ضیاء الدین سردار (انگریزی سے ترجمہ۔سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام
ڈاٹ کام)
وقت کا ایک منفرد لاپرواہ تصور وہابیت کا اٹوٹ حصہ بن گیا ہے۔محمد
ابن عبد الوہاب کی ذریعہ قائم تجدیدی تحریک جو
ریاست سعودی عرب کا عقیدہ بن گیا ہے۔ ریاست کے شمالی علاقہ میں واقع چھوٹےسے شہر نجد
میں عبد الوہاب 1703میں پیدا ہوئے۔اورچاروں اسلامی مکتب فکر میں سب سے سخت حنبلی مکتب
فکر کے تحت تربیت حاصل کی۔عبد الوہاب نے قرآن اور سنّت کی جانب لوٹنے کی وکالت کی۔عبد
الوہاب طہارت اور اسلام کی ابتداء کی گہرائی کی وکالتکرتے تھے۔اسنہوں نے ان اعمال کو خارج کیا جوروایتی اسلام میں جائز ہو گئے تھے جیسے پیغمبر محمد ﷺ کا یوم ولادت
منانا یا سنتوں اور بزرگوں کی قبروں اور مزارات پر جانا۔
یوروپی عیسائیت کے اصلاحی
مفکروں کی طرح عبد الوہاب نے خود کو پڑھے
لکھے یا مذہب کا نظم کرنے والوں کے بجائے ان
لوگوں کے خلاف کھڑا کیا جو بھولے بھالے لوگوں
سے مذہب کے نام پر غلط کام کرواتے ہیں۔ان کے اصلاحی جوش نے بہت سے لوگوں کو خشوع، اتحاد اور اخلاقیات کے
اسلام کی جانب رجوع کیا جومساوات اور انصاف سے متاثرتھا۔اگر کسی کو متوازی کی ضرورت ہے تو وہ شیکر فرنیچر کی خوبصورت ادائیگی اور سادگی کے بارے
میں سوچ سکتا ہے۔
عصر حاضر کا سعودی مذہب عبد
الوہاب کا اتنا ہی ممنون ہے یا شاید تھوڑا کم جتنا کہ 13ویں صدی کے مسلمان سیاسی مفکر
ابن تیمیہ کے تھے۔ابن تیمیہ کا تعلق دانشورانہ
کٹر پن کے طویل اور بہادرانہ روایت سے تھا۔ابن تیمیہ اس وقت مسلمان طبقے کی طاقت اور بقاء کو لے کر فکر مند تھے جب اسلام صلیبی جنگ کے
حملوں کے بعد سنبھل رہا تھا اور منگولوں کے حملے کی زد میں تھا۔انہوں نے پایا کہ مسلمانوں
کے درمیان اختلافات ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور کثرت تشریح پر پابندی عائد کرنے
کی کوشش کی۔ہر چیز قرآن اور سنّت میں تلاش کرنی تھی۔قرآن کو لفظی تشریخ کرنا تھا۔مثال کے طور پر جب قرآن کہتا
کہ خدا اپنےتخت پر بیٹھتا ہے تو وہ اپنے تخت
پر بیٹھاتا ہے۔اس تخت کی نوعیت اور اس کے مقصد پر کوئی بھی بحث نہیں کی جاسکتی ہے۔مجازاً
یا علامت کے طور پر کچھ بھی معنی نہیں نکال سکتے ہیں۔
میں نے سعودی عرب میں مدینہ
یونیورسٹی کے طالب علموں سے جدید وہابیت کے بارے میں بہت کچھ جانا۔70کی دہائی کے آخیر
میں جب میں نے کنگ عبد العزیز یونیورسٹی، جدّہ
کے ایک ریسرچ سینٹر میں کام کیا تھا،تب ہم لوگ ان طالب علموں کی خدمات اپنے مطالعہ اور سروے کے لئے لیا کرتے تھے،ان میں
سے کچھ سعوی عرب کے تھے لیکن زیادہ تر اسلامی دنیا کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے
تھے۔بغیر کسی رعایت کے یہ لوگ اسکالر شپ پر تعلیم حاصل کر رہے تھے اور انہیں سعودی
خزانے سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کم تنخواہ پر روزگار کی ضمانت دی گئی تھی۔سبھی کو
بطور داعی تربیت دی جا رہی تھی جو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایشیاء اور افریقہ ماور
ساتھ ہی ساتھ یوروپ اور امریکہ میں دعوت کے
کام کے لئے جائیں گے اور مساجد، مدارس، اور اسلامی مراکز کو چلائیں گے اور وہاں پر
تعلیم اور تبلیغ کو انجام دیں گے۔
ان لوگوں نے کیا سیکھا؟ اور
یہ لوگ کیا تبلیغ کرنے جا رہے ہیں؟ان داعی
لوگوں سے میں نے جانا کہ جدید وہابیت میں صرف مسلسل زمانہ حال ہوتا ہے۔نہ تو کوئی حقیقی ماضی ہوتا ہے
اور نہ ہی کوئی متبادل یا مختلف مستقبل کا
تصورہوتا ہے۔اور ان کا ہمیشہ جاری رہنے والا زمانہ حال ماضی یاکہیں کہ نبی کریم ﷺ کے
زمانےیا اسلامی تاریخ کی ابتدائی مدّت کےایک مخصوص یا بنائے گئے ماضی کےسائےمیں رہتا
ہے۔مسلم تہذیب کی تاریخ/ثقافت اپنی عظمت،پیچیدگی اور مجموعیت کے اعتبار سے پوری طرح
غیر موضوع ہے اور اسے ذلت اور انحراف کے طور پر خارج کیا جاتا ہے۔
اس لئے شاید ہی یہ حیرت کی
بات ہے کہ سعودی عرب کے لوگوں کی ثقافتی وراثت اور مکّہ کے مقدس مقام کے لئے کوئی جذبات
نہیں ہیں۔
مدینہ یونیورسٹی کے طالب علم
اپنے سعودی رہنمائوں اور اپنے مکتب فکر کے انتہائی وفادار تھے۔جس وہابیت کو ان لوگوں
نے سیکھا تھا وہ قبائلی وفاداری کی بنیادوں
پر تیار کیا گیا تھا لیکن روایتی قابائلی وفاداری کی جگہ اب اسلام نے لے لی تھی۔اس
علاقے کے باہر رہنے والے تمام لوگوں کی تعریف، کافر دشمنوں کی تھی۔ان کے دائرے سے جو
باہر تھے ان میں صرف غیر مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ وہ تمام مسلمان بھی تھے جنہوں نے
وہابیت کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان نہیں کیا تھا۔
کافروں کی صفوں میں شیعہ،صوفی
اور دوسرے مکتب فکر کے ماننے والے مسلمان تھے۔ان داعی لوگوں کے ذہنوں اور سعودی عرب
کے معاشرے میں بھی داخلی یا خارجی،ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف، اندرونی یا بیرونی، قدامت
پسند یا بدعتی کی حد بندی پوری طرح مکمل تھی۔
طالب علم مجھے اکثر بتاتے
تھے کہ کافروں کے ساتھ کسی بھی طرح کا اتحاد خود کفر ہے اس لئے ہرکسی کو کافروں کے
ساتھ کسی تعلق یا دوستی سے باز رہنا چاہیے، ان کے یہاں روزگار،ان کے مشورے اور ان کی
تقلید سے بچنا چاہیے اور ان کے تئیں زندہ دلی اور ملن ساری کا برتائو کرنے سے اجتناب
کرنا چاہیے۔
سعودی عرب میں تارکین وطنوں
کے ساتھ اسی انداز میں برتائو کیا جاتا ہے ۔وہ اپنی حیثیت کے مطابق اپنے مخصوص حصوں
تک ہی محدود رہتے ہیں۔عورتوں کے ساتھ برتائو میں بھی یہ سختی اور تقسیم واضح ہے۔ایسا نہیں ہے کہ خواتین
کو معاشرے میں مجموعی طور پر حاشیے پر رکھا گیا ہے۔ہر موقع پر خواتین کی مخصوص اور
الگ حیثیت پر زور دیا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں تمام مرد سفید
رنگ کالباس پہنتے ہیں، استری کی ہوئی توب اور جلابیہ۔انتہائی سخت آب و ہوا کے لئے
سفید قدرتی رنگ ہے: یہ سورج کی شعائوں کو واپس کرتی ہیں اور بہت کم گرمی جذب کرتی ہیں۔خواتین
سر سے لے کر پائوں تک قانونی اعتبار سے کالا کپڑاپہنے رہتی ہیں جو سورج کی شعائوں کے ساتھ ہی
گرمی کو بھی جذب کرتا ہے۔خواتین فیشن کی طرح اس سیاہ کپڑے کو اوڑھتی ہیں۔مسلم خواتین
کے روایتی لباس یا حجاب کو نہیں پہنتی ہیں بلکہ نقاب پہنتی ہیں جس میں سے صرف آنکھیں
ہی نظر آتی ہیں۔سعودی عرب میں واحد جگہ جہاں
کپڑے کی یہ نزاکت نظر نہیں آتی ہے وہ ہے مسجد حرام کا احاطہ جہاں اسلام کے
روایتی حکم کے مطابق خواتین کو اپنے چہرہ کو بے نقاب رکھنا ہوتا ہے۔
شروعات میں میں مدینہ یونیورسٹی
کے طالب علموں کے بیان کو اس لئے خارج کر دیا کرتا تھا کہ یہ حد سے زیادہ جوشیلے نوجواں
کی ڈینگ ہوگی۔میں سعودی معاشرے کے بارے میں اپنے مشاہدے پر شک کرتا تھا۔برطانیہ میں
پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کرنے والی کی حیثیت سے میں سوچا کرتا تھاکہ میں سعودی عرب کے لوگوں کو متعصب نظریے سے دیکھتا
ہوں۔
اور ان لوگوں کے بارے میں
کیا خیال ہے، جیسے کنگ عبد العزیز یونیورسٹی میں میرے دوست عبد اللہ نسیف اور سمیع
انگاوی؟ میری اب تک انسان دوست، انتہائی شفقت رکھنے والے اور بہتر افراد سے ملاقات
نہیں ہوئی تھی اور اب بھی نہیں ہوئی ہے۔وہابیت اسلام کی جس گہرائی کو پھر سے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ یونیورسٹی کے صدر، نسیف میں کا فی تھی
اور جسے انتہا پسند کہا جا سکتا ہے۔اپنی طرز زندگی اور جس طرح سے لوگوں سے اس کا رابطہ
تھا ،دونوں میں نسیف اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے والا شاندار انسان تھا۔وہ ایک ایسے
معاشرے میں جوفن اور ثقافت سے مکمل طور پر خالی تھی، میں رہ کر بھی ثقافت کا دلدادہ
تھا۔اجڈ پن اور بھونڈے پن سے گھرے ہونے کے باوجود اس میں سے نزاکت اور حکمت باہر آتی
تھی۔اس کے ارد گرد جب سخت رویہ، بے مروتی اور دوسروں کو حقارت سے دیکھنا سعودی عرب
کی زندگی کا معمول بن رہا تھا اس وقت بھی اس
نے نرمی اور روداری کے ساتھ برتائو کرنا نہیں چھوڑا۔
سعودی عرب کی وہابیت کے حقیقی
در آمد کے بارے میں مجھے نومبر1979میں پتہ چلا۔اسی مہینے کچھ کٹر لوگوں نےمکہ میں
مسجد حرام کو اپنے قبضے میں کر لیا۔
چاند کی مدھم روشنی میں اور
خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہزاروں لوگوں کے بیچ، بدو لوگوں کا ایک گروپ اپنے کپڑوں کے
نیچے چھپا کر سب مشین گن،رائفل اور ریوالور لے آئے اور ہوا میں گولیا ں چلائیں۔ان
لوگوں نے زیادہ تر نمازیوں کو مسجد حرام سے نکل جانے دیا اور پھر مسجد کے تما م۳۹ دروازوں
کو اندر سے بند کر لیا۔۲۷
سال کے ان کے لیڈر محمد القحطانی نے خود کے مہدی ہونے کا
اعلان کیا اور کہا کہ وہ اسلام کو پاک کرنے کے لئے آئے ہیں۔زیادہ تر باغی عتیبہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے تھے اور ان
میں یوروپ اور امریکہ کے نو مسلم بھی شامل تھے۔یہ المشتری فرقی سے تعلق رکھتے تھے اور
جن کا عقیدہ تھا کہ جنت میں اپنا مقام بنانے کے لئے اپنا پورا مال اور زندگی مذہب کو
وقف کرنی ہوگی۔
ان لوگوں کا الزام تھا کہ
سعودی عرب کی حکومت عیسائی لوگوں کے ساتھ تعاون کر رہی ہے، شیعہ لوگوں کے خلاف شرع
عمل کی تصدیق کر رہی ہے، اسلام کی ایک سے زیادہ
تشریح سے اختلافات کو بڑھاوا دے رہی ہے، ریاست
میں ٹی وی اور فلم کو متعارف کرا رہی ہے، اور
دولت کی پوجا کو فروغ دے رہی ہے۔مکہ مکرمہ کا رابطہ باقی دنیا سےختم ہو گیا اور مسجد
کو فوج اور نیشنل گارڈ نے اپنے حصار میں لے لیا، جن کا بنیادی کام شاہی خاندان کی حفاظت
کرنا ہوتا ہے۔اس سے قبل کی باغیوں کو مسجد سے باہر نکالا جاسکتا انہیں باقاعدہ طور
پر موت کی سزا دی جانی تھی۔اس کام کی ذمہ داری
مملکت کے مفتی و قاضی اعلیٰ شیخ عبد العزیز بن باز کے کاندھوں پر آئی۔
بن باز نابینا تھے اور انہیں
میں نے اکثر مقدس مسجد میں دیکھا تھا۔ان کی آنکھوں پر لگا چشمہ ہمیشہ ایک ہی رہتا
تھا۔ایک نوجوان طالب علم ان کے بائیں کاندھوں کو پکڑ کر کعبہ میں ان کی رہنمائی کرتا
تھا جبکہ ان کے چاہنے والوں کا ہجوم ان کے دائیں ہاتھ کا بوسہ لینے کی کوشش کرتا تھا۔بن
باز کے سامنے باغیوں کے سعودی حکوت کے تئیں الزامات کو پڑھا گیا۔ان لوگوںنے باغی ھونے
کے دعوے سے پوری طرح اتفاق کیا۔انہوں نے کہا کہ، ہاں ایک وہابی ریاست کو کسی
کافروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ہاں ، کسی بھی صورت میں اسلام کی ایک سے
زیادہ تشریح کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ہاں، اسلام میں ٹی وی اور فلم سمیت کسی بھی
طرح کی تصویر حرام ہے۔اور ہاں، دولت کی پوجا نہیں ہونی چاہیے۔
صرف ایک ہی چیز جس سے شیخ عبد العزیز بن باز نے نااتفاقی دکھائی وہ تھی کہ یہ سب کچھ دراصل سعودی
مملکت میں ہوا۔اس طرح مسجد میں سیلاب آیا اور سبھی باغی اس میں ڈوب گئے۔ مجھے لگتا
ہے کہ یہ باغی کم از کم ایماندار تھے اور بے
ایمان وہابی ریاست کے مقابلے وہابیت کے اصل نمائندہ تھے۔
وقت کے ساتھ اور دنیا کے وسیع
علاقوں پر اسلامی تاریخ کی پیچیدگی اور تنوع کو یکسر انکار، اور اسلام کے متنوع اور
مجموعیت والی تشریح کو خارج کر وہابیت نے اسلام کو کردار اور اخلاق سے متعلق تعلیمات
سے الگ کر ایک، کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے والی فہرست والے مذہب میں تبدیل کر دیا ہے۔اس بات پر اصرا رکہ جو کچھ
بھی قرآن کے لفظی معنی اور سنّت میں نہیں
ملے گا، وہ کفر ہے اور اسلام کے دائرے سے باہر ہے
اور اس نظریہ کو پوری طرح لاگو کرنے کے لئے وحشیانہ طاقت اور زبردست سماجی دبائو
بنانا مطلق العنان حکومت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
مطلق العنان معاشرے میں چیزیں
بہت سست رفتار اور پر اسرار طریقے سے آگے بڑھتی ہیں۔میں وزارت داخلہ کے دفتر میں سعودی
عرب سے باہر جانے کے لئے ویزا لےنے کا انتظار کر رہا تھا۔تقریباً دو بجے جب سعودی عرب
میں دفاتر بند ہوتے ہیں اس وقت ویزا سیکشن کی کھڑکی کھلی اس سے ایک ہاتھ باہر نکلا
جس میں ایک فائل تھی اور اس نے ہوا میںیہ فائل اڑا دی۔ایک شخص جو سائے میں اپنی باری
کا صبر کے ساتھ انتظار کر رہا تھا اس نے فائل
اٹھائی،اس فائل پر ایک سرسری نظر دوڑائی اور مطمئن نظر کے ساتھ احاطے سے تیزی کے ساتھ
باہر نکل گیا۔کچھ پلوں بعد ہاتھ پھر باہر آیا اور ایک فائل ہوا میں اچھال دی گئی۔ایک
شخص نے اس کو اٹھا یا اور وہاں سے چلا گیا۔یہ عمل کئی منٹوں تک جاری رہا۔
آخیر میں ہاتھ ایک بار پھر
نظر آیا اور شیخ عبد اللہ جن کے ساتھ میں وہاں گیا تھا اور یونیورسٹی کے ملازمین کے
لئے ویزا کا انتظام کرنے کی ذمہ داری انہیں کی ہوتی ہے، ہاتھ دیکھ کر وہ اچھل کر کھڑکی
کے پاس آئے۔انہوں نے فائل کو کھولا اور ایک سرسری نظر ڈالی۔حیرانی سے دیکھتے ہوئے
میں نے ان سے پوچھا کہ ، ‘کیا مجھے سعودی عرب سے جانے کا ویزا مل گیا؟’
شیخ عباللہ نے جواب دیا کہ،
‘نہیں ابھی نہیں، آپ کو ابھی ویزا نہیں ملا ہے لیکن ڈاکٹر نسیف کے خط کی قدر کی گئی ہے۔’
میں نے پوچھا کی، ‘اس کا کیا
مطلب ہے؟’
‘مجھے نہیں معلوم۔مجھے اس طرح کے حالات کا پہلے کوئی تجربہ نہیں ہے،
لیکن مجھے لگتا ہے کہ آپ کل سعودی عرب چھوڑ سکتے ہیں۔’
‘میں ملک کو چھوڑ پائوں،اور اس سے زیادہ میں کچھ نہیں چاہتا’، میں نے
شیخ عبد اللہ سے فائل لی اس میں میرے پاسپورٹ کے ساتھ ایک خط نتھی تھا۔
اس وقت میرے ذہن میں ایک عجیب
خیال تھا۔ ‘سبھی فائل ایک جیسی نظر آتی ہیں اور کھڑکی کے پیچھے کا شخص کسی کو کچھ
بھی اشارہ نہیں کرتا ہےایسے میں تمہیں کیسے معلم چلتا ہے کہ کون سی فائل کو اچھل کر
پکڑنا ہے۔’
شیخ عبداللہ اس سوال پر تھوڑا
چڑھ گیا۔‘میں تمہیں سب کچھ بتا سکتا ہوں۔اگر تم یہ خط لے کر ایئر پورٹ جائو گے تو وہ
لوگ تمہیں جانے کی اجازت دے دیں گے’۔‘خلاس’ اس نے کہا اور اپنے ہاتھوں جھاڑتے ہوئے اس نے دوبارہ کہا ،
‘خلاس’۔ ‘سب ختم’۔ میرے جواب کا انتظار کئے بغیر
شیخ عبد اللہ اپنی گاڑی میں بیٹھااور چلا گیا۔
اگلا دن رمضان کا پہلا دن
تھا،شہر بلکہ پورا سعودی عرب پوری رات جاگتا رہا۔اس بابرکت ماہ میں پوری طرح جدا اور نئی طرز زندگی
ابھر کر سامنے آتی ہے۔دن رات بن جاتے ہیں۔جیسے ہی سحری کے ختم وقت کی علامت کے طور پر توپ داغی جاتی
ہے پورا شہر سو جاتا ہے۔سڑکیں سنسان ہو جاتیں ہیں،دفاتر،دکانیں اور کاروباری ادارے
بند ہو جاتے ہیں اور صرف دس بجے سے ایک بجے کے
درمیان کچھ گھنٹوں کے لئے کھلتے ہیں۔شہر غروب آفتاب سے پہلے کی زندگی کی علامت
کو دکھانا شروع کر دیتا ہے۔
جیسے ہی افطار کی شروعات کی
علامت بتانے والی توپ داغی جاتی ہے پورا شہر
جوش سے بھر جاتا ہے اور متحرک ہو جاتا ہے۔آسمان
بوس عمارتیں جگمگا اٹھتی ہیں اور سڑکوں پر جام لگ جاتا ہے اور گلی کوچے لوگوں کے ہجوم
سے بھر جاتی ہیں جو دکانوں سے آئندہ دن کے لئے خریداری کرتے ہیں۔دفاتر اور دکانیں
پھر رات دس بجے کھل جاتی ہیں اور صبح کے دو بجے کے بعد ہی یہ بند ہوتی ہیں۔کچھ ریسٹورنٹ
اور دکانیں طلوع آفتاب سے قبل تک کھلی رہتی ہیں اور سامان فروخت کرتی ہیں۔
یہ واقعی حیران کن ہے کہ کیسے
سعودی عرب کے لوگ آسانی اور تیزی کے ساتھ رات میں جاگنے اور دن میں سونے کی تبدیلی
سے آراستہ ہو جاتے ہیں۔مکہ کے محاصرے کے بعد پچھلے رمضان میں میں نے اسلام میں استحکام
اور تبدیلی پر غور کرنا شروع کیا۔میں نے اسلامی تہذیب کے مستقبل پر لکھنا شروع کیا۔یہ
ایک اسلامی معاشرہ کیسا ہونا چاہیے اور کیسا ہو سکتا ہے کے بارے میں اپنا نقطہ نظر
واضح کرنے کی کوشش تھی۔
میری دلیل ہے کہ، کوئی بھی
چیز ہمیشہ ہم عصر نہیں رہتی۔اسلام کو پھر سے
جوڑنے ، نئے سرے سے سمجھنے، ایک زمانے سے دوسرے زمانے، ضرورت کے مطابق، کسی مقام کی
مخصوص جغرافیائی ضرورت اور وقت کے حالات کے مد نظر سمجھا جانا چاہیے۔جو تبدیل ہوتاہے
وہ ہے ثابت قدمی کی ہماری سمجھ۔اور جیسے ہی
اسلام کے باری میں ہماری فہم بڑھتی ہے تو ہم پاتے ہیں کہ عقیدے کے معاملات کو چھوڑ کرایک عہد کا اسلام دوسرے عہد سے بہت مطابقت نہیں رکھتا ہے۔میرے مطابق وہابیت
نے اسلام میں دو غیر مادّی آفت متعارف کرایا ہے۔
پہلی، تشریح کے بارے میں ہمارے نظریہ کے کامل حوالے-قرآن
اور پیغمبر محمد ﷺ کی حیات طیبہ کو بند کر کے اس
نے مومنوں سے وسیلہ کو چھین لیا۔کسی کا بھی ایک زندہ اور عبدی متن سے صرف ایک
تشریحی تعلق ہو سکتا ہے۔متن کو سمجھنے اور نئی معنی تلاش کرنے کے لئےمسلسل جدوجہد کے
تعلق کے بغیر مسلم معاشرے کو برباد ہو ہی جانا
ہے۔
اگر سب کچھ مقرر تو کچھ بھی
نیا شامل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ایک مردہ داڑھی
والے انسان کے خیالات کے مطابق اگر سب چیزوں
کو ماننے لائق اور نہ ماننے لائق کے فارمولے میں تبدیل کیا جاسکے تو عقل، انسانی فہم
بے معنی رکاوٹ بن جائیں گے۔
دوسرے، اگرنبی کریم ﷺ کے صحابہ
کے ساتھ ہی اخلاق اور کردار اپنے نقطہ عروج، یا
اختتام کے نقطہ پر پہنچ گئے ہیں تو وہابیت
جو بعد میں اسلام پسندی کے نام سے جانا گیا، وہ انسانی فکر اور اخلاق کی ارتقاء کے تصور سے انکار کرتا ہے۔تو یہ یقینی طور پر مسلم تہذیب کو مسلسل زوال کے مقررہ راست پر لے جاتا
ہے۔
ماخز: ڈسپریٹلی سیکینگ پیرا ڈائز: جرنی آف اے اسکیپٹیکل مسلم (ضیاء الدین سردار) جو اسی ماہ گرانٹا بکس نے شائع کیا ہے۔
ضیاء الدین سردار مصنف اور
براڈکاسٹر ہیں اور خود کو کئی علوم کا ماہرمبصر کہتے ہیں۔وہ ڈسپریٹلی سیکینگ پیرا ڈائز
سمیت 40 سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔وہ دی سٹی یونیورسٹی، لندن کے اسکول آف آرٹس
میں ویزیٹنگ پروفیسر ہیں۔منصوبہ بندی،پالیسی اور مستقبل کے مطالعہ کے ماہانہ جریدے،
‘فیوچر’ کے مدیر ہیں۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/books-and-documents/is-muslim-civilisation-set-on-a-fixed-course-to-decline?-asks-ziauddin-sardar/d/6299
URL: https://newageislam.com/urdu-section/is-muslim-civilization-set-path/d/6306