کنیز
فاطمہ ، نیو ایج اسلام
29 ستمبر،2022
امن
و سلامتی اور عدل و انصاف کے قیام پر پھر سے ہندوستانی شہریوں کو اتفاق قائم کرنے کی
ضرورت
· ہمارے ملک کے تمام باشندگان کو آپسی
امن و سلامتی پر اتفاق کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
· الگ الگ لکڑیوں کو کوئی بھی بآسانی توڑ
سکتا ہے لیکن ان لکڑیوں کو اکٹھا کر دیا جائے تو انہیں توڑنا بہت مشکل ہے۔
· وہ ملک کبھی ترقی اور کامیابی کے منازل
طے نہیں کر سکتا جس کے باشندے آپس میں منافرت کی فضا قائم کرنے پر کوشاں رہے
· اس وقت ملک کے باشندوں کو مسائل اور
چیلینجز در پیش ہیں ان کے حل پر بات کرنے کی بجائے میڈیا نے اپنے لیے کوئی دوسری راہ
چن لی ہے ۔
۔۔
بہت
سارے لوگ جب کسی ایک معاملہ پر اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں تو اسے اتفاق کہا جاتا ہے۔اتفاق
کسی بھی امر پر کیا جا سکتا ہے ۔ مثلا، ہمارے ملک ہندوستان میں رہنے والے تمام شہری
اس بات پر اپنی رائے قائم کر لیں کہ وہ کبھی بھی ایک دوسرے کی تئیں منافرت کو ہوا نہیں
دیں گے اور پھر اس پر تمام لوگ عمل پیرا ہو جائیں تو اس صورت کو بھی اتفاق کا نام دیا
جا سکتا ہے ۔ہمارے ملک کے تمام باشندگان کو آپسی امن و سلامتی پر اتفاق کرنے کی سخت
ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے افراد بستے ہیں۔ وہ اپنے اختلافات
کے باوجود امن و شانتی کو پوری طرح قائم کرنے پر اتفاق کر لیں تو یہ بھی اتفاق ہے اور
آج اسی اتفاق کی اہمیت پر چند کلمات آپ کے سامنے پیش کروں گی۔
ہر باشعور
فرد کو اس بات کا احساس ہے کہ باہمی میل جول سے جو کام ہوتا ہے وہ بہتر ہوتا ہے۔ باہمی
اتفاق میں بہت برکت اور بہت طاقت ہوتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی نظام بغیر اتفاق کے کامیاب
نہیں ہو سکتا۔ عدم اتفاق سے کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ لہذا جس ملک کے اندر اتفاق نہ ہو
وہ ملک نہایت کمزور ہے۔ کوئی بھی اس کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
مثال
کے طور پر ، پانی کا ایک قطرہ آپ کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ لیکن جب پانی کے
قطرے ایک ساتھ مل جاتے ہیں تو دریا بن جاتا ہے۔ پھر اس دریا کے اندر اتنی قوت پیدا
ہوجاتی ہے کہ بڑی بڑی طاقتور کشتیاں اس کے سامنے بے بس ہو جاتی ہیں۔ جب دریا کے قطرات
میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو بڑی بڑی طاقتور بستیاں بھی تباہ ہو جاتی ہیں۔
اسی
طرح ناریل کی چھال سے آپ کسی جانور کو باندھ نہیں سکتے۔ لیکن جب بہت سی چھالوں کو اکٹھا
کرکے آپ رسی بنا لیں تو پھر اس رسی سے بڑے بڑے جانور کو بھی باندھا جا سکتا ہے۔
آپ نے
یہ مشہور مثال بھی بارہا سنا ہوگا کہ الگ الگ لکڑیوں کو کوئی بھی بآسانی توڑ سکتا ہے
لیکن ان لکڑیوں کو اکٹھا کر دیا جائے تو انہیں توڑنا بہت مشکل ہے۔
چینوٹی
نہایت ہی کمزور جانور ہے۔ لیکن آپ بخوبی واقف ہوں گے کہ جب چیونٹی کسی کام کو کرنے
کا ارادہ کرتی ہے تو اسے پورا کرکے چھوڑتی ہے۔ کیونکہ چیونٹی یہ کام اکیلے نہیں کرتی
بلکہ اسے کسی کام کو پورا کرنے کے لیے باہمی تعاون اور اتفاق کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب
ہزاروں چیونٹیاں آپس میں اتفاق کر لیتی ہیں تو بڑے بڑے زہریلے سانپوں کو بھی مار دیتی
ہیں۔
ایک
آدمی تنہا جس کام کو نہیں کر سکتا وہ کام کئی لوگ ایک ساتھ مل کر پورا کرسکتے ہیں۔
مذکورہ مثالوں کو ذہن نشین کرلینے کے بعد یہ سمجھنا نہایت آسان ہے کہ جس ملک میں اتفاق
نہ ہو وہ ملک کمزور اور اپاہج ہی ہے۔ وہ ملک کبھی ترقی اور کامیابی کے منازل طے نہیں
کر سکتا جس کے باشندے آپس میں منافرت کی فضا قائم کرنے پر کوشاں رہے اور عدم اتفاق
کی آگ کو بھڑکانے کو اپنا نصب العین سمجھے۔
آج
ہمارے ملک کے اندر عدم اتفاق کی لہراور اختلاف نے لوگوں کو مختلف قسم کے مسائل میں
الجھا رکھا ہے۔ایک پھول میں کئی رنگ ہوں تو اس پھول کی خوبصورتی دوبالا ہو جاتی ہے
۔ٹھیک اسی طرح ہمارے ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ بستے ہیں ۔ہمارا ملک ایک
پھول کی مانند ہے جہاں ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی ، بودھ، جین وغیرہ اس پھول کے کئی
رنگ ہیں جو اس ملک کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہیں ۔
لیکن
پچھلے کچھ سالوں سے ہمارے ملک کے اس خوبصورت رنگ کو میلا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
خاص طور پر مذہبی منافرت کو بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ مذہبی منافرت کی وجہ سے
کہیں عدل و انصاف کا گلا گھونٹا جا رہا ہے ۔ کہیں خون کی ہولی تو کہیں نفرت کا بازار
گرم ہے ۔سوشل میڈیا سے لیکر عام علاقوں تک مذہبی منافرت کی لہر ہے ۔
حالیہ
دنوں میں سپریم کورٹ نے ایک سوال کیا کہ ’ہمارا دیس کدھر جارہا ہے؟‘‘۔ وطن سے محبت
رکھنے والا ہر فرد یہی سوال کر رہا ہے لیکن جواب میں گہری خاموشی ہے مگر اس کا احساس
سبھی کو ہے ۔میڈیا بھی اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹ گیا ہے ۔ اس وقت ملک کے باشندوں کو
مسائل اور چیلینجز در پیش ہیں ان کے حل پر بات کرنے کی بجائے میڈیا نے اپنے لیے کوئی
دوسری راہ چن لی ہے ۔ میڈیا پر ہونے والے نفرتی بیانات ، اشتعال انگیز ڈبیٹ، پروپیگنڈہ
پر مبنی رپورٹنگ، ایک مخصوص طبقہ کے خلاف ماحول بنانے، اسے بدنام کرنے، اس کے خلاف
لوگوں کا ذہن بنانے اور انہیں مشتعل کرنے والی نیوز سے کون واقف نہیں ؟ لیکن ان واقعات
سے ہمارے ملک کا فائدہ ہوگا یا ہمارے ملک کا نقصان ؟ فائدہ تو کچھ نہیں البتہ ہمارے
وطن عزیز ہی کا نقصان ہوگا کیونکہ جب ملک کے اندر منافرت کی فضا قائم ہوتی ہے تو ترقی
کے سارے دروازے بند ہوتے چلے جاتے ہیں اور ملک نہایت کمزور ہوتا چلا جاتا ہے ۔
ایسی
حالت میں ہمارے ملک کے اندر ایک زبردست اتفاق کی ضرورت ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اتفاق کس
چیز پر ہو ؟ تو سنیے اس کا جواب بالکل سادہ ہے ۔اس ملک کے تمام باشندوں کو دوبارہ یہ
عہد کرنا ہوگا کہ وہ اب کسی طرح کی ایسی باتیں یا ایسا کام نہیں کر یں گے جس سے مذہبی
منافرت میں اضافہ ہو ۔ ہر شخص کو خود سے یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ منافرت کو اپنے قلب
سے نکال کر حسن ظن اور خیر خواہی کا ماحول بنائیں گے ۔نفرت کا جواب بھی محبت سے دیں
گے ۔ سب کو ملکر اس بات پر پھر سے اتفاق کرنا ہوگا کہ اب ملک میں امن و سلامتی اور
عدل و انصاف قائم کریں گے ۔اس پر صرف وعدہ ہی نہیں بلکہ اس پر عمل کرکے ثابت بھی کرنا
ہوگا تبھی ہم وطن عزیز سے سچی محبت کے دعوے دار ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔
کنیز
فاطمہ نیو ایج اسلام کی مستقل کالم نگار اور عالمہ و فاضلہ ہیں۔
------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism