مولانا وحیدالدین خان برائے نیو ایج اسلام
پیغمبر اسلام کی ایک دعا حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک جزء یہ ہے: اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ... مِنْ خَلِیلٍ مَاکِرٍ عَیْنَہُ تَرَانِی وَقَلْبُہُ تَرْعَانِی إِنْ رَأَى حَسَنَةً دَفَنَہَا، وَإِذَا رَأَى سَیِّئَةً أَذَاعَہَا (الدعاء للطبرانی، حدیث نمبر 1339)۔ یعنی اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں چالاک دوست سے جس کی آنکھیں مجھ کو دیکھتی ہوں، اور اس کا دل میرے خلاف سوچتا ہو۔ اگر وہ کسی اچھائی کو دیکھے تو اس کو دفن کردے، اور اگر وہ کسی برائی کو دیکھے تو اس کو پھیلا دے۔
اس حدیث میں خَلِیل مَاکِر(چالاک دوست) سے مراد منافق انسان ہے۔علامہ المناوی (وفات 1621ء)نے اس کی شرح ان الفاظ میں کی ہے إنسان یظہر المحبة والوداد وہو فی باطن الأمر محتال مخادع(فیض القدیر، جلد2، صفحہ145)۔ یعنی وہ انسان جو محبت اورتعلق کا اظہار کرے، حالانکہ اندرونی طور پر وہ فریبی اور دھوکہ دینے والا ہو ۔ منافق انسان کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ بظاہر کسی کا دوست بنتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ اس کا دوست نہیں ہوتا۔ اپنے دہرے کردار (double standard) والے مزاج کی بنا پر وہ ایسا کرتا ہے کہ جب وہ کسی شخص سے قریب ہوتا ہے تو بظاہر وہ اس کے موافق بات کہتا ہے، لیکن عین اُسی وقت اس کا ذہن اس کے خلاف سوچتا ہے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ ایسے انسان سے بچے، وہ اس کی بظاہر خوشنما باتوں سے دھوکہ نہ کھائے۔
ایسے انسان کی سب سے زیادہ تباہ کن عادت یہ ہوتی ہے کہ جھوٹی بات کرنا اس کے لیے محبوب بن جاتا ہے۔ اگر وہ کسی کے بارے میں بظاہر کوئی غلط بات سنے، تو وہ خوب عیب زنی کرے گا۔ اس کے برعکس، اگر اس کو کوئی اچھی بات ملے تو اس کو لوگوں سے بیان کرنااس کو پسند نہیں آئے گا۔اِس کے مقابلے میں دوسرا انسان وہ ہے،جو دوسروں کاخیر خواہ ہوگا۔ وہ بولے گا تو وہی بات بولے گا ،جو اس کے دل میں ہے۔ وہ کسی انسان کی اچھی بات کا چرچا کرے گا، ورنہ وہ اس کے بارے میں خاموش رہے گا۔ اِن میں سے پہلا کردار غیر ربانی کردار ہے، اور دوسرا کردار ربانی کردار۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/a-heartfelt-dua-/d/122200
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism