مدثر جمال تونسوی
7جولائی،2017
اس وقت عمومی طور پر اکثر
مسلمان د وحصوں میں بٹے ہوئے ہیں : کچھ وہ ہیں جن کے پاس دنیوی مال و متاع کی فراوانی
ہے او ربظاہر وہ بڑے عیش و عشرت او ر لذت وسکون والی زندگی گزاررہے ہیں جب کہ دوسری
طرف ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو واقعی ’’ غربت زدہ‘‘ اور تکلیف دِہ زندگی گزار رہی ہے۔
عموماً دیکھا یہ جاتاہے کہ جب بھی کوئی آزمائش او رابتلاء آتا ہے تو شکوہ و شکایت کی
زبان بہت لمبی ہوجاتی ہے اور مسلسل اس بات پر رویا جاتاہے کہ ہمارے پاس تو کچھ ہے نہیں،
ہمارا تو سب کچھ چھن گیا ، ہمارا بچا ہی کیا ہے؟ چنانچہ اسی غم و اندوہ میں اللہ تعالیٰ
سے شکوہ و شکایت کی نوبت بھی آتی ہے ، ماردھاڑ بھی ہوتی ہے، بددعاؤں پر بددعائیں دی
جاتی ہیں، زبان سے گالیاں نکلتی ہیں، آنکھوں سے شرارے نکلتے ہیں ، سینہ ابلنے لگتا
ہے، الغرض ایک ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ گویا ابھی اپنے ہاتھوں مرنے کی تیاری ہوچکی
ہے۔
اسلام کی تعلیمات کو دیکھا
جائے تو وہ ایسا راستہ دکھاتا ہے کہ جس میں دنیا کا بھی سکون ہے اور آخرت بھی سکون
والی بنتی ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ آزمائش اور ابتلاء دو طرح کا ہوتاہے۔
(1) دنیاو ی آزمائش (2) دینی آزمائش
دینی آزمائش سے مراد یہ ہے
کہ انسان کے دین میں خلل آنے لگے، اطاعت اور فرمانبرداری کے بجائے گناہوں کی طرف میلان
زیادہ ہونے لگے، عقائد میں وسوسے ستانے لگیں ، اعمال میں سستی ہونے لگے، اگر ایسی کیفیت
ہوتو اس پر صبرنہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے بڑی ہی آہ وزاری کے ساتھ توبہ و استغفار کیا
جائے ، کیونکہ اگر اس حالت میں صبر کے نام پر ہاتھ پر ہاتھ دھرلئے جائیں تو شیطان کا
کام مزید آسان ہوجائے گا۔ اس لئے اس میں تو ضروری ہے کہ فوراً توبہ استغفار شروع کردیا
جائے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی جائے کہ اے اللہ! میرے دین میں کوئی مصیبت او رآزمائش
نہ ڈال! یہ الفاظ ایک مسنون دعاء کا ترجمہ ہیں۔
اہل علم فرماتے ہیں کہ ’’صبر‘‘
تین معاملات میں ہوتا ہے۔
(1)مصبیتوں پر صبر
(2) گناہ سے اجتناب پر صبر
(3) نیکیوں میں استقامت پر صبر
اس مضمون میں صبر کی پہلی
قسم پر کچھ ضروری باتیں عرض کرنی ہیں۔
انسان لمحہ بہ لمحہ اس زندگی
میں آزمائشوں سے گزرتا ہے ، کچھ حالات انسانی طبیعت کے موافق ہوتے ہیں اور کچھ مخالف
، کبھی خوشی کے لمحات نصیب ہوتے ہیں او رکچھ مخالف ہوتے ہیں تو کبھی غم و اندوہ کا
سامنا کرنا پڑتا ہے ، کبھی دل کی خواہشات بآسانی پوری ہوجاتی ہیں او رکبھی ضرورت کا
سامان ہاتھوں سے نکل جاتاہے ، کبھی دوستوں کی جھرمٹ میں زندگی کی مسرتیں حاصل ہوتی
ہیں تو کبھی دشمنوں کے نرغے میں جینا دوبھر ہوجاتاہے۔ الغرض اس دنیا میں ہمیشہ راحت
او رخوشی کے ساتھ درد ناک حالات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ، کامیاب انسان وہ ہے جو
زندگی میں آنے والے مصائب پر صبر کرے۔ اس صبر پر اللہ تعالیٰ ڈھیروں ڈھیر اجر عطاء
فرماتے ہیں ۔ اس بارے میں قرآن و سنت میں بڑی تفصیل موجود ہے، فی الحال صرف دو احادیث
پیش کی جاتی ہیں:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کوجوبھی دکھ، بیماری،
پریشانی ، رنج و غم او ر اذیت پہنچتی ہے ، یہاں تک کہ اسے کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ
تعالیٰ ان چیزوں کے ذریعے اس کے گناہ معاف فرمادیتے ہیں ۔ ( بخاری ومسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے بعض ایمان
والے مردوں او رعورتوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصائب اور حوادث آتے رہتے ہیں ، کبھی
اس کی جان پر ، کبھی اس کے مال پر، کبھی اس کی اولاد پر، اس کے نتیجے میں اس کے گناہ
جھڑتے رہتے ہیں یہاں تک کہ مرنے کے بعد وہ شخص اللہ تعالیٰ کے حضور اس حال میں پہنچتا
ہے کہ اس کا ایک گناہ بھی باقی نہیں ہوتا۔ ( بخاری)
عام طو رپر معاشرے میں صبر
صرف اسی چیز کو کہتے ہیں جو مصائب برداشت کرنے کے سلسلے میں کیا جاتاہے، صبر کی دیگر
دو اقسام بھی ہیں لیکن فی الحال اسی قسم کی کچھ تفصیل سے بیان کرنا مقصود ہے، کیونکہ
موجودہ حالات میں اکثر مسلمان کسی نہ کسی دنیاوی مصیبت کا شکار ہیں، اس لئے ضروری ہے
کہ ان کے دکھ درد کو کم کرنے کی جو ممکنہ کوشش ہو وہ کی جائے، اورظاہر ہے کہ صبر کی
تلقین بھی اس سلسلے کی اہم کاوش ہے ، ورنہ بے صبری تو انسان کی مصیبت کے ساتھ گناہوں
میں بھی مبتلا کردیتی ہے۔
اسلامی تاریخ میں ایک مشہور
صاحب علم گزرہے ہیں جو ’’ علامہ ابن جوزی‘‘ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، انہوں نے الثبات
عندالممات کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے او راس کے شروع میں کتاب لکھنے کی وجہ بیان
کی ہے کہ : میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اکثر مصائب کے وقت صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں
اور یوں واویلا کرتے ہیں گویا یہ دنیاہی ان کا سب کچھ تھی اور دنیا کی بعض نعمتیں چھن
جانے سے گویا ان کی پوری دنیا ہی چھن گئی، حالانکہ دنیا تو ہے ہی عارضی جگہ، یہ تو
محض رہ گزر ہے ، یہ تو عارضی ٹھکانہ ہے بلکہ یہ تو آخرت کی تیاری کے لئے بطور آزمائش
دی گئی ایک جگہ ہے، اس لئے اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھنا او راس کے ملنے پر خوشی منانا
اور چھن جانے پر بے انتہا واویلا کرنا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔ اس لئے میں
نے ارادہ کیا ہے کہ ان کے سامنے صبر کی اہمیت رکھو ں او ریہ بتاؤں کہ دنیا اصل نہیں
بلکہ یہ تو ہے ہی چھن جانے والی چیز، حتیٰ کہ ایک دن یہ زندگی ہی چھن جائے گی او رپھر
آخرت کی نئی زندگی شروع ہوجائے گی ، اس لئے جب یہ زندگی ہی چھن جانے والی چیز ہے تو
اس زندگی میں دنیا کی جو چیز بھی چھن جائے اس پر تعجب نہ کیا جائے بلکہ صبر کیا جائے۔
بعدازاں انہوں نے بتایا ہے
کہ مصیبتوں پر صبر کا حوصلہ پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آٹھ چیزوں کو دھیان میں رکھا
جائے ۔ وہ آٹھ چیزیں درج ذیل ہیں :
(1) تقدیر پر ایمان : یعنی جب ایک مومن بندہ یہ ایمان رکھتا ہے کہ یہ
نظام زندگی ہماری منشا و مرضی کے مطابق نہیں چل رہا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور تقدیر
کے مطابق چل رہا ہے او راس نے ہماری آزمائش کے لئے ہماری تقدیر میں اچھی چیزیں بھی
رکھی ہیں او ربری بھی، اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہنا چاہئے ۔ اگر
کوئی یہ اعتراض کرے کہ جناب ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش آنے والی بری تقدیر پر راضی
ہونے سے یہ مصیبت ٹل تو نہیں جائے گی پھر تقدیر پر راضی ہونے کا کیا فائدہ ؟ تو جواب
یہ ہے کہ اس میں دو فائدے ہیں: ایک تو یہ کہ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے
فیصلہ یہ ہوکہ پہلے بندے کو کسی مصیبت میں آزمایا جائے اگر وہ اس پرراضی رہے تو اس
کے انعام کے طور پر اسے دنیا میں ہی اس کا اچھا بدلہ دے دیا جائے ، اور دوسرا فائدہ
یہ ہے کہ اگر بالفرض دنیا میں وہ مصائب باقی ہی رہیں ختم نہ ہوں تو جناب ادھر آخرت
کی زندگی بھی تو آنی ہے اس صورت میں دنیا میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہونے کا
نتیجہ یہ نکلے گا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بھی اس بندے سے اپنی رضا کا اظہار فرمائیں
گے کہ یہ وہ بندہ ہے جس نے میری تقدیر پر ایمان رکھا اور اپنی رضا کے ساتھ اچھی تقدیر
کے ساتھ بری تقدیر کو بھی برداشت کیا اس لئے آج میں بھی اس سے اپنی رضا ء کا اعلان
کرتا ہوں۔ الغرض تقدیر پر ایمان رکھنے سے اگر وہ مصیبت ختم نہ بھی ہو تو کیا یہ کم
ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی اس رضا پر خوش ہوتے ہیں او راللہ تعالیٰ کی خوشنودی تو سب
سے بڑھ کر ہے۔
(2)دنیا کی حقیقت کو پہچاننا : جب بھی کوئی مصیبت آئے تو یہ سوچا جائے
کہ یہ دنیا توہے ہی آزمائش او رابتلاء کی جگہ، یہاں تو خوشی کامل جانا اچنبھے کی بات
ہے، اس لئے اپنے ذہن کو تیار ہی آزمائشوں کے لئے رکھنا چاہئے اور یہ سوچنا چاہئے کہ
یہاں آزمائشیں آئیں گی۔ اس کا فائدہ یہ ہوگاکہ ذہن آزمائش کے لئے پہلے سے تیار ہوگا
او رجب کوئی آزمائش آئے گی تو زیادہ پریشانی نہ ہوگی اور صبر کرنا آسان رہے گا؟ اسی
کے ساتھ جب کوئی خوشی ملے گی تو شکر کا جذبہ بھی خود بخود پیدا ہوگا کہ لوجی! وہ دنیا
جو ہے ہی مصیبتوں کی جگہ وہاں ہمیں آسانی اور آسائش مل گئی!
(3)جزع و فزع: (یعنی رونا ، پیٹنا ، گریہ وزاری) یہ خود ایک مصیبت ہے
،اس لئے جب ایک مصیبت سر پر آگئی تو اب اس پر جزع و فزع کرکے دوسری مصیبت خود سر پر
کیوں لی جائے؟
(4) اس مصیبت کے ساتھ موجود نعمت کو بھی دیکھا جائے : مثلاً اگر کسی
کے دو بیٹے تھے اب ان میں سے ایک فوت ہوگیا تو یقیناًیہ صدمے اور تکلیف کی بات ہے او
راگر انسان اسی صدمے کو دیکھے گا تو صبر کا دامن چھوٹ جائے گا لیکن اگر اسی کے ساتھ
یہ دیکھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا لیا ہے دوسرا تو موجو د ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ
یہ دوسرا بیٹا بھی ساتھ ہی لے سکتے تھے ؟ تو اس طرح اس مصیبت کے ساتھ دوسری نعمت کو
دیکھ کر وہ صدمہ برداشت کرنا آسان ہوجائے گا۔
(5) مصائب میں مبتلا دیگر لوگوں کے حالات سے عبرت لے: عربی کامقولہ
ہے : اذاعمت المصیبت سہلت یعنی : جب کوئی مصیبت عام ہوجاتی ہے تو اس کو برداشت کرناآسان
ہوجاتاہے۔ اس لئے کسی مصیبت پر یہ سوچنا کہ یہ تو صرف مجھ پر ہی ہے کسی دوسرے کو تو
کوئی مصیبت دی ہی نہیں جاتی اس سے پریشانی بڑھے گی لیکن جب دیگر مصیبت زدہ لوگوں کوبھی
دیکھا جائے تو اپنی مصیبت آسان لگے گی۔
(6) پیش آمدہ مصیبت سے بڑی مصیبتوں کا تصور کرے: یعنی یہ سوچے کہ اللہ
تعالیٰ نے یہ جو مصیبت دی ہے اس سے بڑی کوئی مصیبت بھی تو دے سکتے تھے؟ مثلاً ایکسیڈنٹ
ہوکر ایک ٹانگ میں فریکچر ہوگیا تو یہ سو چے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو دونوں ٹانگیں
بھی ناکارہ کرسکتے تھے مگر اس نے فضل فرمایا صرف ایک ٹانگ میں فریکچر آیا ۔ جب یہ سوچے
گا تو کوئی بھی موجودہ مصیبت برداشت کرناآسان ہوجائے گا۔
(7)نعم البدل کی امید رکھے: چونکہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے اس لئے جس
طرح یہاں ایسا ہوتا ہے کہ خوشی کے بعد مصیبت آجاتی ہے وہیں یوں بھی ہوتا ہے کہ بڑی
بڑی مصیبتوں کے بعد ایسی ایسی راحتیں او ر نعمتیں مل جاتی ہیں جو انسان کے تصور میں
بھی نہیں ہوتیں ، اس لئے جب بھی کوئی مصیبت آئے تو یہ امید رکھی جائے کہ اللہ تعالیٰ
اس کا کوئی اچھا بدلہ ضرور عطاء فرمائیں گے ۔ انشا ء اللہ
(8)اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید: بالفرض اگر دنیا میں کسی مصیبت پر کسی
اچھے بدلے کی امید نہ ہو تو تب بھی مایوس نہ ہونا چاہئے ، او رصبر کا دامن نہ چھوڑنا
چاہئے کیونکہ پہلے یہ بات عرض ہوچکی کہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ تو ہے نہیں، بلکہ
ایک دوسری اور اصل زندگی بھی آنے والی ہے جسے ’’ آخرت کی زندگی‘‘ کہتے ہیں او رہر چیز
کا اصل بدلہ تو وہیں ملے گا، اس لئے بالفرض اگر آج دنیا میں وہ مصیبت دورنہ بھی ہو
تو بھی صبر کرتے رہنا چاہئے کہ تاکہ قیامت کے دن اس صبر پر ڈھیروں ڈھیر اجر مل جائے
اور ظاہر ہے کہ اصل اجر تو وہی ہے جو آخرت میں ملے گا !
7جولائی،2017 بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/a-successful-man-one-patient/d/111859