہ کہہ کر اس دلیل کا جواب دیا ہے کہ ہندوستانی آئین انہیں مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کا حق دیتا ہے۔ یہ یقیناً درست ہے لیکن یہی آئین صنفی انصاف کے تئیں مخصوص لبرل ازم اور حساسیت کا بھی تقاضا کرتا ہے۔

مسلمان کب ان آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے کھڑے ہوں گے؟

English Article: Why is the Muslim Personal Law Board Crying Hoarse Over a Non-Existent Uniform Civil Code?

Malayalam Article: Why is the Muslim Personal Law Board Crying Hoarse over a Non-Existent Uniform Civil Code? എന്തിനാണ് മുസ്ലീം വ്യക്തിനിയമ ബോർഡ് നിലവിലില്ലാത്ത ഏകീകൃത സിവിൽ കോഡിനെ ചൊല്ലി ഉറക്കെ കരയുന്നത്?

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/aimplb-uniform-civil-code/d/126995

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..