New Age Islam
Mon Jun 16 2025, 08:06 AM

Urdu Section ( 24 Jul 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Adina Masjid of Bengal بنگال کے عدینہ مسجد میں ہندو دیوتاؤں کے پیکروں کا مطلب

نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر

24جولائی،2024

مغربی بنگال کے ضلع مالدہ کے شہر پنڈوا میں ایک قدیم مسجد واقع ہے جو انیسویں صدی عیسوی سے استعمال میں نہیں ہے۔ انیسویں صدی میں ایک زلزلے میں اس کا کچھ حصہ تباہ ہوگیا تھا۔ فی الحال یہ مسجد آثار قدیمہ کے ماتحت ایک قدیم تاریخی عمارت ہے۔ اس مسجد کا نام عدینہ مسجد ہے۔ عدینہ کا لغوی معنی جنتی یابہشتی ہے۔

اس مسجد کی تعمیر 1375ء میں دو سال میں مکمل ہوئی تھی اور اسے بنگال کے سلطان سکندر شاہ نے دہلی کے سلطان فیروز شاہ تغلق پر اپنی فتح کی یادگار کے طور پر تعمیر کروایا تھا۔ یہ اس وقت کی برصغیر کی سب سے بڑی مسجد تھی۔ جس کی لمبائی تقریباً 500 سو فٹ اور عرض تقریباً 300 فٹ تھا۔ اس وقت اس مسجد میں 260 ستون اور387 گنبد تھے۔اس کے علاوہ 39 محراب تھے۔ مسجد کے اندر بادشاہ کا تخت نام کا ایک خاص گوشہ تھا جہاں بادشاہ اور شاہی خاندان کی خواتین نماز پڑھتی تھیں۔ مسجد کے تین دروازے تھے۔

یہ مسجد دمشق کی مسجد کی طرز پر بنائی گئی تھی اور یہ مسجد اسلامی طرز تعمیر کا بہترین نمونہ تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود مسجد کی ایک خصوصیت ایسی ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے لئے باعث حیرت ہے بلکہ تنازع کا باعث بھی ہے۔مسجد کی کچھ دیواروں اور دروازوں پر ہندو دیوتاؤں شیو اور گنیش کے پیکر ابھارے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کنول کے پھولوں کے پیکر بھی جا بجا ابھارے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دیواروں پر اسلامی نقش و نگار اور طغرے بھی بنائے گئے ہیں اور بنگال میں استعمال ہونے والی لالٹین کے پیکربھی دیواروں پر ابھارے گئے ہیں۔۔

مسجدوں کی دیواروں پر زیب وزینت کے لئے سادہ نقش ونگار اور قرآن کی آیتیں ابھاری جاتی ہیں لیکن ان پر ہندوؤں کی مذہبی علامتوں اور دیوتاؤں کے پیکروں کی موجوگی آج کے مسلمانوں میں الجھن کا باعث ہے اور دو سال قبل ان تصویروں اور پیکروں کی وجہ سے فرقہ وارانہ تناؤ بھی پیدا ہوگیا تھا۔ مسجد کی دیواروں پر کنول کے پھول اور پتیوں کی تصویر کا جواز تو پیش کیا جاسکتا ہے لیکن مسجد کی دیواروں اور دروازوں پر گنیش اور شیو کے پیکروں کی آج کے مسلمانوں کے پاس کوئی توضیح نہیں ہے کیونکہ مسجد کے دیواروں پر دیوی دیوتاؤں کی تصاویر غیر شرعی ہیں۔ کیا مسجد کی دیواروں اور دروازوں پر ہندو دیوتاؤں کی تصویر الیاس شاہی سلطانوں کی روشن خیالی اور رواداری کی مظہر ہے یا شرعی امور اور اسلامی تعلیمات سے ان کی ناواقفیت کی دلیل؟ ہندوستان کے مسلم بادشاہ خصوصا ً بنگال کے سلاطین اور نواب بہت روشن خیال اورمذہب کے معاملے میں وسیع النظر تھے۔ لیکن مسجد کی دیواروں اور دروازوں پر ہندو دیوتاؤں کی تصویریں انکی روشن خیالی سے زہادہ مذہبی امور سے ان کی ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ ایک ویب سائٹ آرچ نیٹ کے مطابق مسجد کی بنیاد کے لئے لکھنوتی کی ایک دوسری ہندو عمارت کے پتھر لگائے گئے ہیں۔اس لئے ان پتھروں پر ہندو دیوتاؤں کی تصویریں موجود ہیں۔اس ویب سائٹ کےمطابق مسجد کا ایک دروازہ ایک ہندو مندر کے لئے مخصوص کیا گیا تھا اور غالباً سلطان کی بے وقت موت کی وجہ سے مسجد کی بغل میں مندر تعمیر نہیں ہوسکا۔ یہ جواز پیش کیا جاسکتا ہے کہ مسجد کے دروازوں پر دیوتاؤں کی تصویریں اس لئے ہیں کہ وہاں مندر تعمیر کرنے کا پلان تھا۔ لیکن مسجد کی دیواروں پر یندو مورتیوں کی موجودگی کا کیا جواز ہے سوا ئے اس کے کہ بنگال کے سلطان شرعی امور کی زیادہ واقفیت نہیں رکھتے تھے۔

بنگال کے سلطانوں کی اسی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے آج یہ مسجد تنازع کا سبب بن گئی ہے۔2022ء میں ایک ہندوتواوادی تنظیم نے مسجد کی دیواروں اور دروازوں پر دیوتاؤں اور کنول پھول کی تصویروں کی موجودگی کی بنا پر یہ دعوی کیا تھا کہ یہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی اور یہ عدینہ مسجدنہیں بلکہ آدی ناتھ مندر ہے۔ بہر حال یہ تنازع طول نہ پکڑ سکا اور وہیں دب گیا۔

مسجد میں ہندو علامتوں اور تصویروں کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عہد وسطی میں ہندوستان میں ہندوؤں کے بے شمار ایسے فرقے بھی تھے جو بت پرستی کو نہیں مانتے تھے۔ وہ شیو یا کرشن کوخدا کا اوتار یا اس کی علامت مان کر ایک خدا کی پرستش کیا کرتے تھے۔ لہذا یہ فرقے مسلمانوں سے مذہبی طور پر قریب تھے۔۔ناتھ پنتھ ایسا ہی ایک فرقہ تھا جو عہد وسطی میں ہندوستان میں مقبول تھا۔ یہ فرقہ بنگال میں بھی مقبول تھا۔ جنوب میں لنگایت اور پرنامی فرقے بھی مقبول تھے جوبت پرستی میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ مہاتما گاندھی کی والدہ پتلی بائی پرنامی فرقے سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس فرقے کے پیروکار وید ، گیتا اور قرآن تینوں صحیفوں کو مانتے تھے۔ اور ان کے مندروں میں گیتا اور قرآن دونوں کا پاٹھ ہوتا تھا۔اس لئے گاندھی جی نے کہا تھا کہ میرے ایک ہاتھ میں گیتا اور ایک ہاتھ میں قرآن ہے۔

لہذا، ہوسکتا ہے کہ بنگال میں بھی وحدت پرست یندو فرقوں کے لئے بھی اس مسجد میں جگہ چھوڑی گئی ہو اور ہندوؤں کے دیوتاؤں کی تصویریں بنوائی گئی ہوں تاکہ وہ بھی اپنے عقیدے کےمطابق یہاں عبادت کرسکیں۔عہدوسطی میں مسجدوں اور مبدروں کے متصل ہونے کی کئی مثالیں موجود ہیں خاص کر غیر بت پرست ہندوؤں کے مندروں کے۔ آج بدلے ہوئے سماجی اور مذہبی تناظر میں ایسی مسجدوں اور مندروں کو لے کر تنازع کھڑا کیا جاتا ہےکیونکہ ان مندروں اور مسجدوں کے متصل ہونے کا صحیح سیاق وسباق دستاویزوں میں تفصیل سے موجودنہیں ہے۔ عدینہ مسجد کا معاملہ بھی تاریخ کی دھند میں لپٹاہوا ہے اور فرقہ پرست طاقتیں اسے سطحی نقطہء نظر سے پیش کرتی ہیں اور مسلم حکمرانوں کے متعلق عوام کے دلوں میں بدگمانی پھیلاتی ہیں۔

------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/adina-masjid-bengal/d/132778

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..