New Age Islam
Wed May 14 2025, 04:58 AM

Urdu Section ( 14 March 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Who Is Behind Mysterious Gas in Iran ایرانی اسکولوں میں زہریلی گیس کا معاملہ

سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام

14 مارچ 2023

گزشتہ نومبر کے مہینے سے ایران کے اسکولوں میں ایک۔نامعلوم زہریلی گیس سے سینکڑوں طالبات کے بیمار پڑ جانے کے اسباب پر سے ابھی تک پردہ نہیں ہٹایا جاسکا ہے۔ حکام اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے ان واقعات کی کوئی سانسی وضاحت نہیں پیش کر سکے ہیں. انہوں نے تین ماہ کے بعد 100 افراد کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے لیکن ان گرفتاریوں کے بعد بھی ایرانی حکومت زہریلی گیسوں کے پیچھے افراد، محرکات اور استعمال ہونے والے کیمیائی مرکبات پر کھل کر کچھ کہنے سے یا تو قاصر ہے یا پھر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

ستمبر2022 میں ایرانی کی اخلاقی پولیس گشت ارشاد نے مہسا امینی نام۔کی ایک کرد دوشیزہ کو حجاب اچھی طرح نہ پہننے پر زدوکوب کیا تھا جس کے دو تین روز کے بعد اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔ اس کی موت سے پورے ایرانی عوام۔میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی اور عوام خصوصاً عورتیں احتجاج میں سڑکوں پر نکل آئیں ۔ انہوں نے حجاب کے سخت قانون کی مخالفت کی۔ لیکن ایرانی حکومت نے احتجاج کے تئیں نرم رویہ اختیار کرنے کے بجائے احتجاج کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی اور احتجاج مخالف خواتین کو اسلام۔مخالف قرار دے کر انہیں گرفتار کیا اور انہیں اذیتیں دیں۔ سینکڑوں مردوں اور خواتین کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا اور ہزاروں مردوں اور خواتین کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ کچھ لوگوں کو پھانسی بھی دی گئی۔

ابھی احتجاج چل ہی رہے تھے کہ نومبر میں ایران کے شہر قم۔کے ایک اسکول کی طالبات کسی زہریلی گیس سے بیمار پڑگئیں۔ انہیں ہسپتال۔میں داخل کرایا گیا۔ وہ سبھی کچھ دنوں میں شفایاب ہوگئیں۔ لیکن یہ ایک استثنائی واقعہ نہیں تھا۔ اس طرح کے واقعات ایران کے دوسرے شہروں میں بھی ہونے لگے۔ ایک نامعلوم زہریلی گیس,سے اسکولی طالبات کے بیمار پڑنے کے واقعات دسمبر جنوری اور فروری میں بھی ہوئے اور تادم تحریر اسکولوں میں طالبات کے بیمار پڑنے کے معاملات سامنے آرہے ہیں۔

ایران ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس نے سائنس,اور ٹکنالوجی کے میدان۔میں تمام۔اسلامی۔ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ایٹم بم۔بنانے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ ایسے ملک کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ تین مہینوں سے ایک نا معلوم گیس یا کیمیکل سے ہونے والی بیماریوں کے اسباب اور اس کے پیچھے چھپے ہوئے افراد یا گروہ کا پتہ نہیں لگا سکتا۔ یہ بات بھی کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ ایرانی حکومت نے اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے واقعات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جبکہ آج بایولوجیکل وار فئیر کے امکانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ نومبر سے مارچ تک ایران کے 25 اضلاع کے 230 اسکولوں میں 5000 سے زائد طلبہ و طالبات نامعلوم گیس یا کیمیاوی مرکب سے بیمار پڑچکے ہیں لیکن ایرانی حکومت نے گزشتہ چند دنوں میں ہی اس پر کارروائی کرکے تہران، قم، زنجان، خزستان، ہمدان ، فارس، گیلان، مغربی آذربائیجان، مشرقی آذربائیجان، کردستان اور خراسان رضاوی سے 100 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان افراد سے تفتیش کے بعد ایرانی حکومت نے زہرخورانی کے پیچھے کے محرکات کے متعلق بتایا کہ ان لوگوں نے شرارت سے یا لڑکیوں کے اسکولوں کو بند کروانے کے مقصد سے کیمیاوی مرکبات کا,استعمال کیا۔ایران کی وزارت صحت کے ماتحت قائم۔کردہ ایک سائنٹفک کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبات کے ایک نقصاندہ گیس سونگھنے کی وجہ سے یہ بیماری ہوئی ہے۔حکومت کے ان بیانات سے یہ تو واضح ہو گیا کہ طالبات کی بیماری کی وجہ اسکولوں میں ایک نامعلوم گیس کا پھیلاؤ ہے۔ ۔ لیکن اس سے زیادہ ایرانی حکومت نے کچھ نہیں بتایا۔ ظاہر ہے جب ملک گیر پیمانے پر کوئی منظم سازش کی جارہی ہے تو اس کے پیچھے کوئی منظم گروہ ہوگا اور اس کا کوئی مقصد ہوگا۔ اگر ان کا مقصد طالبات کے سکولوں کو بند کرانا تھا تو اس کا محرک نظریاتی ہی ہوسکتا ہے۔واضح ہو کہ زہر خورانی کے زیادہ تر واقعات لڑکیوں کے اسکولوں میں ہی ہوئے ہیں۔اور مہسا امینی کے قتل کے خلاف احتجات بھی سب سے پہلے یونیورسٹیوں میں ہی شروع ہوئے تھے۔ حکومت کے کچھ افسران کا,خیال ہے کہ یہ سازش اسلامی تنظیموں سے وابستہ افراد کی ہو سکتی ہے جو تعلیم نسواں کے مخالف ہیں۔ حکومت مخالف سماجی کارکنان کو شک ہے کہ اس سازش کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہے۔ یہ طبقہ غالباً یہ سمجھتا ہے کہ خواتین میں تعلیمی بیداری آجانے کی وجہ سے ان کے اندر باغیانہ جذبات پنپنے لگے ہیں جو ایک اسلامی حکومت کے لئے خطرہ ہیں اس لئے ان کو تعلیمی پیش رفت سے روکنا ضروری ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر جو اتنے عرصے خاموش تھے اب یہ کہنے لگے ہیں کہ طالبات کی زہر خورانی ایک ناقبل معافی جرم۔ہے جبکہ اس سے قبل خواتین کے احتجاج پر ان کا رویہ بہت سخت تھا۔

حکومت ایران نے زہرخورانی معاملے کو کسی دشمن ملک کی سازش بتایا ہے۔ کسی بھی ملک میں اندرونی خلفشار میں کسی بیرونی ہاتھ کے امکان کو یک قلم۔مسترد نہیں کیا جا سکتا جبکہ اسرائیل اور امریکہ ایران کو اندر اور باہر سے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اسکولوں میں طالبات کے کسی انجان گیس کی وجہ سے بیمار پڑجانے کے واقعات پہلی بار کسی ملک میں رونما نہیں ہوئے ہیں۔ ایسا 1984 میں فلسطین میں بھی ہوچکا ہے۔ مغربی کنارے میں واقع ایک اسکول کی سینکڑوں طالبات کسی نامعلوم گیس,سے بیمار پڑگئی تھیں اور شک کی سوئی اسرائیل۔کی طرف گئی تھی۔ لیکن بعد میں کہا گیا تھا کہ اسکول کے بیت الخلاء کی بدبو سے طالبات بیمار ہوئی تھیں۔ فلسطین اور اسرئیل کے درمیان کئی دہائیوں سے تصادم جاری ہے اس لئے اسرائیل کو,آسانی سے ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا تھا۔ اسی طرح ایران اور اسرائیل کے درمیان بھی کچھ برسوں سے تصادم کا ماحول ہے۔ اس لئے ایران میں کسی بیرونی سازش سے انکار نییں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر 100 گرفتار شدگان میں سے ایک بھی اسرائیل کا ایجنٹ نکلتا تو ایران کی حکومت نے اب تک خاموشی اختیار نہ کی ہوتی بلکہ اسے بایولیجکل حملہ قرار دے کر اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھا چکا ہوتا۔ لہذا، حکومت کے روئے سے یہ واضح ہے کہ ابھی تک اس معاملے میں حکومت ایران کے پاس کسی بیرونی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ قرین قیاس یہی ہے کہ ملک کے اندر ہی تعلیم نسواں اوربیدارئ نسواں کے مخالف مذہبی گروہ سے وابستہ افراد ہی طالبات کو اسکولوں سے ہٹانے کے لئے کم شدت کے بایولوجیکل ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ حکومت کے نمائندوں کے ذریعہ مذہبی گروہوں کی طرف دبی زبان میں اشارے سے اس بات کا بھی عندیہ ملتا ہے کہ سیاسی قیادت اور مذہبی قیادت کے درمیان خواتین کے حقوق کو لیکر اختلافات ہیں ۔ حقیقت چاہے جو بھی ہو ، معصوم طالبات کے ساتھ مذہبی جنون کا یہ مظاہرہ نہ تو مذہبی نقطہء نظر سے درست ہے اور نہ اخلاقی نقطہ ءنظر سے۔ اور یہ کسی بھی اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے پر ایک بدنما داغ ہے۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/-behind-mysterious-gas-iran/d/129318

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..