ڈاکٹر محمد واسع ظفر
(آخری حصہ)
24 جون 2022
تفکر فی الاحکام (Thinking
over the Commandments)
غور و فکر کا پانچواں
منہج وہ آیات بتاتی ہیں جن میں اللہ نے انسان کو اپنے تشریعی احکام کی حکمتوں میں
غور و فکر کی طرف متوجہ کیا ہے تاکہ وہ ان آیات و احکام کو اچھی طرح سمجھے اور
اپنی عملی زندگی پر منطبق کرے۔
مثال کے طور پر دیکھئے:
’’آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں
میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ
ان کے نفع سے بڑھ کر ہے، اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما
دیں: جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)، اسی طرح اﷲ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول
کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔‘‘ (البقرہ: ۲۱۹)
احکام قصاص کے بیان کے بعد
فرمایا:
َ ’’اے فہیم لوگو! (اس
قانون) قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے، امید ہے کہ تم لوگ (اس قانون کی خلاف ورزی
کرنے سے) پرہیز کروگے۔‘‘(البقرہ: ۱۷۹)
اسی طرح روزہ میں رخصت کے
پہلو کو بیان کرکے فرمایا: ’’(یہ) گنتی کے چند دن (ہیں)، پس اگر تم میں سے کوئی
بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس
کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے
(زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لئے
بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو۔‘‘ (البقرہ: ۱۸۴)
نماز جمعہ کے سلسلے میں
فرمایا:’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو
فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت
(یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔‘‘
(الجمعۃ: ۹)
اس موضوع کی اور بھی
آیات ہیں مثلاً البقرۃ: ۱۸۵،
۲۳۰، ۲۴۰ -۲۴۱، ۲۸۲، النسآء: ۲۳ - ۲۶، المآئدۃ: ۸۹، ۱۰۰، الانعام: ۱۱۹، العنکبوت: ۴۵، الحشر: ۷ وغیرہ۔
یہ آیات علم فقہ (Jurisprudence) اور علم تزکیہ کے
حصول کی ترغیب دیتی ہیں،جن میں علی الترتیب شرعی احکام کے دلائل اور ان کی روح سے
بحثیں کی جاتی ہیں،لیکن وہ علم تصوف مطلوب و مقصود ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت ہو
نہ کہ بدعات و خرافات۔
تفکر فی الاقوام (Thinking
over the Past Nations)
غور و فکر سے متعلق چھٹے
منہج کا اشارہ ان آیات میں ہے، جن میں تاریخی مراحل میں قوموں کے اندر جاری اللہ
تعالیٰ کی سنت پر غور کرنے کی دعوت ملتی ہے۔ملاحظہ کیجئے :
’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو
ہلاک کردیا جنہیں ہم نے زمین میں (ایسا مستحکم) اقتدار دیا تھا کہ ایسا اقتدار
(اور جماؤ) تمہیں بھی نہیں دیا اور ہم نے ان پر لگا تار برسنے والی بارش بھیجی
اور ہم نے ان (کے مکانات و محلّات) کے نیچے سے نہریں بہائیں پھر (اتنی پُرعشرت
زندگی دینے کے باوجود) ہم نے ان کے گناہوں کے باعث انہیں ہلاک کردیا اور ان کے بعد
ہم نے دوسری اُمتوں کو پیدا کیا۔‘‘ (الانعام:۶)
پھر فرمایا:’’اور بیشک ہم
نے تم سے پہلے (بھی بہت سی) قوموں کو ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا، اور ان کے
رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایمان لاتے ہی نہ تھے، اسی طرح ہم
مجرم قوم کو (ان کے عمل کی) سزا دیتے ہیں،پھر ہم نے ان کے بعد تمہیں زمین میں (ان
کا) جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ (اب) تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘ (یونس: ۱۳ - ۱۴)
ایک اور جگہ ایمان والوں
کے لیے یہ ضابطہ بتایا ہے :
’’اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفا اور تعمیل امت
پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین
میں خلافت (یعنی امانتِ اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو
(حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لئے ان کے دین کو جسے اس نے ان
کے لئے پسند فرمایا ہے (غلبہ و اقتدار کے ذریعہ) مضبوط و مستحکم فرما دے گا اور وہ
ضرور (اس تمکّن کے باعث) ان کے پچھلے خوف کو (جو ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی
کمزوری کی وجہ سے تھا) ان کے لئے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دے گا، وہ (بے خوف ہو
کر) میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (یعنی صرف میرے
حکم اور نظام کے تابع رہیں گے)، اور جس نے اس کے بعد ناشکری (یعنی میرے احکام سے
انحراف و انکار) کو اختیار کیا تو وہی لوگ فاسق (و نافرمان) ہوں گے۔‘‘(النور: ۵۵)
اس طرح کی اور بھی آیات
ہیں مثلاً: آل عمران: ۱۳۷ - ۱۳۸،
الانعام: ۱۱،
الاعراف: ۹۶،
۱۳۶ - ۱۳۷، ھود: ۱۸ - ۲۰، یوسف: ۱۰۹، الحج: ۴۰ - ۴۱، النمل: ۶۹، القصص: ۴ - ۶، الروم: ۹ وغیرہ۔
ان آیات سے علم تواریخ
کے مطالعے کی طرف رہنمائی حاصل ہوتی ہے، جس کا مقصد گزشتہ قوموں کے اندر جاری اللہ
تعالیٰ کی سنت کو سمجھناہو، یعنی وہ کیا عوامل ہیں، جن سے کسی قوم کو عروج اور
ترقی حاصل ہوتی رہی ہے اور جن سے کسی قوم کا زوال ہوتا آیا ہے؟ انسان تاریخ کے
مطالعے سے اگر ان عوامل کو سمجھ لے تو بہت سی غلطیوں سے بچ سکتا ہے اور ترقی و
عروج کے بلند و بالا مقام کو پاسکتا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت بدلتی نہیں
جیسا کہ مذکورہ بالا آیات میں قرآن کا اعلان ہے۔
واضح رہے کہ اسی طرح اللہ
تعالیٰ کی سنت کائنات میں رونما ہونے والے حادثات و تغیرات میں بھی جاری ہے، جسے
سائنسداں Law of Nature (لاء آف نیچر یعنی
قانونِ قدرت) کہتے ہیں۔ سائنس درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ان سنتوں، یعنی ’قدرتی
قوانین‘ کو سمجھنے اور ان کی وضاحت کرنے کا عمل ہے۔
ان تفصیلات سے اس بات کا
اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے انسان کو غور و فکر کی دعوت کس اہتمام سے دی ہے ۔ یہ
اہتمام انسانی زندگی میں غور و فکر کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ غور و فکر اور
تدبرو تفکر ہی ہے جس سے علمی تحقیق کی راہیں کھلتی ہیں۔ انسان قرآن کے بتائے ہوئے
نہج کے مطابق جس رخ پر بھی اپنے تدبر و تفکر کو مرکوز کرے گا ، خود کو علم کے ایک
اتھاہ سمندر میں غوطہ زن پائے گا۔ اس لئے قرآن کریم کی غور و فکر پر یہ تاکید
دراصل علم و تحقیق کی دعوت ہے جو تمام انسانوں کو دی گئی ہے اور ایک مسلمان چونکہ
اس کا خصوصی مخاطب ہے، اس لئے اس پر یہ لازم ہے کہ وہ ان میدانوں میں اپنی
صلاحیتوں کو صرف کرے، جن کی نشاندہی مختلف ذیلی عناوین کے تحت سطور بالا میں کی
گئی ہے اور دیگر نامناسب اور غیرمفیدمیدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے
بچائے۔
قرآن حکیم نے علم کے
سلسلے میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق نہیں کی، صرف اس کے نفع کے پہلو کو ملحوظ
رکھا ہے۔ لہٰذا جو شخص مذکورہ علوم کو کائنات میں بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں کو
دریافت کرنے، اس کی قدرت اور کاریگری کو سمجھنے اور اس کی مخلوقات خصوصاً عالم
انسانیت کی نفع رسانی کی غرض سے جس کا حتمی مقصد حصول رضائے الٰہی ہو ، حاصل کرنے
کی سعی کرے گا تو اس کا یہ عمل عینِ دین ہوگا اور وہ ان تمام فضیلتوں کا مستحق
ہوگا جو علم کے سلسلے میں قرآن وحدیث میں وارد ہوئے ہیں۔ ماضی میں ہماری درسگاہوں
میں بھی علم کے سلسلے میں ایسی کوئی تفریق نہیں پائی جاتی تھی۔
فقہ، تفسیر، اصول تفسیر،
حدیث، اصول حدیث، تصوف، علم لغت، تاریخ کے ساتھ ساتھ مختلف سائنس اور ریاضی کے
میدان میں مسلم اسکالرز کی کاوشوں سے جو علمی سرمایہ وجود میں آیا، اس کا محرک
دراصل وہ قرآنی آیات ہی تھیں، جن میں ضروری علم کے ساتھ غور و فکر اور تدبر و
تفکر کی دعوت دی گئی ہے اورجس نے مسلمانوں کو علم و ترقی کے بام عروج پر پہنچایا
اور یورپی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کا بھی موجب بنا، جس کا اعتراف مغربی مفکرین بھی کرتے ہیں۔ تاہم،
افسوس کہ مسلمانوںکی اکثریت نے قرآن حکیم سے رہنمائی کے حصول کا سلسلہ ترک کردیا
اور مختلف علوم کے درمیان تفریق شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں ان کا زوال شروع ہوا
اور آج یہ قوم آبادی کے لحاظ سے دوسرے مقام پر ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا میں بے
وزن ہے۔ وہ قوم جو کبھی دیگر اقوام عالم کی امام تھی آج ہر جدید نفع بخش علم کے
سلسلے میں دوسروں کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔
24 جون 2022، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
Part-1: Several Ways to Meditation in the Holy Quran قرآن کریم میں غور و فکر کے
طریقے
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism