ظہور رضا مصباحی
6اکتوبر ،2017
بنیادی طور پر اسلامی فلسفۂ جہاد میں جہاد کا مقصد ایک ایسی پر امن ،تعمیر ی، اخلاقی اور روحانی جد و جہد ہے جو حق و صداقت اور انسانیت کی فلاح کے لئے کی جاتی ہے۔ یہ جد و جہد اصولی بنیادوں پر صرف ایسے ماحول کا تقاضا کرتی ہے جس میں ہر شخص کا ضمیر ،زبان اور قلم اپنا پیغام دلوں تک پہنچانے میں آزاد ہو۔ معاشرے میں امن و امان کا دور دورہ ہو۔ انسانی حقوق مکمل طور پر محفوظ ہو۔ ظلم و استحصال اور استبداد کی کوئی گنجائش نہ ہو او ر دنیا کے تمام ممالک پر امن بقائے باہمی کے رشتے میں منسلک ہوں، لیکن جب امن دشمن طاقتیں علم و عقل کی رہنمائی سے محروم ہوکر مقابلہ پر آجائیں اور اجتماعی امن و سکون او رنظم و نسق کے خلاف تباہ کن سازشیں او رعلی الا علان جنگی تدابیر کرنے لگیں تو ایسے وقت میں جہاد کا معنی یہ ہوتا ہے کہ امن و سلامتی کے دشمنوں او ران کے تمام جنگی مرکزوں کے خلاف مسلح جد وجہد کی جائے جس ذریعہ امن و آشتی کے ماحول کو بحال اورخیر و فلاح پر مبنی معاشرہ قائم کیا جاسکے ۔
جہاد کا لغوی مفہوم : جہاد کا لفظ جہد سے مشتق ہے، جہد فتح کے ساتھ وسعت کے معنی میں او رجہد رفع کے ساتھ مشقت کے معنی میں مستعمل ہے،ان دونوں مادہ ہائے اشتفاق کی روشنی میں لفظ جہاد معنی و مفہوم یہ ہوگا کہ وہ امر خیر جس میں انتہائی طاقت اور وسعت صرف کی جائے او رہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کی جائے ۔ علاوہ ازیں لفظ جہاد کسی کام میں مبالغہ کرنے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دشمن کے مقابلہ و مدافعت میں فوراً اپنی پوری قوت و طاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے ۔ (راغب الصفہانی ،المفردات :101)
جہاد کی شرعی مفہوم : اجتہادی اور ارتقائی نقطہ نظر کے مطابق جہاد اپنے اندر ایک بڑا وسیع اور جامع مفہوم رکھتا ہے ۔مفکرین نے مختلف اوقات میں اپنے اپنے انداز ، فکر او سوچ کے مطابق جہاد کے شرعی مفہوم کو مختلف طریقے سے کرنے کی سعی کی ہے۔ لیکن جدید عصری تقاضوں کے پیش نظر اس کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے۔ ’ دین اسلام کی ترویج و اشاعت، سر بلندی و اعلاء اور حصول رضائے الہٰی کے لیے اپنی تمام تر جانی مالی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعداد وں کو وقف کردینا جہاد کہلاتا ہے‘۔
جہاد کے مقاصد جلیلہ: جہاد فی سبیل اللہ کا پہلا مقصد یہ ہے کہ مخلوق خدا کو استعماری قوتوں اور استحصالی غاصبوں کے چنگل سے رہائی دلا کر انہیں آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا جائے ۔ دوسرا مقصد اعلائے کلمۃ الحق ہے یعنی اللہ کے دین کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے فتنہ انگیزی کا قلع قمع کیا جائے ۔ تیسرا مقصد یہ ہے کہ استحصال کی ہر شکل کو مٹا دیا جائے تاکہ اس کرۂ ارض پر عدل قائم ہو اور اولاد آدم کے جمہوری حقوق کی پاسداری کی ضمانت دی جاسکے ۔
اسلام میں جہاد کا تصور : عربی لغات کے مطابق سرزمین عرب میں جنگ کے لئے جو سیکڑوں تراکیب محاورے ، علامتیں ، استعارے اور اصطلاحات استعمال ہوتی تھیں، ان سب سے بلاشبہ وحشیانہ پن اور دہشت گردی کا تاثر ابھرتا تھا ۔ عسکری لڑیچر کی اصلاح کے لیے اسلام نے ان تمام الفاظ اور محاوروں کو ترک کر کے اصلاحِ احوال کی جد وجہد کی طرف دفاعی جنگ کو بھی ’ جہاد‘ کا عنوان دیا ۔ یعنی اسلامی نقطہ نظر سے لفظ جہاد کا اطلاق اعلیٰ و ارفع مقاصد کے حصول ، قیام امن ، فتنہ فساد کے خاتمہ اور ظلم و ستم ،جبر و تشدد او روحشت و بربریت کومٹانے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے پر ہوتا ہے، لیکن آج دنیا کے مختلف حصو ں میں اسلام او رجہاد کے نام پر ہونے والی انتہا پسندانہ اور دہشت گرانہ کاروائیوں کی وجہ سے تصور جہاد کو غلط انداز میں سمجھا او رپیش کیا جارہا ہے۔جہاد کا تصور ذہن میں آتے ہی خون ریزی اور جنگ و جدال کا تاثر ابھرتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے فی زمانہ جہاد کے نظریے کو نظریۂ امن اور نظریۂ عدم تشدد کا متضاد سمجھا جارہا ہے۔ مغربی میڈیا میں اب لفظ جہاد کو قتل وغارت گری اور دہشت گردی کے متبادل کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاد کے اس غلط مفہوم کو عام کرنے میں انگریزی لغات کابہت عمل دخل ہے۔حالانکہ لفظ جہاد کے لغوی معنی میں ، اس کے اصطلاحی مفہوم میں اور قرآن و حدیث میں کہیں بھی اس کے اندر warیا war holyکا معنی نہیں پایا جاتا ۔ تاریخی حقائق البتہ اس امر پر شاہد ہیں کہ خود یورپ کے بادشاہوں نے عوام کے مذہبی جذبات کو اشتعال دینے اور چرچ کو جنگ میں شریک کرنے کیلئے holy war کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کیا او ربعد کے لٹریچر میں یہی معنی بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے جہاد کے ترجمہ کے طور پر مروج ہوگیا ۔ اس اصطلاح کو اختراع کرنے کا مقصد مذہبی طبقات کے جذبات کو مہمیز دے کر انہیں جنگ میں شریک کرنا تھا۔
قرآن میں موجود الفاظ جہاد کا معنی و مفہوم : اسلامی جہاد قطعی طو رپر ’ لڑائی ، جھگڑے، قتل و غارت او رخون ریزی کا نظریہ پیش نہیں کرتا ۔قرآن حکیم میں جہاد کے موضوع پر تقریباً 35آیات ہیں، جن میں 31آیات کے معنی ومفہوم نہ تاریخی اعتبار سے اورنہ ہی اصطلاحی اعتبار سے جہاد کا معنی و مفہوم میں ہے۔ ان 31قرآنی آیات میں جہاد کامعنی ومفہوم مختلف معنوں میں ہے، جن میں ایک معنی بھی قتل وغارت ، لڑائی جھگڑے اورجنگ و جدل کا نہیں ہے۔ اور قرآن پا ک میں کوئی آیت بھی ایسی نہیں جس میں جہاد اور قتال کالفظ اکٹھا آیا ہو۔ جہاد اور قتال دو الگ الگ لفظ ہیں ،جو قرآن میں کہیں بھی ایک ساتھ اکٹھے نہیں ہوئے۔ دوسری جانب قرآن میں جہاد کے مفہوم میں دفاعی جنگ کا تصور موجود ہے۔
جہاد جارحیت پسندی اورجنگ کرنے کا نام نہیں بلکہ قرآنی مفہوم کے مطابق یہ اپنی حفاظت کا نام ہے۔ اسی طرح ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں 13سال تک مختلف قوتوں کا مقابلہ کیا ۔ ان سب لڑائیوں میں آپ نے سلیف ڈیفنس کیا ۔ مسلمانوں نے اپنی جنگ نہیں لڑی، جس میں انہوں نے دشمن پر خود حملہ کیا ہو۔ جہاد کے اس جامع اور وسیع مفہوم کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قرآن حکیم میں جہاد کا حکم سب سے پہلے شہر مکہ میں اس وقت نازل ہوا جب کہ ابھی جہاد بالسیف کی اجازت بھی نہیں ملی تھی ۔ صحابہ پر جبر و تشدد کے پہاڑ ڈھائے جاتے مگر انہیں اپنے دفاع اوراپنی جان بچانے کے لیے بھی ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی ۔انہیں اس وقت تک صبر کرنے کی تلقین کی گئی جب تک اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے نجات کی سبیل پیدا نہ فرما دی ۔ اس ممانعت کے باوجود جہاد کے متعلق پانچ آیات مکہ میں نازل ہوئیں ۔ (1) الفرقان ، 52:25(2) العنکبوت ، 6:92 (3) العنکبوت، 29:8 (4) العنکبوت ،69:29 (5) لقمان ،15:31۔ یہ پانچوں آیتیں ہجرت سے قبل مکہ میں نازل ہوئیں مگر حکم جہاد کے باوجود صحابہ کو اپنے دفاع میں بھی اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی ۔ اگر جہاد کا معنی مسلح جنگ یا آہنی اسلحہ کے ساتھ قتال ہی ہوتا تو مذکورہ آیات کے نزول کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد بالسیف کا حکم فرما دیتے اور صحابہ کرام جہاد بالسیف کرتے، حالانکہ اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ جہاد بالقتال کی اجازت ہجرت کے بعد مدینہ میں جاکر ملی ۔ کیوں ؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جہاد کا معنی ہر گز صرف قتال ، جنگ یا لڑائی نہیں ہے۔ یہ تو انتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے قرآن و حدیث کے بعض الفاظ اور اصطلاحات کو قتل و غارت گری، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے مفہوم میں لے لیا ہے ۔ ان آیا ت کے شان نزول ، تاریخی پس منظر او رسیاق و سباق پر غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام آیات میں جہاد کا معنی علم کی ترویج ، روحانی ارتقا، فکری جد و جہد اور انفاق و خیرات ہے۔ ہاں البتہ جب جارحیت کی جنگ کسی قوم پرمسلط کردی جائے تب اسے اپنی حفاظت اور دفاع کی جنگ لرنے کی اجازت ہے۔ ان کی UNاور بین الاقوامی قانون بھی اجازت دیتا ہے اور اس کا حق دنیا کی ہر قوم او رہر ملک کو حاصل ہے۔
6اکتوبر،2017، بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism