زین شمسی
25 اکتوبر، 2014
نیو یارک ٹائمز میں شائع ایاک مضمون نظر سے گزرا۔ مضمون نگار جیک فلینگن نے انتہائی مایوسی کے ساتھ بات کا ذکر کیا ہے کہ ہندوستانی مسلمان دنیا کے دیگر خطوں میں رہنے والے ماحول کو اپنے یہاں کسی بھی صورت میں برادشت نہیں کرتے ۔ مضمون نگار نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ایک طرف جہاں عالم اسلام میں شدت پسندی زور پکڑتی جارہی ہے وہیں ہندوستانی مسلمان کمال کا صبر دکھاتے ہوئے امن و بھائی چارگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
دراصل مغربی میڈیا اور خاص طور پر امریکی و صیہونی میڈیا کو ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں بہت زیادہ فکر ستاتی رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دنیا میں ہندوستان مسلمانوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہونے کے باوجود اس کا مزاج عالم اسلام سے بالکل مختلف رہا ہے ۔یہاں کے مسلمانوں کے اپنے مسائل ہیں اور اسے وہ خود ہی حل کرنا جانتےہیں ۔ 11/9 ہو یا ممبئی میں دہشت گردانہ حملہ ہو ، مسلمانوں نے تمام طرح کی شدت پسندی سے اپنے آپ کو دور رکھا ۔ یہاں تک کہ بابری مسجد کی شہادت اور گجرات میں بڑے پیمانے پر ہونے والا فساد بھی اسے دہشت گر بنانے میں ناکام رہا ہے ۔ دہشت گردی تو دور کی بات اس نے ایسی تنظیموں سےبھی اپنا رابطہ رکھنا مناسب نہیں سمجھا جو اسلام کی بقا اور اسلام کے خلاف ہورہی سازشوں کا جواب بم برسا کر کرتی ہیں ۔
بر صغیر ایشیا میں دہلی سلطنت اور مغلیہ دور حکومت کو تاریخ نویس ضرور مسلمانوں کوحکمرانی کا دور کہتےہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ بادشاہ ضرو ر مسلمان تھے، لیکن انتطامیہ اور حکومتی امور کی نگرانی میں ہندوؤں کا اچھا خاصہ دخل تھا ۔ یہاں تک کہ اورنگ زیب کے دور میں بڑے بڑے عہدوں پر ہندو قابض تھے ۔ مسلم حکمرانوں نے ہندوستان سے محبت کی تھی اور جب وہ رعایا بنے تب بھی اسی طرح محب وطن رہے، جیسے پہلے تھے ۔ انہوں نے مشترکہ کلچر کو فروغ دیا اور ہندوؤں کے ساتھ جینے کی کوشش کی ۔ جمہوریت کو اپنا یا اور آئین عدلیہ پر اعتماد کیا۔ ہندوستان میں صوفی سنتوں نے راہ بنائی تھی ا س راہ پر چل کر یہاں کے ہندو او رمسلمان تہذیبی طور پر تقریباً ایک سے ہوگئے ۔ تہواروں اور شادی بیاہ کی رسموں کے ساتھ ساتھ دیگر تقریبات میں بہت زیادہ فرق نہیں رہا۔ تقسیم ہند اور فسادات کا درد جھیلتے ہوئے بھی اس نے کبھی غدار ی وطن او رملک مخالف سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا اور یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں بھی جب تمام مسلم ممالک دہشت گردی کے زخم میں لت پت ہیں، ہندوستانی مسلمان اس سے بہت دور ہیں۔
تاہم مسلمانوں کے خلاف جس طرح کا عالمی ماحول دیکھنے کو مل رہاہے، اس سے اس بات کا اندیشہ حقیقت میں تبدیل ہونے لگا ہے کہ ساری دنیا کےمسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہندوستان میں بھی مسلم نمائندے اور رہنما ئے ملت صفائی دیتے نظر آرہے ہیں کہ کوئی بھی وحشیانہ اور غیر مہذب وغیر سماجی انتہا پسند تنظیمیں سارے مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتیں ۔ ملک کے مسلمانوں کے خلاف ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت کئی طرح کے نظریات پھیلائے جاتے ہیں ۔ جیسے دنیا کے سارے دہشت گرد مسلمان ہیں، اپنے مذہب کو لے کر مسلمان شدت پسند ہوتا ہے وہ تشد پر یقین کرتاہے، وہ ملک میں شریعت قانون نافذ کرنا چاہتا ہے ، ملک اور ریاست کی حکومتیں اپنے ووٹ بینک کے لئے ان ہی کے مفاد میں سوچتی ہیں، آبادی بڑھانے کے لئے مسلمان کئی بچوں کو جنم دیتا ہے ، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی کئی حقائق سے عاری باتیں ملک میں گردش کرتی رہتی ہیں ۔ عالمی سطح پر اگر ہم مسلم ممالک کا جائزہ لیں ، تو تصویر کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے ۔ انڈونیشیا دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک ہے ۔ وہ مکمل طور پر ایک سیکولر ریاست ہے۔ باقی دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی سیکولر ممالک میں رہتی ہے۔ دنیا کے زیادہ تر مسلم ممالک میں ترکی، مالے، شام، نائیجریا اور قزاقستان جیسے مسلم آبادی والے بڑے ممالک سیکولر اور جمہوری ہیں ۔ دنیا کے صرف 6 ممالک نے ہی باضابطہ شریعت قانون کو اپنا یا ہے۔
یہ تشہیر بازی کہ بیشتر دہشت گرد مسلمان ہیں، سچائی سے بالکل برعکس ہے۔ اگر ہم دہشت گردی کی سرکاری تعریف پر دھیان دیں تو غیر قانونی سرگرمی پابندی کے قانون کے تحت ممنوعہ دہشت گرد تنظیموں میں ایک تہائی مسلم دہشت گرد تنظیم نہیں ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ بم دھماکہ کرنے والی تنظیم سری لنکا کی ایل ٹی ٹی ای رہی ہے۔ ایل ٹی ٹی ای کو خود کش بم دھماکوں کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ غیر مسلم تنظیم ہے۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورئل کے مطابق 2005 سے 2014 کے درمیان سب سے زیادہ لوگ انتہا پسند مسلم نتظیموں کی بجائے شمال مشرق کے عسکریت پسندوں اور ایک خاص نظریہ سے وابستہ لوگوں کے ذریعہ ہلاک ہوئے ہیں ۔
حکومت کی طرف سے طے کی گئی دہشت گردی کی تعریف بھی متنازع ہے۔ کسی بم دھماکے میں 20 افراد کی ہلاکت دہشت گردی ہے، جبکہ 1984 میں دہلی اور 2002 گجرات میں ہزاروں لوگو ں کو قتل کردیا گیا تھا ۔ اسی طرح 2008 میں اڑیسہ میں 68 اور حال ہی میں مظفر نگر میں ہوئے فسادات میں 40 افراد ہلاک ہوگئے ۔ ہر فسادات کی طرح اس فساد کی تیاری بھی منصوبہ بند طریقے سے کی گئی تھی ، پھر ان فسادات کو حکومت دہشت گردی سے کیوں نہیں جوڑ کر دیکھتی ؟
ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں یہ بات بھی زور شور سے اٹھائی جاتی رہی ہے کہ وہ کئی شادیاں کر کے اپنی آبادی ہندوؤں کی آبادی کے برابر لانا چاہتے ہیں ۔ قومی خاندان صحت سروے کے مطابق، نوجوان مسلم خواتین اور ہندو خواتین کی تولیدی شرح یکساں ہے۔ غربت ، ناخواندگی اور سہولیات کا فقدان بچوں کی تعداد کا تعین کرنے والی بڑی وجہ ہے اور یہ ہر طبقہ پر نافذ ہوتی ہے۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ میں یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ مسلم آبادی میں بینکوں کی شاخیں ، بس اسٹاپ ، سڑکوں کی تعداد وغیرہ پڑوسی ہندو اکثریت والے علاقے سے کم ہیں ۔ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کی بڑی آبادی کچے مکان میں رہتی ہے۔ غربت کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو ہندوستانی مسلمان دیگر کسی طبقہ کے مقابلے میں زیادہ غربت میں گزر بسر کرتے ہیں ۔ 3 فیصد سے بھی کم مسلمان ہندوستانی انتظامیہ اور ہندوستانی پولیس سروس میں ہیں، جب کہ ان کی آبادی 13 فیصد سے زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر سچر کمیٹی نے مسلمانوں کے حالات کو سماجی ، اقتصادی طور پر دلتوں اور قبائلیوں کے حالات جیسے ہی بتایا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف ہر سطح پر چلنےوالے جھوٹے پروپیگنڈے سے غلط مفروضہ کو قائم کرنے کی مسلسل کوشش چلتی رہتی ہے، جو نہ سماج کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ملک کے مفاد میں ۔ آج جب ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ آر ایس ایس جیسی تنظیمیں اس بات کو ہوا دینے کی کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کو بد نام کرکے اس کے مفاد پر قدغن لگایا جائے تو یہاں کے ہندو ہی ان کے مقصد کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے ، کیونکہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوئی بھی کوشش اس لیے کامیاب نہیں ہوگی کہ کیونکہ مسلمانوں نے اس زمین کو سینچنے میں ہندوؤں سے زیادہ بڑھ کر حصہ لیا ہے اور وہ اپنے ملک کو بد نام یا برباد کرنے کے بارےمیں کبھی سوچ بھی نہیں سکتے ۔ وہ ضرور آج تعلیمی ، سماجی اور سیاسی طور پر پسماندگی کا شکار ہیں ، لیکن ان کادل آج بھی ہندوستان کے لئے دھڑکتا ہے اور ان سے اس دیش کی مٹی کوئی نہیں چھین سکتا ۔
25 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ خبریں، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/indian-muslims-believe-pluralistic-society/d/99714