Like millions of her countrymen Zahida Hina is also grief-stricken and shocked at the heinous terrorist attack at the Data Darbar in Lahore. She feels that the war waged by the terrorists has entered into its final phase. Now the human beings will be beheaded more mercilessly and more frequently. The belief that Data Darbar’s shrine will not be attacked has been shattered. But now it has been realised that nothing can be more dangerous than considering oneself blessed and others doomed for the hell. But the fact remains that after every attack on the shrines of sufi saints, people will come back to these centres of peace, love and humanity. Terrorists cannot hold people back, do whatever they can, she believes.
Source: Sahafat, New Delhi
URL: https://newageislam.com/urdu-section/night-monsters-/d/3156
زاہدہ حنا
کالم لکھا جاچکا تھا جب خبر آئی کہ داتا دربار کو خون سے نہلادیا گیا۔لاہور کایہ دربار ہماری ان مسلم صوفی روایات کاپہلا چراغ ہے جوبرصغیر کے سرزمین پر روشن ہوا اور اس کے بعد مسلم تصوف کے چراغ سےچراغ جلتے گئے اور انہوں نے پہلے سے روشن مختلف مذاہب کی صوفیانہ روایات سے چراغوں کی جگمگاہٹ کو دوبالا کیا۔
ڈیڑھ ہزار برسوں کے دوران منہ زور گھوڑوں کے سمو ں سے گردااڑاتےہوئے اور تلوار کی سان سے سروں کی کھیتیاں کاٹتے ہوئے جانے کتنے طالع آزما آئے اور گزر گئے ۔ ان میں سے کچھ کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے او رکچھ کو تاریخ نے اتنی اہمیت بھی نہ دی کہ ان کے نام کو محفوظ رکھے ۔ اس برصغیر میں لاکھوں کروڑوں کے سران کی چوکھٹو ں پر جھکتے رہے ہیں جہاں کوئی دربان نہیں ، جہاں مال ومنال ، مسلک ومذہب اور حسب نسب کی پوچھ تاچھ نہیں،جہاں کوئی دیوان خاص اور دیوان عام نہیں ۔یہ روح کو سیراب کرنے والے چشمے ہیں ، جس کا جی چاہے آئے، پیاس بجھائے اور چلا جائے۔ داتا ر دربار کی چوکھٹ پر کھڑے ہوکر نظر ڈالیے تو بر صغیر کےطول و عرض میں ایسے نہ جانے کتنے دربار ہیں جہاں خلقت جوق در جوق آتی ہے اور ایسے بھی جن میں سونے والا بے نام ونشان ہے، اس کی قبر کے سینے سے خورد وگھاس سے اُگ آئی ہے ۔ کسی ویرانے میں ،کسی کھیت کے کنارے بنی ہوئی ان قبروں کو جاکر دیکھئے تو سرہانے رکھا ہوا کائی لگا مٹکا آپ کو کبھی خالی نہیں ملے گا ۔ پاس کی بستی سےکوئی کسان پانی کاڈول لاتا ہے اور اسے بھر کر چلا جاتا ہے ۔ کوئی بھولا بھٹکا مسافر اس سے گزرے تو پیاسا نہ جائے۔ شام ڈھلے کوئی عورت اپنے گھر کےچراغ کے تیل کا ایک حصہ قبر کے سرہانے رکھے ہوئے چراغ میں انڈیل کر اسے روشن کردیتی ہے ۔ رات میں ادھر سے گزرنے والے راہ نہ بھولیں ، انہیں اس ننھے روشن چراغ کا آسرا ہوا۔
بقعۂ نور داتا دربار ہو یا ان بے نام قبروں کے آثار، یہ عام لوگوں کے دلوں کا آسرا ہیں۔ رحمان ابا کے مزار کی بے حرمتی کرنے والے محترم بزرگوں کی قبروں کو مسمار کرنے واے ، لاشوں کو زمین کی گود سے نکال کر پیڑوں پر پھانسیاں دینےوالے ،داتا دربار میں خون کی برسات کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ نفرت کی باڑھ سے خلق خدا کو غرق نہیں کیا جاسکتا ۔ داتا دربار سے خون کے دھبے دھل گئے ، تو لوگوں نے اپنے پیاروں کے بدن کے پارچے چن کر انہیں سپردخاک کردیا، ان پر گریہ وماتم کرلیا لیکن انتہاپسندی کا عفریت جس طرح ہماری بستیوں کونگل رہا ہے۔ دہشت گردی نے ہمارے شہروں کوویرانے بنانے کا جو اہتمام کیا ہے۔ اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ہمارے حکمران اور معاملات انجان بن جانے والے مہر بان اسے ‘‘غیر وں’’ کی سازش کہتے ہیں۔ یہ بات کہ مسلمان کو قتل کرنے والا، اسکی جان ومال کو نقصان پہنچانے والا مسلمان نہیں ہوسکتا ، اتنی بار کہی گئی ہے کہ اب اس کی طرف کوئی دھیان بھی نہیں دیتا بلکہ لوگ ان جھوٹے اور کھوکھلے جملوں پر ہنستے ہیں۔
داتا دربار میں ہونے والے دھماکوں نے بہت سے خوش فہم لوگوں کا یہ مان توڑ دیا ہے کہ سید علی ہجویریؒ کا مزار محفوظ رہے گا۔ ان لوگوں کو یہ کیسے سمجھا یا جائے کہ خود کو جتنی اور دوسرے کو جہنمی سمجھنے سے زیادہ خطرناک کوئی بات نہیں ہوتی۔ اگر دوسرے کو کافر سمجھا جائے، اسے ‘‘غیر انسان’’ تصور کیا جائے تو اس کے چیتھڑے اڑاتے ہوئے دل کے اندر گرد ملال نہیں اڑتی ،آنکھوں میں نمی کا نشان نہیں ملتا ،سڑک بنانے والے راستے میں آنے والی چٹانیں ڈائنا مائٹ سے اڑاتے ہیں تو ریزہ ریزہ ہوجانے والی چٹانوں پر گریہ نہیں کیا جاتا ،خوشی منائی جاتی ہے کہ راستہ صاف ہوا۔ خلق خدا کو ‘‘غیر انسان سمجھنے والوں کے لئے اس کی کیا اہمیت ہے کہ کسی ماں کا جگر گوشہ ختم ہوا، کسی باپ کی کمر ٹوٹی ،سہاگن بیوہ ہوگئی اور بچے یتیم ۔انہوں نے اپنے ذہن میں اس ملک کی ‘‘تعمیر’’ کا جو نقشہ بنایا ہے ، اس کی راہ میں یہ لوگ چٹانیں ہیں جو ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ چٹانیں ‘‘انسان’’ کب ہوتی ہیں؟ انہیں بارود سے اڑادیا جائے تو اپنے ‘‘خوابستان’’ کےلئے راستہ ہموار ہوجاتا ہے۔ انہیں ریزہ ریزہ کردو اور ان کے دلوں کو خوف سے بھردو کہ خوفزدہ انسانوں کے دماغ کچھ نہیں سوچتے ،ان کی ارواح اپنا نظام نافذ کرنے والوں کے چنگل میں پھڑ پھڑ اتی رہتی ہیں ۔بغاوت کے راستے پر قدم نہیں دھرتیں۔
آج اگر یہ تسلیم کرلیا جائے تو خلق خدا کا بھلا ہوگا کہ یہ ہمارے اپنے مقتدرین تھے جو ذاتی اقتدار کے استحکام کے لئے سرابوں کی تلاش میں نکلے اور جنہوں نے ان عفریتوں کو جنم دیا۔ وہ انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے تھے ۔ کسی کو افغان میں تزویراتی گہرائی درکار تھی، کوئی لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کے خواب دیکھتا تھا، کسی کی نظر کا شغرو بخارا پرتھی ۔ خواب دیکھنے اور دکھانے والوں کا ایک جم غفیر تھا جس کی پرورش اور پرداخت 70کی دہائی سے شروع ہوئی۔ استین میں سانپ پالے گئے خلق خدا کے منہ سے نوالہ چھین کر، ان کے بچوں کو علم کی روشنی سے محروم کر کے ان سانپوں کو دودھ پلایا گیا اور اب وہی ہمیں ڈسنے نکلے ہیں۔ آج بھی ایک مکتبہ فکر سےتعلق رکھنے والے خود تو رہبر ورہنما بنے بیٹھے ہیں اور ملک میں ہنگامہ دار وگیر ہے کہ لوگ الامان ۔الامان پکارا ٹھے ہیں۔
داتا دربار پر خود کش حملے اس بات کا اشارہ ہیں کہ لڑائی اپنے آخری مرحلوں میں داخل ہوگئی ۔اب عام لوگوں کے سروں کی کھیتی زیادہ تیزی سے کاٹی جائے گی، ان کے محترم اورمقدس مقامات کی توہین زیادہ تندہی سے کی جائے گی۔ یہ بتانے کے لئے کہ اگر ہتھیار نہیں ڈالے گے تو ہر شہر ، ہر نگر، اس کی ہر روایت اور ثقافت دھول بنا کر اڑا دی جائے گی۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ خلق خدا ، تمر کے ان جنگلوں کی طرح ہے جو سمندر کی منہ زور موجوں کے لئے سدراہ ثابت ہوتے ہیں، جن کے جڑوں میں زندگی پرورش پاتی ہے ۔ یہ عفریت جوہماری بستیوں میں پھنکاتے پھرتے ہیں ، ان کا راستہ وزیر ومشیر نہیں روک سکتے کہ وہ تو خود قلعہ بندیوں میں رہنے پر مجبور ہیں، ان کی راہ تو وہی روکیں گے جن کے لباس میلے اور دل اجلے ہیں۔ رات کے اس عفریت سے کوئی یہ کہہ دے کہ یہ 50کی دہائی تھی جب ن م راشد نے اس کے بارے میں لکھا تھا ۔
رات عفریت سہی،
چار ،سوچھائے ہوئے موئے پریشاں جس کے خون آلودہ نگاہ ولب ودنداں جس کے ناخن تیز ہیں، سوہان دل وجاں کے رات عفریت سہی،
شکر اللہ کہ تابندہ ہےمہتاب ابھی
چند میناؤں میں باقی ہے مئے ناب ابھی
اور بے خواب مرے ساتھ ہیں احباب ابھی
رات عفریت سہی،
اسی عفریت نے سوبار ہزیمت پائی
اس کی بیدادے سے انسان نے راحت پائی
جلوۂ صبح طربناک کی دولت پائی
رات عفریت سہی،
آؤ احباب کہ پھر جشن سحر تازہ کریں
پھر تمناؤں کے عارض پرنیا غازہ کریں
ابن آدم کا بلند آج پھر آوازہ کریں
اس عفریت سے ابن آدم اور بنت آدم کی جنگ رنگ ونسل او رمسلک سے بالاتر ہے۔ یہ انسان کے اندر کے حسن اور تابانی کو بچانے کی جنگ ہے۔ اس میں رات کے عفریت ہار جائیں گے، خواہ کتنی ہی بار کسی درویش کے دربار اور کسی سخی سلطان کی سرکار کی بے حرمتی کریں۔ لوگ پلٹ پلٹ کر ان جگہوں پر آئیں گے جیسے حادثے کے دوسرے دن داتا کے دربار میں آئے ۔جیسے بے حرمتی کے بعد رحمان بابا کے مزار پر آئے ۔خلق خدا کے مرتبے بلند ہوں اور اس کے حوصلے بلند ترکہ آخری جیت اسی کی ہوتی ہے۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/night-monsters-/d/3156