محمد ضیاء الدین برکاتی ، نیو ایج اسلام
رواداری انسانوں کے فطر ی حقوق کی پاس داری کا نام ہے۔ یہ حقوق مختلف قسم کے ہیں :مذہبی اعمال اور قوانین کے برتنے کے حقوق، قبائلی اور علاقائی حقوق، خانگی اور معاشرتی حقوق اور پھر جانوروں ، درختوں ،سبزہ زاروں اور فطری خوبصورتی کے حقوق اور اب سب کی عملی طور سے پاس داری کا نام رواداری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس رواداری کا صحیح منظر نامہ دنیا نے عہد رسالت میں دیکھا ، جب محسن انسانیت نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کی زمین پر حقیقی رواداری کے سبزے اگائے اور حقوق کی پاس داری کا خوش گوار چمن آبا د کردیا۔
لیکن ہر دور میں دشمنان اسلام دین اسلام کی حقانیت کو مجروح کرنے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے رہے، خصوصاً کفارو مشرکین او ر یہودو نصاریٰ اسلام کی عالمگیر مقبولیت کے خلاف عنادیہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے،جزیہ کی وصولی کو وہ غیر مسلموں کو مجبور کر کے اسلام میں داخل کرنے کا حربہ قرار دیتے ہیں ، وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں پر ہر طرح سے ظلم و جبر کو روا رکھا ، ان کے حقوق تلف کیے اور مذہبی رواداری کے نام پر اسلام کی تبلیغ کی حالانکہ تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ ساری باتیں بے بنیاد اور بے اصل ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان لگائے جارہے ہیں ۔
حق یہ ہے کہ پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ والسلام نے دس سال کی انتہائی مختصر مدت میں دین اسلام کو عربوں اور دنیا کے مختلف المزاج بے شمار انسانوں کے دل و دماغ میں پیوست کردیا، عربی زبان سے نہیں بلکہ عمل کی زبان سے، کسی ہتھیار سے نہیں بلکہ اخلاق کی زبان سے اور سخت گیر قوانین سے نہیں بلکہ روادارانہ نظام کے ذریعے اس حقیقت کا اعتراف دنیا کے تمام مفکرین اورتاریخ دانوں بلکہ بادشاہوں اور حکمرانوں نے بھی کیا ہے اور گنتی کے چند افراد نے منفی باتیں بھی لکھی ہیں لیکن ان کی تعداد سو میں ایک فیصد بھی نہیں ، اس لیے ان کا تذکرہ کرنا اپنا وقت ضائع کرنا ہے جیسے انہوں نے اپناوقت ضائع کیا ہے۔ اب ملاحظہ کریں مذہبی رواداری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ کریم کے منظر نامے:
یہودیوں کے ساتھ مذہبی رواداری:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ میں یہودیوں کا کافی زور تھا، مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے تین قبیلوں بنو قنسیقاع ، بنو نضیر اور بنو قریضہ کا بڑا رعب تھا، انہوں نے اپنے لیے بڑے بڑے قلعے بنا لیے تھے اور مدینہ کے دو قبیلے اوس اور خزرج کو اپنی فتنہ انگیزیوں سے لڑایا کرتے ، جس سے یہ قبیلے پریشان رہا کرتے تھے، جب دھیرے دھیرے اسلام کا زور بڑھنے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہودیوں کی شر انگیزیوں اور بد باطنی سے واقفیت رکھنے کے باوجود ان کے اور مسلمانوں کے تعلقات خوشگوار بنانے اور مذہبی رواداری کو قائم کرنے کی کوشش فرمائی اور ایک معاہدہ لکھوایا جس کے شرائط یہ قرار پائے: (1(
(1) خوں بہااور فدیہ کا جو طریقہ پہلے سے چلا آتا تھا، اب بھی قائم رہے گا۔
(2) یہود کو پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔
(3) یہود اور مسلمان آپس میں دوستانہ تعلقات رکھیں گے۔
(4) فریقین میں سے جب کسی تیسرے فریق سے جنگ ہوگی تو وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
(5) کوئی فریق قریش کو امان نہ دے گا۔
(6) کوئی بیرونی طاقت مدینہ پر حملہ کرے گی تو دونوں مل کر مدافعت کریں گے۔
(7) کسی دشمن سے اگر ایک فریق صلح کرے گا تو وہ دوسرا بھی شریک ہوگا، البتہ مذہبی لڑائیاں اس سے مستثنیٰ رہیں گی۔
جنگ خیبر 7ھ میں مسلمانوں نے یہودیوں کے جانور اور مال لوٹ لیے، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا ، اور آپ نے تمام لوگوں کو جمع کر کے فرمایا : ’’ خدا نے تم لوگوں کے لیے یہ نہیں جائز کیا کہ اہل کتاب کے گھروں میں گھس جاؤ مگر با اجازت اور نہ یہ کہ ان کی عورتیں کو مارو، نہ یہ کہ ان کے پھل کھاؤ۔(2(
ایک بار ایک یہودی نے بر سر بازار کہا کہ قسم اس ذات کی جس نے موسیٰ کو تمام انبیاء پر فضیلت دی۔ ایک صحابی نے یہ سن کر پوچھا’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ‘ تواس نے کہا ’’ ان پر بھی ‘‘ صحابی نے غصہ میں آکر اس کو ایک تھپڑ مار دیا ۔ یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی، آپ نے صحابی پربرہمی کا اظہار فرمایا ۔(3(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری کا یہ عالم تھا کہ ابتدائے اسلام میں مسلمانوں پر کافروں کے ذریعے ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے تو اس سے متاثر ہوکر ایک صحابی نے عرض کیا کہ ان دشمنوں کے حق میں بد دعا فرمائیں ۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرۂ مبارک سرخ ہوگا۔(4)
کفارو مشرکین کے ساتھ مذہبی رواداری:
مکہ میں جن دنوں مسلمانوں پر مظالم ہورہے تھے تو سخت قحط پڑ گیا۔ لوگ ہڈی اور مردار کھانے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید دشمن ابو سفیان ( جو فتح مکہ کے موقعے پر اسلام لائے) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ محمد! تمہاری قوم ہلاک ہورہی ہے ، اللہ سے دعا کرو کہ یہ مصیبت جاتی رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے اور اللہ نے اس مصیبت کو دور کردیا۔ (5(
حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میری والدہ جو کہ مشرکہ تھیں معاہدۂ قریش کے زمانے میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا اور عرض کیا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہیں اور وہ مجھ سے ملاقات کی خواہش مندہیں ،کیا میں ان سے مل سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روداری کا ثبوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ہاں! تم ان سے مل سکتی ہو۔ (6(
عیسائیوں کے ساتھ مذہبی رواداری:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی لڑائی عیسائیوں سے نہیں ہوئی ، ان سے معاہدے ہوتے رہے۔6ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں سینا پہاڑی کے راہیوں کوبڑی مراعات دیں جو رواداری کی شاندار مثال ہے۔
اس چارٹر میں آپ نے اپنے پیروں کی طرف سے یہ ضمانت لی کہ عیسائیوں کو کسی قسم کاکوئی نقصان نہ پہنچایا جائے گا، ان کے گرجے اور ان کے پادریوں کی پوری حفاظت کی جائے ،ان سے غیر منصفانہ طور پر ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے، کسی عیسائی کو جبر سے اس کے مذہب سے منحرف نہ کیا جائے گا، کوئی راہب اپنی خانقاہ سے نہ نکالا جائے گا ،کوئی عیسائی اپنے مقدس مقامات کی زیارت کو جائے گا تواس سے کوئی مزاحمت نہ کی جائے گی، کسی گرجے کو منہدم کر کے مسجد یا کسی مسلمان کا گھر نہیں بنایا جائے گا ،جو عیسائی عورتیں مسلمانوں کے نکاح میں ہیں ان کو اپنے مذہب پر قائم رہنے کی پوری اجازت ہوگی، ان پر مذہب کی تبدیلی کے لئے کوئی جبر اور زور نہ ڈالا جائے گا، اگر عیسائیوں کو ان کے گرجوں ، خانقاہوں اور مذہبی عمارتوں کی مرمت کے لیے امداد کی ضرورت ہوگی تو مسلمان ان کو مالی امداد دیں گے ، ان شرائط کی خلاف ورزی مسلمان کریں گے تو ان کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔(7(
عیسائیوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اچھا سلوک کیا۔ حاتم طائی کے بیٹے عدی اپنے قبیلے کے سردار اور مذہباً عیسائی تھے ۔ جس زمانے میں اسلامی فوجیں یمن گئیں یہ بھاگ کر شام چلے گئے، ان کی بہن گرفتار ہوکر مدینہ آئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بڑی عزت کے ساتھ رخصت کیا۔ وہ اپنے بھائی عدی کے پاس گئیں او رکہا کہ جس قدر جلد ہوسکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو، وہ پیغمبر ہوں یا بادشاہ ،ہر حال میں ان کے پاس جانامفید ہے۔عدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے ایسے متاثر ہوئے کہ اسلام قبول کر لیا۔(8(
نجران کے عیسائیوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو برتاؤ رہا،وہ رواداری کی بڑی بے نظیر مثال ہے۔ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ،اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں نماز عصر پڑھ کر فارغ ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا ، جب ان کی نماز کا وقت قریب ہوا تو ان کو اپنے طریقے پر مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی۔ (9(
قاصدوں کے ساتھ مذہبی رواداری:
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلم قاصدوں کے ساتھ مذہبی رواداری کا برتاؤ پیش کرتے اور ان کی عزت و آبرو کے حفاظت کرنے کی تاکید کرتے تھے، ان کی اعلیٰ ضیافت کا انتظام فرماتے، واپسی کے وقت قیمتی تحائف پیش فرماتے ۔ ایک بار بادشاہ ہر قل کا قاصد سرکار کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی واپسی پر انہیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے توسط سے ایک قیمتی صفوری جوڑاعنایت فرمایا۔ (10(
حضرت ابورافع فرماتے ہیں کہ مجھے قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قاصد بنا کر بھیجا ، جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا تو میرے دل میں اسلام ڈال دیا گیا، لہٰذا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اب میں قریش کے پاس لوٹ کر نہیں جاؤں گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،بے شک میں بد عہدی نہیں کرتا اور نہ ہی میں قاصدوں کو ذلیل کرتا ہوں، لہٰذا تم واپس جاؤ اگر تمہارے دل میں جو چیز ہے ، باقی رہے پھر آنا ۔ (11(
تاریخ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ جن پر قبول اسلام سے پہلے نقض عہد کا الزام تھا اور وہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قریش کے قاصد کی حیثیت سے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی تعرض نہ فرمایا، نقض عہد کا جرم لائق گردن زنی تھا لیکن چونکہ وہ مشرکین کے قاصد کی حیثیت سے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ، ا س لئے انہیں رواداری کو قائم رکھنے کے لیے جانے دیا۔(12(
جنگ میں مذہبی رواداری:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہبی رواداری کا لحاظ جنگ جیسے نازک موقعوں پر بھی کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں لڑنے کے جو اصول و قوانین مرتب کیے ان میں سے سبھی قابل ذکر ہیں، چند ملاحظہ فرمائیں ۔(13(
(1) کسی بوڑھے ،کسی بچے یا کسی عورت کو قتل نہ کیا جائے ۔
(2) دوران جنگ دشمن کے مال اور خاندان کو نہ لوٹا جائے ۔
(3) مقتولوں کا سرکاٹ کر گشت نہ کرایا جائے۔
(4) دشمن کو گرفتار کرکے کسی چیز سے باندھ کر تیروں سے نشانہ یا تلوار وں سے نہ کاٹا جائے ۔
(5) جنگ میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے ۔
(6) دشمن اگر صلح کے لیے جھکیں تو ان سے صلح کرلی جائے ۔
(7) معاہدہ کا پیام لے کر کوئی قاصد آئے تو اس کے جان کی پوری حفاظت کی جائے ، اگر اس سے اختلاف بھی ہو توکسی حال میں قتل نہ کیا جائے ۔
(8) دشمنوں سے معاہدہ کی پابندی ہر حال میں کی جائے ۔
(9) جنگ میں قتل ہونے والے مقتولین کا مثلہ نہ کیا جائے ، ان کے ناک ، کان، آنکھ نہ کاٹے جائیں ، ان کے چہرے کو مسخ نہ کیا جائے ۔
حضرت رہاح بن ربیع کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک عزوہ میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کسی چیز پر اکٹھا دیکھا تو ایک شخص کو بھیجا کہ لوگ کیوں جمع ہیں، اس نے آکر بتایا کہ لوگ ایک مقتول عورت کے ارد گرد جمع ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :یہ تو جنگ نہیں کررہی تھی، خالد بن ولید اس لشکر کے امیر تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک شخص کے ذریعہ حکم دیا کہ خالد سے کہہ دو کہ عورت اور کسی مزدور کو قتل نہ کیا جائے ۔ (14(
اس سے بہتر جنگ میں بھی مذہبی رواداری قائم کرنے کے اصول و ضوابط دنیا ، نہ پیش کرسکتی ہے او رنہ ہی دکھا سکتی ہے۔
جنگی قیدیوں کے ساتھ مذہبی رواداری:
جنگ بدر کے خاتمہ کے بعددشمنان اسلام اسیرن جنگ بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جنگی قیدیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ نفس رواداری کی اعلیٰ مثال ہے۔ یہ قیدی دو دو، چار چار کرکے صحابہ کرام میں تقسیم کردیے گئے ،جن کے پاس کپڑے نہیں تھے انہیں کپڑا دلوایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ وہ آرام کے ساتھ رکھے جائیں ، ۔ صحابہ نے اس حکم کی تعمیل کی ، وہ خود کھجور کھاکر رہ جاتے مگر اپنے دشمنوں کو پورا کھانا کھلاتے تھے ۔ (15(
ان قیدیوں میں ابوعزیز کا بیان ہے کہ انصار جب صبح یا شام کو کھانا لاتے تو روٹی میرے سامنے رکھ دیتے اور خود کھجور یں اٹھا لیتے ،مجھ کو شرم آتی اور روٹی ان کو ہاتھ میں دے دیتا لیکن وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے او رمجھ کو واپس دے دیتے او ریہ اس بنا پر تھاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قیدیوں سے فدیہ لے کر ان کو رہا کردیا او رمکہ واپس جانے کی اجازت دے دی۔ ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاسکتی تھی اور اگر وہ قبول نہ کرتے تو ان کو قتل کیا جاسکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا ۔ (16(
اسی طرح اسیران جنگ میں سے ایک شخص سہیل بن عمرو تھا جو عام مجمعوں میں ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اشتعال انگیز اور گستاخانہ تقریریں کیا کرتا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ اس گستاخ کے نیچے کے دانت اکھڑوا دیجئے تاکہ یہ آپ کی شان میں گستاخانہ تقریریں نہ کرسکے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ میں نبی ہوں لیکن پھر بھی اگر اس کا کوئی عضو بیکار کردوں گا تو اس کے لیے روز قیامت جواب دہ ہوں گا۔ (17(
دنیا کی تاریخ میں کوئی بھی ایسا واقعہ پیش نہیں کیا جاسکتا کہ کسی قوم نے اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ ایسا شریفانہ سلوک کیا ہو۔
مجرموں کے ساتھ مذہبی رواداری:
یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی،ان پر دو آدمیوں کے قتل کاخون بہا واجب الادا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس مطالبہ کے لیے ان کے پاس تشریف لے گئے تو ایک یہودی نے ایک کوٹھے پر سے پتھر لڑھکا کر آپ کو شہید کرنے کی کوشش کی مگر آپ کو اس کی پہلے ہی خبر ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچ گئے ۔ چند دنوں کے بعدیہودیوں میں سے بنی قریضہ نے گذشتہ معاہدے کی تجدید کرلی ، بنو نضیر سے بھی اس کی تجدید کرنے کوکہا گیا تو وہ راضی نہیں ہوئے بلکہ اس کے بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ تین آدمی لے کر تشریف لائیں اوروہ بھی تین عالم ساتھ لائیں گے، اگر ان کے عالم آپ پر ایمان لائے تو وہ بھی آپ پر ایمام لائیں گے ۔ آپ نے منظور فرمالیا، لیکن جلدہی معلوم ہوا کہ انہوں نے اس بہانہ سے شہید کرنے کے لیے بلایا ہے۔ ان کی اس سرکشی سے مجبور ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا،پندرہ دن بعد انہوں نے صلح کرلی اور اپنے مال و متاع کے ساتھ خیبر منتقل ہوجانے کے طلبگار ہوئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی اور وہ اپنے پورے مال و متاع کے ساتھ منتقل ہوگئے اور ان سے کسی قسم کی باز پرس بھی نہ کی گئی ۔(18(
حضرت جعدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک روز دیکھا کہ ایک شخص کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا گیا اور بتایا کہ کہ اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہیدکرنے کا ارادہ کیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : لن تراع ، لن تراع ( ہر گز خوف نہ کھاؤ ہر گز خوف نہ کھاؤ) پھر ارشاد فرمایا کہ اگر تو ارادہ کرتا، تب بھی اللہ تعالیٰ تجھ کو مسلط نہ کرتا۔ (19(
دشمنوں سے ایسی روداری کی مثال کسی اور قوم کی تاریخ میں ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملے گی، جب کہ یہودیوں کی کتاب توریت میں لڑنے والے دشمنوں کے متعلق یہ حکم ہے کہ وہ سب کے سب قتل کر دیے جائیں، ان کی عورتیں اور بچے گرفتار کرلیے جائیں اور ان کا سارا سامان مال غنیمت سمجھا جائے ۔
کافروں کے مال و متاع کے ساتھ مذہبی رواداری:
فتح خیبر کے بعد مسلمانوں نے وہاں کے زمینوں پر قبضہ کر لیا ، یہودیوں نے درخواست کی کہ زمینیں ان کے قبضہ میں رہنے دی جائیں، وہ پیداوار کا نصف حصہ ادا کریں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی التجا کو منظور کرلیا ۔ بٹائی کا وقت آیا تو غلہ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور یہودیوں سے کہا گیا کہ ان میں جو حصہ چاہیں لے لیں ۔ (20(
جنگ خیبر کے موقع پر مسلمانوں کو مال غنیمت کے ساتھ ساتھ توریت کے چند نسخے بھی ہاتھ آئے ، یہودی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ان نسخوں کو طلب کرنے کے لیے حاضر ہوئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ مذہبی رواداری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے صحابہ کو حکم دیا کہ یہودیوں کو توریت کے نسخے واپس کردیے جائیں ۔ (21(
صلح حدیبیہ میں مذہبی رواداری:
6ھ میں صلح حدیبیہ واقع ہوئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری کی اعلیٰ ترین مثال ہے، یہ صلح بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھی مگر مذہبی رواداری کو قائم کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کرلیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودیوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا اس کے چند دفعات مندرجہ ذیل ہیں :(22(
(1) مسلمان اس سال مدینہ واپس چلے جائیں، مکہ کے اندر نہ آئیں آئندہ سال آئیں ، تین دن قیام کریں مگر ان کی تلواریں نیام میں رہیں۔
(2) قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ پہنچ جائے گا تو وہ اس کے ولی کے پاس بھیج دیا جائے گا۔
(3)اگر مدینہ سے کوئی شخص قریش کے پاس جائے گا تو واپس نہیں کیا جائے گا۔
کیا دنیا کی کوئی قوم اپنا نقصان اٹھا کر مذہبی رواداری کی یہ مثال قائم کرسکتی ہے؟
فتح مکہ میں مذہبی رواداری:
8ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو فتح کیا جہاں تک کسی ملک یا علاقہ کو فتح کرنے کا سوال ہے، تاریخ اس بات پر گواہ ہے کے جب کوئی بادشاہ یا ڈکٹیٹر یا کوئی جنرل کسی ملک یا علاقہ کو فتح کرتا ہے تو انسانی آبادی خاک و خون سے لت پت ہوجاتی ہے، ہنستے بستے شہر کھنڈر میں تبدیل ہوجاتے ہیں، بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوجاتی ہیں اور ظلم و بربریت کی وہ کہانی دہرائی جاتی ہے جسے دیکھ کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح میں ہلاکت و بربادی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں جب داخل ہوتے ہیں تو پیشانی مبارک عاجزی سے جھکی ہوتی ہے اور اعلان فرماتے ہیں : (23)
(1) جو شخص مقابلے سے ہاتھ روک لے اسے امان ہے۔
(2) جو اپنے گھر کے دروازے بند کرلے اسے بھی امان ہے۔
(3) جو اپنی تلوار میان میں رکھ لے اسے امان ہے۔
(4) جو ابوسفیان یا حکیم ابن حزام کے گھر میں داخل ہوجائے اسے امان ہے۔
(5) جو مسجد حرام میں پناہ لے اسے امان ہے۔
(6) جو شخص بھاگے اس کا پیچھا نہ کیا جائے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ میں دنیا کے سامنے یہ تاریخ بھی رقم کردی کہ مذہبی رواداری کے بل بوتے پر بھی علاقوں کو فتح کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہی مکہ تھا جہاں آپ کے جانی دشمن رہاکرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے اصحاب پر ان لوگوں نے ظلم کے پہاڑ توڑے ، جنہوں نے مسلمانوں کی خوں ریزی ، غارت گری اور آبروریزی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو ایک ایک سے انتقام لیتے ،انہیں تہ تیغ کردیتے اور ان کے مال و متاع پر قبضہ کر لیتے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر تلوار نہ اٹھائی بلکہ سب کو معاف کردیا۔
کیا مذہبی رواداری کی اس سے بہتر مثال کسی او رمذہب کی تاریخ میں مل سکتی ہے؟ کیا دنیا اس کے علاوہ کوئی اورنظیر پیش کرسکتی ہے کہ جس میں قتل و غارت گری سے پاک ہوکر کوئی علاقہ فتح کیا گیا ہو اور دشمنوں کو معاف کردیا گیا ہو؟
خطبہ حجتہ الوداع میں مذہبی رواداری:
خطبۂ حجتہ الوداع ،وحدت الہٰی اور وحدت آدم کا ایسا آفاقی اعلان نامہ ہے ،جسے انسانی تہذیب کی روحانیت ،مذہبی رواداری اور تخلیقی سفر کی منزل مراد کہا جاسکتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اگر انسانی تہذیب کے انتہائے کمال کو زبان میسر آجائے تو اس سے بالکل وہی الفاظ جاری ہوں گے جو اس خطبے میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوئے، جس میں رنگ ونسل کی بنیاد پر اونچ نیچ کو ختم کر دیا گیا، ہر طرح کے تشدد کو یکسر مسترد کردیا گیا ، سبھوں کے ساتھ مساوات کا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ،جنگ وجدل اور خون ریزی کو یکسر مسترد کردیا گیا، خدا کا خوف دلایا گیا کہ تمہیں اپنے ہر عمل کے سلسلے میں اپنے خدا کے حضور جواب دہ ہونا ہے۔ (24(
لیکن یہ اعلان نامہ محض لفظوں کا مجموعہ نہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان لفظوں کی بنیاد پر جو انسانی معاشرہ وجود میں آیا وہ فرد کی آزادی ، فردو معاشرے کے مابین رشتے کے تو ازن ،مذہبی رواداری کا منبع ، انسانی صلاحیتوں کے اعلیٰ ترین تخلیقی اظہار اور اخلاقی و روحانی پاکیزگی کے لحاظ سے آج تک اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا ۔
وہیں دوسری طرف اقوام متحدہ کی طرف سے جاری ’’ حقوق انسانی کا عالمی منشور ‘‘ جس میں دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لیے مذہبی رواداری کا بھی ملحوظ رکھا گیا جسے آج تک نافذ کرنے میں کامیابی نہیں ملی مگر خطبۂ حجۃ الوداع کے چودہ صدیوں کے بعد جاری ہونے والا یہ اعلان جو دنیا کے تقریباً تمام ملکوں کے اعلیٰ ترین دماغوں کی دانشورانہ و تخلیقی کاوشوں کا ثمرہ ہے،ہر لحاظ سے بصیرت محمدی کے نور میں نہایا ہوا ہے۔ مسلمانوں کی تہذیبی و سیاسی زوال کے بعد انسانی تاریخ جن گلی کوچوں اور شاہراہوں سے گزری ہے اس کے زیر اثر کئی تبدیلیاں آئیں مثلاً انقلاب فرانس و انقلاب روس اور انقلاب انگلینڈ وغیرہ جو اس سفر کے کچھ سنگ میل ہیں۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ دنیا کو تاریخ کی ان سنگلاخ وادیوں میں یوں نہ بھٹکنا پڑتا او راس تہذیبی اذیت کے تجربے نہ کرنے پڑتے اگر وہ اسلام کے روحانی ودانشورانہ عرفان و آگہی سے وابستہ رہی ہوتی۔ آج دنیا کے پاس مذہبی رواداری کامنشور تو ہے مگر اس کا احترام نہیں کیوں کہ وہ اس روحانی قوت و خلوص نیت اور جرأت عمل سے محروم ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معجزہ کار شخصیت نے انسانوں کے پیکر خاکی میں ایک برقی روکی طرف دوڑ ا دیا۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگ عظیم میں کروڑوں افراد جان بحق ہوئے ، ہر طرف افراتفری کا عالم تھا ۔ اس وقت عالمی طاقتوں نے مل کر دنیا میں امن و امان اور ساتھ ہی مذہبی رواداری کو قائم کرنے کے لیے ایک عالمی بورڈ منتخب کیا جسے اقوام متحدہ کہا جاتا ہے تاکہ پوری دنیا میں اس کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط پر عمل کرایا جاسکے۔
اقوام متحدہ کی مذہبی رواداری کے دفعات پر ایک نظر:
اقوام متحدہ نے حقوق انسانی اور مذہبی رواداری کے لیے جتنے بھی قوانین بنائے ، وہ تمام قوانین و منشور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے فتح مکہ اور حجۃ الوداع کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دیے گئے خطبوں سے ہی لیا گیا ہے۔ یہاں صرف بطور نمونہ ان میں سے کچھ دفعات کاذکر کرنامناسب سمجھتا ہوں تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ اقوام متحدہ نے ان قوانین کو پاس تو کرلیا ہے لیکن آج تک اس پر عمل در آمد نہیں کراسکا جب کہ دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ان قوانین پر عمل کیا پھر اسے دنیا کے سامنے نافذ کر کے بھی دکھا یا:
عالمی منشور کے آرٹیکل نمبر 9میں ہے کہ ’’ ہر شخص کو خیال، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق ہے۔‘‘ اور آرٹیکل نمبر 10میں ہے کہ ’’ ہر شخص کو آزادی اظہار کا حق ہے۔‘‘ (25(
بدقسمتی سے یہ دفعہ صرف کاغذی حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ اس دستور کے مرتبین اور طاقتور ریاستیں اس بنیادی حق سے عام انسانوں کو محروم کر رہی ہیں او راسے دوسرے مذاہب کی اہانت او راپنے ذاتی، ملکی اور سیاسی مفادات کے لیے استعمال کررہی ہیں، آج دنیا کے بہت سے ممالک بشمول ہندوستان میں تبدیلی مذہب پر پابندی کی بات ہورہی ہے،پوری دنیا میں آج بنام دین اسلام مسلمانوں کے ساتھ ظلم و جبر کیا جارہا ہے، آزادی اظہار کے نام پر مغربی دنیا اسلامی نظریات کا مذاق اڑارہی ہے لیکن اس آزادی اظہار مذہب کے نام پرکوئی بھی مذہب ،مغربی قوانین اور ان کی پالیسی کے خلاف کچھ نہیں بول سکتا ۔
مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیوں پہلے انسانوں کو عقیدے ، فکر رائے او رمذہب کی آزادی دے دیا تھا ، اسلام کے نزدیک اگر کوئی شخص کوئی عقیدہ اختیار کیے ہوئے ہے تو اس پر کوئی پابندی اور جبر نہیں کہ اسے دوسرا دین اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ارشاد پاک ہے:لا اکراہ فی الدین : دین میں کوئی جبر نہیں ۔ (26(
ایک یہودی ہے تو یہودی رہے، ایک عیسائی ہے تو عیسائی رہے، ایک ہند وہے تو ہندو رہے۔ اس کے مذہب وعقیدہ پر کوئی دباؤ نہیں ، ہاں! لیکن انہیں اسلام کی دعوت ضرور دی جائے گی، اسے حقیقت سے آگاہ ضرور کیا جائے گا لیکن زبردستی اسلام میں داخل نہیں کیا جائے گا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے اپنے رب کا فرمان دنیا کے سامنے پیش کردیا:
وقل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن و من شاء فلیکفر ’’ فرما دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے تو جو چاہے ایمان لائے او رجو چاہے کفر کرے۔‘‘ (27(
دنیا کا کوئی انصاف پسند مؤرخ یا محقق ایسی کوئی مثال نہیں پیش کرسکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہبی رواداری کی اس اعلیٰ ترین مثال سے کبھی انحراف کیا ہو۔
عالمی منشور کے آرٹیکل نمبر 7میں ہے کہ ’’ قانون کی نگاہ میں ہر شخص برابر ہے‘‘۔ اور آرٹیکل نمبر 8میں ہے کہ ’’ ہر شخص کو اپنے اوپر ہوئے مظالم کے خلاف عدالت میں جانے کااختیار ہے‘‘ (28(
لیکن یہ قوانین بھی صرف منشور کی زینت کے لیے ہیں ۔ دنیا میں ان کے نفاذ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ دور کیوں جائیے ان دفعا ت کی حیثیت اس حقیقت سے دو کوڑی رہ جاتی ہے کہ برطانیہ میں آج بھی کوئن آف ولیز اور شاہی خاندان کے خلاف برطانیہ کی کسی بھی عدالت میں کوئی بھی مقدمہ دائر نہیں کیا جاسکتا ۔ برطانیہ اور امریکہ نے بر سوں سے ہزاروں بے گناہ افراد کو سیاسی قیدی بنا کر گوانتا ناموبے اور ابوغریب جیل میں قید کر رکھا ہے او ران پر ظلم و بربریت کی ساری حدیں جائز کردی ہیں مگران میں سے آج تک کسی بھی فرد کو اپنے اوپر ہوے ظلم کے خلاف کسی بھی عدالت میں صفائی دینے کا موقع نہیں دیا گیا۔
دوسری طرف مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری اور انسانی حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں مقدس کردار ملا حظہ فرمائیں جس کی مثال دنیاکا کوئی بھی منشور دینے سے قاصر ہے۔ عہد رسالت میں ایک معزز قبیلے کی عورت پر چوری کا الزام ثابت ہو جاتاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی قانون کے تحت اس جرم کی پاداش میں اس عورت کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم جاری فرمادیتے ہیں ۔ اس حکم سے سوسائٹی میں سراسیمگی پھیل جاتی ہے کہ ایک بڑے خاندان کی عورت اسلامی قانون سے بالاتر نہیں کچھ لوگوں نے چاہا کہ اس عورت کی سزا معاف کردی جائے، لوگوں کے کہنے پر حضرت اسامہ بن زید جو حضور سے کافی قربت رکھتے تھے بارگاہ رسول میں حاضر ہوئے اور اس عورت کے حق میں سفارش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سفارش کو سنتے ہی ارشاد فرمایا: اتشفع فی حدود اللہ یا اسامہ! لو کانت فاطمہ بنت محمد سرقت لقعت یدھا ( اے اسامہ ! تم اللہ کی حدود میں رعایت کی بات کرتے ہو؟ اگر محمد کی بیٹی فاطمہ نے چوری کی ہوتی جب بھی میں ضرور اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ) (29(
ایک دفعہ ایک یہودی اورمسلمان میں کسی بات کو لے کر جھگڑا ہوگیا، جب بات صلح تک نہ ہو پائی تو یہ مقدمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ نے دونوں کی باتیں سنیں اور اس معاملے میں فیصلہ یہودی کے حق میں تھا تو آپ نے مذہب کا لحاظ نہیں کیا اور یہودی کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔(30)
عالمی منشور کے آرٹیکل نمبر13میں جنگی محاذ آرائی کے متعلق ہے ’’ دو ملکوں کے درمیان جنگ چھیڑ جانے کی صورت میں فریقین کو کسی کی آبادی ،شہر، تاریخی و ثقافتی محلات او رکھانے پینے کی اشیا بالخصوص باغیچوں پر بمباری کرکے یا کسی بھی صورت میں تباہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی‘‘ (31)
یہ منشور صرف کاغذی سطح پر ہی موجود ہیں، اسے آج تک لاگو نہیں کیا گیا، بلکہ اس قانون کی اب تک دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ مثلاً عراق، افغانستان او رلبیا کی جنگوں کو ہی دیکھ لیجئے جن میں لاکھوں لاکھ مسلمان مارے گئے ، جن میں مذکورہ قانون کاکوئی لحاظ نہیں کیا گیا۔
وہیں دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسوۂ حسنہ دیکھ لیجئے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہم پر صحابہ کرام کو روانہ فرماتے تو سالار قافلہ کو ہمیشہ اس بات کی تاکید فرماتے کہ کسی بوڑھے ، کسی بچے یا کسی عورت کو ہر گز قتل نہ کیا جائے، ان آبادیوں کو تہہ تیغ نہ کیا جائے ، ان کے کھیتوں و کھلیانوں کونہ جلایا جائے ، جہاں تک ہوسکے جنگ سے بچایا جائے ۔(32(
آج مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کاپوری انسانیت پر احسان عظیم ہے کہ انہوں نے مذہبی رواداری کی ایسی بنیاد فراہم کردی کہ جس پر فیصلہ کرناآسان ہوگیا ہے کہ کن حالات میں کس کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے ، آج اس اساس کو تسلیم کرنا دنیا کی مجبوری بنتی رہی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری اور اسوہ کریم کا اثر غیر مسلموں پر:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پر فتن دور میں بھی جو مذہبی رواداری کے بیج بوئے اور اس عمل پیرا ہو کر دیکھا یا ، اس کو دنیا کا انصاف پسند طبقہ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے تو اپنے غیروں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری کااعتراف کرتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہار ہوسکتا ہے لیکن تنگی صفحات کے پیش نظر ان میں سے کچھ کے تاثرات پیش کررہا ہوں :
تحریک آزادی کے لیڈر گاندھی نے تحریر کیا ہے:
’’ نسل انسانی کے کروڑوں دلوں کو متفقہ طور پر اپنی مٹھی میں کرنے والی شخصیت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتا تھا ۔ میں آخری طورپر مطمئن ہوں کہ اس دور کے حالات میں اسلام کے لئے جگہ بنانے والی چیز تلوار نہیں تھی، وہ چیز انتہائی سادگی ،نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم) کاپنے نفس کو مکمل فنا کردینا ،اپنے وعدوں کا مکمل لحاظ ، اپنے دوستوں اور متبعین سے گہرا لگاؤ ان کی دلیری ،ان کی بے خوفی ،خدا پر او راپنے مشن میں کامل اعتماد تھا جو تلوار نہیں بلکہ ان چیزوں نے سارے کام انجام دیے ‘‘ (33(
عہد حاضر کا مؤرخ مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی کتاب میں دنیا کی سو عظیم شخصیات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے رکھا ہے اور اس کی وجہ وبھی بیان کی ہے:
‘‘قارئین میں سے ممکن ہے کچھ لوگوں کو تعجب ہوکہ میں نے دنیا جہاں کی مؤثرترین شخصیات میں محمد ( ﷺ) کو سرفہرست کیوں رکھا او رمجھ سے توجیہ طلب کریں گے ۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں صرف وہی ایک ایسے انسان تھے جو دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے غیر معمولی طور پرکامیاب ،اور سرفراز ٹھہرے۔‘‘ (34(
ٓٓآر نلڈٹوائن بی A.J. Toynbeeنے پیغمبراسلام کے بارے میں اپنے مضمون میں لکھا ہے :
’’ محمد نے اسلام کے ذریعے انسانوں میں رنگ ونسل اورطبقاتی امتیاز کایکسر خاتمہ کردیا، کسی مذہب نے اس سے بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جو محمد کے مذہب کو حاصل ہوئی ۔ آج دنیا جس ضرورت کے لیے رو رہی ہے اسے صرف اور صرف مساوات محمدی کے ذریعے اور اس نظریے کے تحت ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔‘‘(35)
جان بیگٹ (John Bagot)نے اپنی ایک کتاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری سے متاثر ہوکر اپنی عقیدت کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے:
’’ کیا دنیا میں کوئی اور بھی ایسی مثال مل سکتی ہے جس میں مقصد کے حصول کے لیے اٹھنے والے کی اتنی زیادہ مخالفت کی گئی ہو؟ اس کے باوجود صبر کا دامن آپ کے ہاتھ سے نہ چھوٹا ۔ یہ بات مغربی مصنفین کے لیے ایک تازیانہ ہے جو کہتے ہی کہ محمد ایک غیر محتاط قسمت آزماتھے ۔‘‘ (36(
ای ڈرمنگھم (E. Dermenghem) نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری سے کافی زیادہ متاثر تھے، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ایک صخیم کتاب تصنیف کردی، جس کے صفحہ نمبر 930پر اپنی عقیدت کا اظہار بڑے اچھے انداز میں کیا ہے:
’’ عرب بنیادی طور پر انارکسٹ ( بے راہ ولاقانونیت پسند) اور انتشار پسند تھے، پیغمبر نے یہ زبردست معجزہ دکھایا کہ انہیں با ہم متفق کردیا جو کچھ محمد نے دکھایا اسے سامنے رکھیں تو ہم ان کی عظیم ترین شخصیت کوخراج عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں ۔ محمد اس اعتبار سے دنیا کے وہ واحد پیغمبر ہیں جن کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے ، ان کی زندگی میں کوئی گوشہ چھپا ہوا نہیں ہے بلکہ روشن اور منور ہے۔ عقل سلیم سے عاری انسان ہی محمد پر کسی ذہنی بیماری کا الزام عائد کرتے ہیں ۔‘‘ (37(
غرض یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری اور تعلیمات ملکی اتحاد و سالمیت کے لیے تیر بہدف او رمفید نسخہ ہے۔ اگر ہمارے اکابرین مملکت اور لیڈران ان بنیادوں پر ریاست کو پروان چڑھائیں تو ہر قسم کے انتشار و افتراق سے بچ سکتے ہیں ۔ ملک اور باشندگان ملک دونوں پر امن زندگی گزار سکتے ہیں او رہر طرف پھیلی ہوئی بدامنی اور دہشت گردی کاخاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حوالہ جات
(1)۔ابن ہشام: ج:1۔ص :278،279۔، سیر ۃ االنبی : ج :1۔ص:275
(2) ۔ سیر ٖۃ النبی: ج: 1۔ ص: 582
(3) ۔سیر ۃ النبی: ج: 2۔ص:370
(4)۔سیرۃ النبی :ج:2۔ص:320
(5) ۔سیرۃ النبی: ج: 2۔ص:379
(6) صحیح بخاری: کتاب الجہاد باب الجزیہ والموادعۃ مع اھل الذمۃ و الحرب: ج: 1۔ص:446
(7)۔ الطبقات الکبری لابن سعد ۔ج :1۔ص:228، اے شارٹ ھسٹری آف دی سارانس از: میر علی :ص :14،15
(8) ۔سیرۃ النبی: ص: 2۔ج:42ڈ14
(9)۔سیرۃالنبی :ج:2۔ص :371
(10)۔البدایہ والنھا یہ :ج :7:176
(11) سنن ابو داؤد: کتاب الجہاد ،باب فی الامام یستجن یہ فی یالعھود ، حدیث: 2760
(12)۔ زادالمعاد لابن القیم : ج :3۔ص:422
(13)۔صحیح مسلم شریف : کتاب الجہاد والسیر ،باب نا میرا مام لامراء علی البعوثووصیۃ اباھم ۔ج:2۔ص:82؍ صحیح بخاری :کتاب الجہاد ، باب قتل الصبیان فی الحرب :ج :1۔ص :432
(14) ابوداؤد ۔ ج: 2۔ص:6
(15)۔تاریخ و مشق :ج :8،ص :377
(16)۔سبل الھدی والرشاد: ج:4۔ص:66؍طبری :ص 1338؍سیرۃ النبی : ج:1۔ص:305
(17)۔تہذیب سیرۃ بن ہشام ،ایڈیشن بیروت 1374ھ۔ص:169،170
(18)۔ابوداؤدباب کتاب الجہاد فی الاسیر یکرہ علی الاسلام ؍ سیرۃ النبی :ج :1۔ص :379
(19)۔سبل الہدی والر شاد:ج:7۔ص:33،34
(20) فتوح البلدان بلاڈری: ص: 27؍ طبری: ج: 3۔ص:89؍سیرۃ النبی: ج: 1۔ص:489
(21)۔مغازی الواقدی :ج:2۔ص :681
(22)۔صحیح البخاری :ج:2۔باب عزوۃ الحسہ بیتہ ۔ص :622تاریخ طبری:ج:1۔ص :355،356؍ سیرۃ النبی :ج:1۔ص :610؍تاریخ اسلام از شاہ معین الدین احمد ندوی :ج:1۔ص:49،50
(23)۔صحیح البخاری : باب این رکزالنبی صلی اللہ علیہ وسلم الرایۃ یومالفتح : ج :2۔ ص :27
(24)
(25)
(26)۔سورۃ بقرہ: 256
(27)۔سورۃ کہف :29
(28)
(29)۔صحیح البخاری :باب اقامۃ الحدود علی الشریف والوضیع ، ج:2۔ص :1003
(31)۔
(32)۔سیرۃ النبی :ج:1۔ص :608
1923 Young Inidia_P:7 (33)
The Hundred, P: 5, (34)
Civilization on Trial (35)
Muhammad_P:25 of The Life and Time (36)
P: 930 Muhammad Life of-(37)
(1)۔ابن ہشام :ج:1۔ص :278،279۔ سیرۃ النبی :ج:1۔ص :275
(2)۔سیرۃ النبی :ج:1۔ص 582
(3)۔سیرۃ النبی :ج،ل2۔ص:370
(4) سیرۃ النبی: ج: 2۔ص:320
(5) سیرۃ النبی: ج: 2۔ص:379
(6)۔صحیح بخاری۔ کتاب الجہاد باب الجریہ والموادعۃ مع اھل الذمۃ والحرب :ج :1۔ص :446
(7)۔ الطبقات الکبری لابن سعد ۔ج:1۔ص:228، اے شارٹ ھسٹری آف دی سارانس از: میر علی:ص :14،15
(8) ۔سیرۃ النبی: ص: 2۔ج:42،14
(9)۔سیرۃ النبی :ج:2۔ص:371
(10)۔البدایہ والنھابہ :ج:7۔س :176
(11)۔ سنن ابوداؤد : کتاب الجہاد ،باب فی الامام یستجن بہ فی العھود ،حدیث :2760
(12)۔زادالمعاد لابن القیم :ج :3۔ص:422
(13)۔صحیح مسلم شریف : کتاب الجہاد و االسیر ،باب تا میر امام لامراء علی البعوث ووصیۃ ایاھم۔ج :2۔ص :82؍صحیح بخاری : کتاب الجہاد ،باب قتل الصبیان فی الحرب :ج :1۔ص:432
(14)۔ابو داؤد ۔ج:2۔ص:6
(15)۔تاریخ دمشق :ج:8،ص:377
(16)۔سبل الھدی والر شاد:ج:4۔ص:66؍طبری :ص 1338؍سیرۃ النبی: ج :1۔ص :305
(17)۔تہذیب سیرۃ بن ہشام ،ایڈیشن بیروت 1374ھ۔ص :169،170
(18)۔ابو داؤد باب کتاب الجہاد فی الاسیر بکرہ علی الاسلام ؍سیر ۃ النبی : ج :1۔ص:379
(19)۔سیل الہدی والر شاد:ج:7۔ص :33،34
(بشکریہ ماہنامہ اشرفیہ )دسمبر،2015
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism