ارشد عالم،
نیو ایج اسلام
16 اگست 2021
خواتین کو
معاشرے سے الگ کر دیا جائے گا ، نقاب پہننے
پر مجبور کیا جائے گا اور کام سے نکال دیا جائے گا۔
اہم نکات:
1. ایک
چھوٹی اقلیت امدادی معیشت کے بھروسے ہے جبکہ افغانوں کی بڑی اکثریت کرپشن کی زد میں
ہے
2. طالبان
کا خیر مقدم کیا گیا کیونکہ یہ معمول اور امن و امان کا دکھاوا کرتا ہے
.3آخر
کار طالبان حکومت کرنے میں ناکام ہو جائیں گے کیونکہ اسلام جدید دنیا کے تمام مسائل
کا حل پیش نہیں کر سکتا
4.اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے وہ ایک تماشائی اسلام اپنائیں گے جس
میں شریعت سے کسی بھی انحراف پر سخت سزا دی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Afghan woman beheaded by Taliban
for shopping without husband / Behind Woods News Shots
-----
اب جبکہ طالبان نے کابل پر
قبضہ کر لیا ہے ماضی کی یاد تازہ ہونے لگی ہے اور یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ عام افغانوں
کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ اس ملک کی المناک تاریخ جزوی طور پر اس کے شدید عدم مساوات
کا نتیجہ ہے۔ ایک چھوٹا سا طبقہ جو خود کو صنفی اور انسانی حقوق کا علمبردار ظاہر کرتا
ہے جس نے امدادی معیشت سے اپنی قسمت بنائی ہے۔ لیکن یہ چھوٹی اقلیت افغانوں کی اکثریت
سے مکمل طور پر منقطع ہے جو اپنا جسم و جان لگانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ وسیع
پیمانے پر بدعنوانی اور امن و امان کے فقدان
نے طالبان کو حمایت اور قانونی حیثیت فراہم کی ہے جس کی بدولت ملک کے کئی حصوں میں
اس کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ طالبان کا رجعت پسندانہ اور قدامت پسندانہ تصور مغربی
لوگوں کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ وہ مستشرقیت کے ماحول میں ہیں لیکن افغانوں
کے لیے وہ امن کے علمبردار ہیں جو کم از کم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ بازار کھلے
رہیں معاشرے میں ایک قسم کا نظام قائم رہے۔
طالبان جیسا نظام قائم کرنا
چاہتے ہیں اس سے یقینا اختلاف ہو سکتا ہے۔ نحوست کے آثار پہلے سے ہی واضح
ہیں۔ ملک کے جن حصوں میں ان کی حکمرانی قائم ہو چکی ہے انہوں نے خواتین کو عوامی ملازمت
سے برخاست کر دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ان کی جگہ ان کے شوہر مقرر کیے جائیں گے۔ پیشہ
ورانہ مہارت اور تخصص کی طالبان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کی منطق یہ ہے کہ
جو کام عورت کر سکتی ہے یقینا مرد اسے بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ متعدد
احادیث کا حوالہ دے کر اپنے اعمال کا جواز پیش کر سکتے ہیں جن میں واضح طور پر کہا
گیا ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں عقلی اور ذہنی طور پر ناقص ہیں۔ مزید یہ کہ اللہ
نے خود مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا ہے۔
Taliban
Religious Police Beating A Woman
----
امریکہ و طالبان معاہدے کے تناظر میں بہت سے لوگوں کا یہ
ماننا تھا کہ یہ جماعت صنفی مساوات، تکثیریت اور جمہوریت کے بین الاقوامی اصولوں پر
قائم رہے گی۔ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب کچھ بنیادی طور پر امریکہ کی
افغانستان سے فرار ہونے کی حکمت عملی تھی۔ اب ہمیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ طالبان سے
انکے بنیادی عقائد میں تبدیلی یا سمجھوتہ کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ صنفی عدم مساوات
اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے اور اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ طالبان اس سے
سمجھوتہ کریں۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ وہ جدید تعلیم بالخصوص تاریخ اور اس سے وابستہ
سماجی علوم کی تعلیم پر کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔ اسکے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ بآسانی
کہا جا سکتا ہے طالبان یقینا ایک بھی لبرل تعلیم کو پسند نہیں کریں گے۔ اس سے عام افغانوں
کو کوئی فرق نہیں پڑے گا جن کے لئے بدقسمتی سے معیاری تعلیم کبھی بھی قابل حصول خواب
نہیں رہا ہے۔ وہ جس چیز میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں صرف زندگی گزارنے کی صلاحیت ہے۔
جب تک طالبان انہیں تحفظ کا یہ احساس فراہم کرتے رہیں گے لوگ اس کی حمایت میں ریلی
نکالتے رہیں گے۔
ہم جانتے ہیں کہ طالبان بالآخر
افغانستان جیسے پیچیدہ ملک پر حکومت نہیں کر سکیں گے۔ یہ تحریک خاص طور پر جدید معیشت
کو چلانے اور اس کے انتظام و انصرام سے لاعلم ہے۔ لوگوں کو اب تک یہ بات اچھی طرح یاد
ہے کہ جب وہ پہلی بار اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے محتسب یا مارکیٹ انسپکٹر مقرر
کیے تھے تاکہ وہ نظر رکھ سکیں کہ کاروبار شریعت کے مطابق چل رہا ہے یا نہیں۔ یہ انسپکٹر
شریعت کے جاننے والے تھے لیکن مثبت طور پر اس بات سے لاعلم تھے کہ جدید مارکیٹ کیسے
کام کرتی ہیں اور اس وجہ سے انہوں نے فائدہ سے زیادہ نقصان کر دیا۔ شام میں داعش نے
بھی ایسا ہی تجربہ کیا اور معیشت کو برباد کر دیا۔ نکتہ یہ ہے کہ اس طرح کے مذہبی قدامت
پسند حکمرانی کرنے سے قاصر ہوتے ہیں اور بالآخر سب کچھ برباد کر دیتے ہیں کیونکہ اسلام
کے پاس عصری زندگی کے بہت سے تقاضوں کا جواب نہیں ہے۔
FILE
- Afghan women, shown Nov. 19, 1996, in Kabul, wear Taliban-imposed burqas as
they wait during a winter relief distribution. Scores of poor Kabul residents,
notably women, were regularly seen huddled in front of aid agencies every day.
-----
کسی کا اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا
ہمت کا کام ہے لیکن طالبان کبھی ایسا نہیں
کریں گے کیونکہ ان کی ناکامی کا مطلب شریعت کی ناکامی بھی ہوگی۔ لوگوں کی توجہ ہٹانے
کے لیے وہ ایک بار پھر جذبانی اسلام کی طرف متوجہ ہوں گے خاص طور پر تعزیراتی دائرے
میں۔ مستقبل قریب میں ہم عوامی قتل، جبرا اسکولوں کی بندی اور مجسموں کی مسماری دیکھیں
گے اگر اب بھی کچھ موجود ہوں۔ یہ اسلام کی طاقت دکھا کر عام لوگوں کے دل و دماغ پر
قبضہ کرنے کی اداکاری ہو گی اور یہ بتانے کی کوشش ہوگی کہ اگر وہ طالبان کے قوانین
کی خلاف ورزی کریں گے تو ان کا کیا حشر ہوگا۔
Getty:
The Week, UK
-----
امریکی اور دیگر لوگ جمہوریت کے
قیام اور خواتین کو بااختیار بنانے کے مبنہ ارادے کے ساتھ افغانستان گئے تھے۔ لیکن
جس جلد بازی کے ساتھ وہ ملک سے باہر نکلے یہ واضح ہو گیا کہ ان کے وہ تمام وعدے محض
بیان بازی تھے۔ مغرب کو کبھی بھی ایسے بلند خیالات میں دلچسپی نہیں تھی بلکہ وہ صرف
سیکورٹی خدشات کی وجہ سے ملک پر قابض ہوا تھا۔ اب ہم انہی قوتوں سے سن رہے ہیں کہ یہ
ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے ملک میں جدید تبدیلیوں پر اثر انداز ہوں جو
طالبان کو اپنے حکمران کے طور پر منتخب کرتا ہے۔ انتخاب کا یہ تخمینہ اور ساتھ ہی ساتھ
امریکی افواج کا انخلاء باعث تجسس ہے۔ کیا خواتین کی معاشرے سے علیحدگی اور انھیں برقعہ
پہننے پر مجبور کیا جانا واقعی لاکھوں افغان کے لیے انتخاب کا سوال ہے؟ یا یہ طاقتور
مردوں کی ایک جماعت کا انتخاب ہے جو اس پریشان قوم کی طرف سے بول رہے ہیں؟
----------------
English Article: Afghans Face Grim Future after Taliban Takeover
Malayalam Article: Afghans Face
Grim Future after Taliban Takeover താലിബാൻ
ഏറ്റെടുത്തതിന് ശേഷം അഫ്ഗാനികൾ കടുത്ത പ്രതിസന്ധി നേരിടുന്നു
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism