زین شمسی
11 دسمبر، 2014
کہا جاتاہے کہ یوسف خان پھل بیچتے تھے اور ان کے ابا حضور انکے اس پیشہ سےبے حد خوش تھے ۔ یوسف خان بھی خوش تھے اور وہ اس لیے خوش تھے کہ انہیں یہ پتہ نہیں تھا ایسا دن بھی آئے گا ، جب ان سے ان کا پیشہ تو دور کی بات ان کانام بھی ان سے چھین جائے گا اور یہ سب ایسا اس لیے ہوا کہ انہیں اردو آتی تھی ۔ دیویکا رانی نے اس شرمیلے لڑکے سے پوچھ لیا ، کیا تمہیں اردو آتی ہے اور انہوں نے کہہ دیا ہاں ! اور بس شروع ہوا یوسف خان کو الوداع کہنے اور دلیپ کمار کے استقبال کی کہانی ۔ یوسف دلیپ کیا بنے، پردہ سیمیں کا حسن نکھر گیا۔ فلم انڈسٹری میں دلیپ کمار کی آمد نے فلم میکر سمیت فلم بینوں کا مزاج بدل کر رکھ دیا۔ معروف ہالی وڈ اداکار جانی ڈیپ نے ایک بار مارلن برینڈو کےبارے میں کہا تھا کہ برینڈو سے پہلے ادارکار اداکاری کیا کرتے تھے، لیکن ان کے بعد کے اداکار صرف کام کرتے ہیں۔ یہ بات دلیپ کمار کے فلم انڈسٹری چھوڑ نے کے بعد خود دلیپ کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔
دلیپ کمار کو ہم کس کسوٹی پرپرکھیں گے۔ آپ کوئی بھی آلہ پیمائش لے لیں ۔ ڈائیلاگ ڈلیوری ، انداز بیاں، افسردگی کا ماحول ، قہقہو ں کا سماں، محبت کا اظہار ، ظلم کے خلاف تن کر کھڑا ہونا یا پھر ٹوٹتے بنتے سماجی اقدار میں ایک عام آدمی کی الجھنوں کی نقاشی ، دلیپ کی اداکاری ان سب سے دو قدم آگے نکلتی نظر آتی۔ ان کو ان کے ہم عصروں کے ساتھ جوڑ کر دیکھئے تو فلم انڈسٹری کی تثلیث راجکپور، دیو آنند اور خود دلیپ کمار میں سے جو سب سے ورسٹائل آرٹسٹ آپ کو ملے گا تو وہ دلیپ ہی ہوگا۔ راج کپور نے اپنےآپ کو سماجی خدمت گار جیسے عام آدمی کے قلب میں ڈھال لیا۔
اور چال چیلپن کو اپنا آئیڈیل بنایا، تو دیو آنند گریگوری پیک کے انداز میں مہذب اداؤں والے شخص کی امیج سےباہر نہیں آپائے۔ چاکلیٹی ہیرو کے خول سے دیو آنند کبھی باہر نکل سکے، اس وقت بھی جب انہیں گائیڈ اور جیولر تھیف جیسی فلمیں کرنے پڑیں ۔ تب بھی دیو آنند ٹائپ اداکاری ہی محسوس ہوئے ، لیکن دلیپ کمار نے اگر مغل اعظم میں باغی شہزادہ کا کردار اسی باغی تیور سے نبھایا تو اسی تیور کو وہ گنگا جمنا اور سگینا میں دہرانے سے کتراتے نظر آئے۔ اگر عاشق دیواس نے اپنے معشوقہ کے لیے زندگی تباہ کی تو گوپی اور پیغام اپنے محبوب کو جلانا بھی جانتا تھا ۔ ان کی تقریباً فلمیں ایک دوسرے سے مختلف نظر آئیں ۔ ہر فلم میں دلیپ کمار کے ہزار رنگ دکھائی دئے۔
انہیں یو ں ہی اداکاری کی انڈسٹری قرار نہیں دیا گیا ۔ اگر ان کا موازنہ ان کے سینئر اداکاروں اور بعد میں سنیما میں قدم رکھنے والے اداکاراؤں سے کیا جائے تو یہ کہنے میں تامل نہیں ہوگا کہ انہوں نے اپنی 3 پیڑھیوں کو اداکاری کے معاملہ میں پیچھے چھوڑ دیا۔ مغل اعظم میں وہ اس وقت کے اداکاری کے شہنشاہ پرتھوری راج کپور سے ٹکراتے نظر آئے تو ، شکتی’ میں ہندوستان کے ملینیم ادکار کا خطاب حاصل سپر اسٹار امیتابھ بچن کے مقابل کھڑے نظر آئے ۔ تیسری نسل رشی کپور، سنجے دت، انل کپور اور جیکی شراف ، نصیر الدین شاہ وغیرہ کے سامنے بھی دلیپ کا قد اونچا ہی رہا ۔ ‘ شکتی’ دیکھ کر راج کپور نے بنگلور سے دلیپ کمار کو فون کر کے کہا کہ ‘ لاڈلے’ آج فیصلہ ہوگیا۔ تم آج تک کے سب سے عظیم اداکار ہو۔ وہیں امیتابھ بچن ان کے تب گرویدہ ہوئے جب انہوں نے گنگا جمنا دیکھ کر کہا کہ میں دیکھنا چاہتا تھاکہ ایک پٹھان جس کا اتر پردیش سے دور دور کا بھی تعلق نہیں وہ کس طرح وہاں کی بولی کو مکمل پرفکشن کے ساتھ بولتا ہے۔ دلیپ کمار نے ‘ گنگا جمنا’ میں ایک دیہاتی کے کردار کو جس خوبی سے نبھایا ، اتنا ہی انصاف انہوں نے ‘ مغل اعظم’ میں مغل شہزادے کے کردار کے ساتھ کیا۔
یوں تو دیویکا رانی 40 کی دہائی میں ہندوستانی فلم دنیا کا بہت بڑا نام تھا لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ پشاور کے پھل تاجر کے بیٹے یوسف خان کو ‘ دلیپ کمار’ بنانا تھا ۔
جہاں تک فلم بینی کا معاملہ ہے تو ہم لوگ امیتابھ بچن اور راجیش کھنہ کے دور میں پیدا ہوئے ، لیکن اس زمانہ میں بھی دلیپ کی کوئی فلم نہیں چھوڑی۔ اس وقت ایک واقعہ یادآرہا کہ میٹرک کا امتحان چل رہا تھا اور پورنیہ کے روپ وانی سنیما ہال میں شکتی فلم دکھائی جارہی تھی ۔ ہم لوگوں کو امتحان کا ٹینشن تھا اور امتحان کے مرکز جاتے وقت شکتی کا پوسٹر دیکھ کر دل میں قلق ہوتا تھا کہ کہیں امتحان ختم ہوتے ہوتے یہ فلم سنیما ہال سے نہ اتر جائے؟ لیکن مزہ کی بات یہ ہوئی کہ سوشل سائنس کا پرچہ دیکر گھر آیا تو چچا جان نے کہا کہ شمسی تم نے ‘ شکتی’ نہیں دیکھی ۔میں نے کہا کہ امتحان کا ٹنشن ہے ۔ دن بعد سائنس کا پرچہ ہے ایسے میں فلم کے بارے میں کون سوچے۔ چچا نے کہا کہ آج نائٹ شو میں چلے جاؤ ، سارا ٹینشن دور ہوجائے گا؟ میں حیرت زدہ تھا کہ ایسے وقت میں جب مستقبل داؤ پر لگا ہے۔ چچا جان شکتی دیکھنے کی بات کررہے ہیں؟ بہر حال ہم نے فلم دیکھی ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ میٹرک میں سب سے اچھے نمبر سائنس میں ہی ملے۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ یہ امیتابھ بچن اور دلیپ کمار کی شکتی تھی لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ دلیپ کمار کے چاہنے والے لوگ بھی یہ چاہتے تھے کہ ان کے من پسند ایکٹر کی فلم زیادہ سے زیادہ دیکھیں ۔ میں دلیپ کمار کی باتیں ابو سے سنتا تھا اور بڑے ماموں تو ان کے پرستار تھے ۔ گھر میں حالانکہ فلم کا ماحول نہیں تھا لیکن دلیپ کی فلم کے لیے سب کی خاموش رضا مندی تھی ۔ یہ دلیپ کمار کا جادو ہی تھا کہ بند معاشرہ میں بھی انہوں نے اپنی اداکاری سے فلم کا ماحول بنا دیا تھا ۔
11 دسمبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ خبریں ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/present-actors-work,-dilip-kumar/d/100420