Zahida Hena writes about Aqeel Abbas Jaffri’s book PAKISTAN CHRONICLE which covers the important events and happenings from the 14the August 1947 till the 31st March 2010. The book is replete with beautiful pictures, intelligent cartoons and important and rare photographs. The book is an encyclopedia of Pakistan, the history of Pakistan in a nutshell, according to Zahida Hena.
زاہدہ حنا
چند دنوں پہلے عقیل عباس جعفری بڑے سائز کی ایک جاذب نظر کتاب ‘‘پاکستان کرونیکل ’’ کے ساتھ آئے ۔ یہ ان کا نیا کارنامہ ہے‘صفحات 1080’ ہر صفحہ تصویروں سے مزین کہیں کارٹون اپنی جھلک دکھارہےہیں ، کہیں حبیب جالب کی کوئی شعلہ بار نظم ہے ، کسی صفحہ پر کسی صابن کا کسی بنا سپتی گھی کے اشتہار کا عکس ہے تو کہیں اس زمانے میں بننے اور یلیز ہونے والی فلموں کی خبریں ہیں، یہ وہ دن ہیں جب پاکستان میں دوپٹہ ،وعدہ ، قاتل اور حمیدہ ایسی فلمیں بنتی تھیں جن کے ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھی چاقو چل جاتے تھے اور بلیک میں ٹکٹ کی فروخت ایک عام سی بات تھی ۔سیاسی ،سماجی ، علمی ،ادبی ،ثقافتی اور فلمی خبروں کی تاریخ وارتفصیل عقیل عباس جعفری نے اس ‘‘پاکستان کرونیکل ’’ میں جمع کردی ہے جو 14اگست 1947سے 31مارچ 2010تک کی خبروں پر محیط ہے۔ یوں تو عقیل نے کئی کتابیں مرتب کیں۔لیکن جس کتاب کوبہت شہرت ملی وہ ‘‘پاکستان کے سیاسی وڈیرے ’’ تھی۔ ‘‘پاکستان کرونیکل’’جو پاکستان کا تاریخ اور انسائیکلو پیڈیا ہے، اس کی تربیت وتدوین ایک مشکل اور وقت طلب کام تھا۔ عقیل اس میں لگ بھگ بیس برس مصروف رہے۔ ہماری نسل جو پاکستان کے ماضی سے نا آشنا رکھی گئی اس کے لئے یہ ضخیم کتاب جام جہاں نما ہے ۔ یہ سال بہ سال اور ماہ بہ ماہ کے اہم واقعات کے بارے میں ہمیں بتاتی ہے۔ جو ش ملیح آبادی کب جہاں سے گزرہے اور قرۃ العین حیدر نے کب پاکستان سے ہندوستان کا رخ کیا۔ جاسوسی ناولوں کے بادشاہ ابن صفی نے کب ہندوستان کی شہریت ترک کی اورپاکستان آئے اور ذولفقار علی بھٹو اور نصرت بھٹو کی شادی کس تاریخ کو اور کہاں ہوئی۔ ساتھ ہی اس شادی کی تصویر بھی موجود ہے ۔ پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے ابھی صرف دوبرس ہوئے تھے کہ 11نومبر 1949کو کراچی کے نزدیک بابا آئی لینڈ والوں نے ایک وہیل مچھلی کا وزن 15اور 21ٹن کے درمیان تھا 1988کے گنیز بک آف ریکارڈ کے مطابق یہ آج تک دنیا میں پکڑی جانے والی سب سے بڑی وہیل مچھلی ہے۔
اس زمانے میں کراچی آنے والے خانماں برباد افراد ابھی سرچھپا نے کا ٹھکانہ ہی ڈھونڈ رہے تھے کہ یہ خبر شائع ہوئی اور اس کے چھپتے ہزاروں لوگ اپنے تمام غم بھول کو اس وہیل کو دیکھنے پہنچ گئے۔ آج ہم گلفٹن کا رخ کرتے ہیں تو فریئر ہال کی عمارت اور اس کے سبز زار کو چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور ایک نظر اس خاموش عمارت پر بھی ڈال لیتے ہیں جس کے گروکنکریٹ کی ایک دیوار اٹھی ہوئی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان مستعدد کھڑے نظر آتے ہیں ،دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعے کا امکان بھی ہوتو اس عمارت سے کئی سو گز پہلے اس سڑک کو کنٹینر کھڑے کر کے آنے جانے والی گاڑیوں کے لئے بند کردیا جاتا ہے ۔یہ امریکی قونصل خانے کی عمارت ہے ۔ دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہونے سے پہلے اس عمارت میں امریکی سفارت خانہ قائم تھا۔ اس عمارت کے بارے میں ‘‘پاکستان کرونیکل ’’ یہ خبر دیتا ہے کہ 9ستمبر 1957کو وزیر اعظم حسین شہید شہر وردی اور امریکی سفیر جیمزلی نگلے نے کراچی میں فیرئیر ہال کے سامنے امریکی سفارتخانے کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا ۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا نجیل پڑھی گئی۔ یہ چار منزلہ عمارت تقریباً 60لاکھ روپے کے کثیر سرمائے سے تیار ہونے والی تھی۔ جس میں سے پندرہ لاکھ روپے حکومت پاکستان کو فراہم کرنے تھے ، پاکستانی کرنسی کی بے توقیری ملاحظہ ہوکہ اب سے 50برس پہلے وسیع و عریض چار منزلہ عمارت 60لاکھ میں تعمیر ہوتی تھی اب اس رقم میں کراچی کے بعض علاقوں میں 120گز کا ایک منزلہ مکان ملتا ہے ۔اس تقریب سے خطا ب کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمارت پاکستان اور امریکہ کے مشترکہ نظریات کا مظہر ہوگی اور مدتوں دونوں ملکوں کے مستحکم رشتوں کی نمائندگی کرے گی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سابق صدر پاکستان کی روح عالم بالا میں آج کے امریکہ ، پاکستان تعلقات کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہوگی۔بنگلہ دیش بننے سے پہلے مشرقی پاکستان کے کھلاڑی ملک کا نام کس طر روشن کرتے تھے اس کاانداز ہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 16اگست 1958کو پاکستان کے نامور تیرا ک بروجن داس نے انگلستان کو فرانس سے منسلک کرنے والی مشہور دوبار انگلش چینل 14گھنٹے 52منٹ میں تیر کر عبور کی وہ یہ کارنامہ انجام دینے والے ایشیائی شخص تھے۔ پاکستان میں بروجن داس کے اس کارنامے کا زبردست جشن منایا گیا اور 25اگست 1958کو بروجن داس کی اس کامیابی کی خوشی میں ملک بھر میں عام تعطیل رہی۔آج ہمارے یہاں بروجن داس کے نام سےبھی کوئی واقف نہیں اور نئی نسل کے ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ بنگلہ دیش کبھی پاکستان کا مشرقی حصہ تھا۔ اس جشن کے صرف 13برس بعد مشرقی پاکستان میں بنگلہ کے دانشوروں ،استادوں، ادیبوں اور فنکاروں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ بنگلہ کے نامور صحافی اور ادیب شہید اللہ قیصر کے قتل اور ان کے چھوٹے بھائی ادیب فلم ساز ادارکا ر اور ہدایت کار ظہیر ریحان کے ہمیشہ کے لئے لاپتہ ہونے کی خبر بھی ہمیں ‘‘کرونیکل’’ سے ملتی ہے یہ وہی ظہیر ریحان ہیں جنہوں نے پاکستان کی پہلی رنگین اردو فلم ‘‘سنگم’’ بنائی تھی جس نے کامیابی کے ریکارڈ توڑدیے تھے۔
پاکستانی سرزمین پر امریکی اڈوں کی موجودگی پر کیسا شور وغوغا ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ 50برس سے چل رہا ہے ۔یکم مئی 1960کو سوویت وزیر اعظم خروشیف نے اعلان کیا کہ سوویت یونین نے امریکہ کا ایک یوٹو جاسوسی طیارہ مارگرایا ہے اور اس کے پائلٹ فرانسس گیری پاورز کو گرفتار کرلیا ہے۔ سوویت حکام کے مطابق یہ طیارہ سوویت یونین کی فضائی حدود میں تقریباً 60ہزار فٹ بلندی پر پرواز کررہا تھا اور پشاور کے نزدیک بڈبیر کے فضائی اڈے سے اڑا تھا، اس میں جدید ترین اور حساس ترین کیمرے لگے ہوئے تھے جن کی مدد سے یہ طیارہ سوویت یونین کی اہم تنصیبات کی تصویر یں کھینچ رہا تھا ۔ امریکا اور پاکستان دونوں نے سوویت یونین کے ان الزامات کی ترید کی مگر جب اگست 1960 میں گیری پاورز یرا یک سوویت عدالت میں مقدمہ چلا تو ثابت ہوگیا کہ یہ الزامات بالکل درست تھے۔یہ بین الاقوامی واقعہ پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے اس لیے بڑا اہم تھا کہ اس سے پاکستانیوں اور دنیا بھر کو معلوم ہوگیا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر امریکی فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے، سوویت یونین نے اس واقعے کے بعد پاکستان کو کبھی معاف نہیں کیا۔ ہمارے حکمرانوں نے پڑوس میں موجود ایک عظیم عالمی طاقت سے دشمنی مول لینے میں کوئی حرج نہ سمجھا اور دوستی ہزاروں میل دور بیٹھے امریکا سے کی۔ اس ‘‘دوستی’’ کی بھاری قیمت ہم آج بھی ادا کررہے ہیں اور آئندہ بھی جانے یہ ‘‘دوستی’’ ہمیں کتنی مہنگی پڑے ۔ اسی سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا پہلا پاسپورٹ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو جاری ہوا تھا، ان کے قتل کے بعد یہ پاسپورٹ حکومت پاکستان کو واپس کردیا گیا اور 23نومبر 1978کو امیگریشن کی ضائع کی جانے والی ردی کے ڈھیر سے ملا۔ اب ہم ‘‘22خاندانوں’’ کا چرچا نہیں سنتے شاید اس لیے کہ اب ہر شہر میں 22ارب پتی خاندان موجود ہیں لیکن ‘‘کرونیکل’’ کے صفحات اس زمانے کی خبر سناتے ہیں جب جنرل ایوب خان کے ‘‘عہد زریں’’ کے زمانے میں پاکستان کے ایک ماہر اقتصادیات جناب محبوب الحق نے جو ان دنوں قومی اسمبلی کے رکن بھی تھے 15 جون 1964کو بجٹ تقریر کرتے ہوئے یہ انکشاف کرکے سب کو حیران کردیا تھا کہ پاکستان کی قومی دولت 60سے 80فیصد حصے پر صرف ‘‘بائیس خاندان’’ قابض ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ان 22خاندانوں نے صنعتی اداروں کے 66فیصدبیمہ کمپنیوں کے 79فیصد اور بینکوں کے 80فیصد سرمایہ پر تصرف ہے۔ جناب محبوب الحق کی اس تقریر کااخبارات میں بڑا چرچا ہوا،حزب اختلاف نے بھی اس حوالے سے حکومت پر کڑی تنقید کی اور حبیب جالب نےاپنی مشہور نظم ‘‘بیس گھرانے ’’ تحریر کی جس کا پہلی شعر ایوب خان کی حکومت کے خلاف فرد جرم بن گیا ۔جالب نے لکھا تھا۔
بیس گھرانے ہیں آباد اور کروڑوں ہیں ناشادصدر ایوب زندہ باد یہ محض چند واقعات ہیں جو ‘‘کرونیکل’’ سےمنتخب کیے گئے 1080صفحات کی یہ کتاب نئی نسل کے لیے چشم کشا ہے ۔ عقیل عباس جعفری قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے پاکستان کی تاریخ اس کتاب کے کوزے میں بند کردی ہے۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/our-history-book-pakistan-chronicle/d/2873