New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 01:35 PM

Urdu Section ( 4 Feb 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Qur’anic teachings – 2: Qur’an’s position on blasphemy (تعلیمات قرآنی (2

 

توہین رسالت پر قرآن کا مؤقف

ضیاء الرحمن، نیو ایج اسلام

خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے ﷺ ایسے وقت میں مبعوث ہوئے جب مکہّ میں دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی بستے تھے۔ یہودیت ، عیسائیت ،زرتشتیت ،ہندومت وغیرہ کے پیروکار نہ صرف مکہ بلکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے۔مکہّ میں جہاں رسول مقبول ؐ پیدا ہوئے یہودیوں اور بت پرستوں کی اکثریت تھی۔عرب اور افریقہ کے کچھ حصوں میں عیسائیت کے ماننے والے بھی تھے۔جب حضرت محمد ؐ نے اپنے مذہب اسلام کی اشاعت و تبلیغ کرنی شروع کی تو یہودیوں اور مشرکوں کی جانب سے مختلف سیاسی، سماجی ، معاشی اور مذہبی وجوہات کی بنیاد پر آپ ؐ کو سخت مخالف کا سامنا کرنا پڑایہودیوں نے مکہّ کی معیشت اورتجارت پر اجارہ داری قائم کررکھی تھی۔وہ قرض پر سود کا کاروبار کرتے تھے اور دونے پر دونا سود لیتے تھے ، وہ امانتیں رکھنے ، چیزیں گروی رکھنے ، شراب سازی و شراب کی تجارت کرتے تھے اور اپنی لونڈیوں اور باندیوں کو عصمت فروشی کے دھندے میں استعمال کرتے تھے جس کی طرف قرآن میں اشارہ موجود ہے۔اسلام نے ان تمام سماجی اور معاشی برائیوں کی مخالفت کی جس کے نتیجے میں وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے مخالف ہوگئے۔حالانکہ مکہ کے مشرکین عام طور پر جاہل اور ناخواندہ تھے مگر یہودی زیادہ تر تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم تھے۔ وہ اکثر ناخواندہ مشرکین کی امانتوں کو ہڑپ کرلیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان جاہلوں کا مال ہڑپ لینے میں کوئی برائی نہیں ہے۔

عرب کی تہذیب میں اپنے مخالفین کے خلاف افواہیں پھیلانا اور ان کی کردار کشی کرنا بھی زبانی جنگ کے زمرے میں آتا تھا۔اس کے علاوہ ان کے یہاں شاعری کی ایک صنف مقبول تھی جسے ہجو کہتے ہیں۔ عربوں نے اس صنف کو کافی ترقی دی تھی اور کئی بڑے شعراء بشمول متبنی ہجو گوئی میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ ہجو میں شاعر اپنے دشمنوں اور مخالفوں کے خلاف انتہائی ہتک آمیز اور اشتعال انگیز باتیں نظم کرتاتھا اور اس میں مخالفین کے افراد خانہ بیوی ، بیٹی اور ماں کے متعلق انتہائی رکیک حملے کرتاتھا۔ اکثر اوقات ان میں ان کے نام کا بھی برملا استعمال کیا جاتاتھا۔ ایسے ہی سماجی اور تہذیبی پس منظر میں حضور پاک ؐ نے تبلیغ دین کا کام شروع کیا ۔

لہٰذا، مخالفین اسلام نے حضور اور ان کے اہل بیت کے خلاف بھی طرح طرح کی افواہیں پھیلانا شروع کیں تاکہ ان کی اور ان کے اہل خانہ کی کردار کشی کی جاسکے ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی معاملہ افک ہے جس میں ام المومنین حضرت عائشہ کے خلاف یہودو مشرکین و منافقین مکہ نے بہتان باندھا جس کی سخت مذمت خدا نے قرآن میں کی۔ اس کے علاوہ مکہ کے شعرا ء نے حضور پاک ؐ کے خلاف ہجو گوئی کا ایک سلسلہ شروع کردیا جو نہ صرف حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ، اور اہل بیت بلکہ صحابہ کرام کے لئے بھی انتہائی تکلیف دہ بات تھی۔کیونکہ مسلمان حضور پاک  صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف بے انتہا محبت اور عقیدت رکھتے تھے بلکہ اپنی جانوں سے زیادہ انہیں عزیز رکھتے تھے۔

قرآن کہتاہے :

’’ پیغمبر مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ‘‘(الاحزاب : 6)

اتناہی نہیں بلکہ خدا بھی حضور پاکؐ سے بہت محبت رکھتاہے اور قرآن میں مسلمانوں سے کہتاہے کہ وہ حضور پاک ؐ پر سلام بھیجیں۔

’’ خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں۔ مومنو تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجا کرو‘‘(الاحزاب : 56)

بہرحال، یہ حضور پاک ؐ کا اعلی کردار اور اخلاق تھا کہ وہ ہر توہین اور ہتک آمیز بات کوخاموشی سے برداشت کرلیتے اور اپنے جاں نثار صحابہ کو جو ہر وقت ان کی عزت و وقار کے دفاع کے لئے جان دینے کو تیار رہتے تھے صبر کرنے کی تلقین کرتے تھے۔دوران حیات حضور پاک ؐ کو کفار و مشرکین نے گالیاں دیں، انہیں اذیت پہنچائی ، انہیں پتھر سے لہو لہان کردیا حتی کہ زہر دے کر ہلا  ک کرنے کی کوشش کی مگر حضور ﷺ نے انہیں معاف کردیا اور بدلے کی کارروائی نہیں کی۔انہوں نے اشتعال انگیزی کے جواب میں بے مثال بلند کرداری کا مظاہر ہ کیا جس پر خدا نے بھی ان کے متعلق قرآن میں کہا۔

’’ بے شک تو اعلی اخلاق و کردار کا مالک ہے۔ ‘‘ (القلم : 4)

خدا نے انہوں سورہ الاحزاب (46) میں انہیں روشن چراغ (سراجاً منیرا) کہہ کر پکارا۔ یعنی آپ ﷺ ساری دنیا کے لئے ایک روشن مثال اور مشعل راہ ہیں۔

حضور پاک ؐ نے بھی اپنے کردار اور صبر و تحمل کے بے مثال مظاہرے اور بدترین دشمنوں سے بھی شفقت ، محبت اور ہمدردی کا برتاؤ کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ واقعی ہدایت کا روشن چراغ ہیں۔

چونکہ رسول پاک ؐ کی پوری زندگی قرآن کی تفسیر تھی، دشمنوں اور مخالفین کی طرف سے تمام ہتک اور توہین آمیز افواہوں اور زبانی حملوں کے ردعمل میں بھی حضور پاک ؐ کا ہر عمل قرآن پاک کی تعلیمات کے عین مطابق تھا یعنی آپ ؐنے تمام اشتعال انگیزیوں پر صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔

قرآن نے جہاں ایک طرف سماجی برائیوں اور جرائم مثال کے طور پر قتل عمد، بدکاری،چوری ، فساد وغیرہ پر اپنا مؤقف واضح کردیا ہے اور ان جرائم کے لئے واضح سزائیں تجویز کی ہیں ، اس نے توہین رسالت پر بھی اپنا مؤقف واضح کردیا ہے۔کیونکہ توہین رسالت بھی اس زمانے میں مشرکین مکہ کا ایک ہتھیار بن چکاتھا اور خصوصاً حضور پا ک ؐ کے خلاف ہجو گوئی مکہّ کے شاعروں کے لئے اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ایک حربہ تھی اورقرآن کی نگاہ میں یہ ایک سنگین سماجی اور اخلاقی جرم تھی۔

قرآن میں خدا کہتاہے کہ وہ توہین اور بدگوئی کرنے والوں پر دنیا اور آخرت دونوں جگہ لعنت بھیجتاہے اور ان کے لئے اس نے آخرت میں درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

’’بے شک جو لوگ اللہ اور رسول کے خلاف بدگوئی کرتے ہیں، اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتاہے اور آخرت میں ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔‘‘ (الاحزاب :57)

خدا اس آیت میں یہ واضح کرتاہے کہ وہ اپنے اور اپنے رسول کے خلاف بد گوئی برداشت نہیں کرتااور تقریری اور تحریری طور پر اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں پر وہ دنیا میں بھی لعنت بھیجتاہے اوان کے لئے آخرت بھی میں انتہائی سخت عذاب تیار کررکھاہے۔

ایک دوسری آیت میں خدا کہتاہے :

’’اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو نبی کو ایذا پہنچاتے ہیں  اور کہتے ہیں کہ نبی تو کان ہے ۔ان سے کہہ دو کہ وہ کان ہے تمہاری بھلائی لئے  جو ایمان رکھتاہے اللہ پر اور مومنین (کی بات ) پر اور ان کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں وہ رحمت ہے اور جو لوگ رسول خدا کے خلاف بدگوئی کرتے ہیں ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ ‘‘ (التوبہ: 61)

اس آیت سے یہ بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے کہ خدا مشرکین اور اہل کتاب کے ذریعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدگوئی کو بالکل پسند نہیں کرتا اور ایسا کرنے پر انہیں آخرت میں درد ناک عذاب کی بشارت دیتاہے۔

بہرحال، ایک آیت میں خدا کہتاہے کہ مستقبل میں بھی اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے اسلام اور پیغمبر اسلام اور قرآن کے خلاف بہت بدگوئی کی جائے گی اور اشتعال انگیز مواد پیش کیاجائیگا مگر وہ مسلمانوں کو ان تمام اشتعال انگیزیوں اور توہین آمیز مواد پر صبر اوتحمل کا مظاہرہ کرنے اور تقوی کا دامن مضبوطی سے تھامے رہنے کی ہدایت دیتاہے اور کہتاہے کہ اشتعال انگیزیوں پر صبر کرنا ہی اصل ہمت کا کام ہے۔

’’ تمہارے مال و جان میں تمہاری آزمائش کی جائیگی اور تم اہل کتاب سے اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی ایذا کی باتیں سنوگے اور تم اگر صبر اور پرہیزگاری کرتے رہوگے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں ‘‘ (آل عمران : 186)

جب خدا کہتاہے کہ ’’ اورتم اہل کتاب سے اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی ایذا کی باتیں سنوگے اور تم اگر صبر اور پرہیزگاری کرتے رہوگے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں‘‘ تو وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ وہ اس بات سے واقف ہے کہ مستقبل میں دشمنان اسلام فیس بک، ٹویٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعہ اور اخبارات اور کتابوں کی مدد سے خدا اور رسول ، قرآن پاک اور مسلمانوں کی توہین کرینگے ، جائلینڈ پوسٹن اور چارلی ایبدو جسیے اخبارات حضور پاک ؐ کے ہتک آمیز کارٹو ن شائع کریں گے، انو سنس آف مسلمس جیسی فلمیں بنائیں گے اور دیگر طریقوں سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی توہین کریں گے ۔ پھر بھی خدا کہتاہے کہ یہ سب ان کے ایمان ، ان کے صبر وتحمل اور ان کے مومنانہ کردار کی آزمائش ہوگی اور جہاں خدا چوری کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنے کی سزا متعین کرتاہے، بدکاری کے لئے سو درے مارنے کی سزا اور فساد برپا کرنے والوں کے ہاتھ اور پیر کاٹ دینے کی سزا تجویز کرتاہے اہانت اور بدگوئی کے معاملے میں مومنوں کو صبر و تحمل اور تقوی کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرتاہے ۔حالانکہ خدا کہتاہے کہ وہ رسول پاک سے اتنی محبت کرتاہے کہ ان کے خلاف بدگوئی کرنے والوں پر ساری زندگی پھٹکار اور لعنت بھیجتاہے اور جس پر خود خدا زندگی بھر لعنت اور پھٹکار بھیجے اسے دنیا اور آخرت میں کون سی بھلائی پہنچ سکتی ہے اور آخرت میں ان کے لئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے مگر وہ مسلمانوں سے صبر کرنے اور پرہیزگاری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے اور اصل ہمت کا مظاہر ہ کرنے کی تلقین کرتاہے۔اور چونکہ رسول پاک ؐ قرآن پاک کی جتی جاگتی تصویر تھے وہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق تمام توہین ،بدگوئی اور ہتک آمیز باتوں کو صبر اور تحمل سے برداشت کرلیتے تھے اور مسلمانوں کو بھی صبر کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔

URL for English article: https://newageislam.com/islam-spiritualism/qur-anic-teachings-–-2/d/101311

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/qur’anic-teachings-–-2-qur’an’s/d/101352

 

Loading..

Loading..